گاڑیوں میں بٹھانے والے اور بیٹھنے والیاں سماج کا مکمل عکس نہیں ہیں!

زندگی اتنی بھی بھیانک نہیں جتنا اسے بنا دیا گیا ہے مگر اتنی خوبصورت بھی نہیں جتنی کسی بچے کے حسین خوابوں میں دکھائی دیتی ہے۔ عورت اور مرد اپنے اپنے حق پہ ہر جگہ "چنگھاڑتے” نظر آتے ہیں(لفظ "چنگھاڑنا”اس لیے استعمال کیا کیونکہ اب ان موضوعات پہ لکھنا اور سستی شہرت کمانا کافی مقبول ہو چکا ہے۔) دونوں اطراف کچھ ایسی غلط فہمیاں بڑھ چکی ہیں کہ ہر عورت مردوں کے لیے "ٹھرکی” ، "چِپکُو” اور "بُھونڈ ” جیسے الفاظ استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف مردوں کا یہ خیال ہے کہ ہر عورت درمیانی راستہ اپناتے ہوئے ترقی کرتی ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ حیرت ہے جب سے ہمیں سوشل میڈیا جیسی سہولیات میسر ہوئی ہیں ہم اس قدر "نان سوشل” کیوں ہوگئے کہ ان غلط فہمیوں کا بُرا اثر ہماری نجی زندگیوں پہ بھی ہونے لگا ہے۔

ممکن ہے میرے نقطہ نظر سے آپ اتفاق نہ کرتے ہوں مگر کچھ باتیں دونوں اطراف کے کھلے سچ ہیں ۔ ہر عورت کی یہ ازلی خواہش ہے کہ اُس کا شوہر صرف اسی کا رہے اور باقی عورتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھ لیا کرے۔ جبکہ مردوں کی مثال کسی شاہی خاندان کے ڈنر پہ آئے ہوئے اُس انسان جیسی ہوتی ہے جس کے لیے ہر ڈش کو "چکھنا” اوّلین فرض ہوتا ہے۔ دوسری طرف اپنے گھر کی عورت کے لیے مردوں کے "احساسِ ملکیت” کی کہانیوں پہ میرے کمزور الفاظ ہیچ پڑ جائیں گے۔ سوشل میڈیا ہو یا عام زندگی جو عورت ذرا سی پُر اعتمادی سے سر اُٹھا کے چلتی دکھائی دے یہ سب "بھائی لوگ” آ جاتے ہیں اس کو لفٹ دینے اور شاپنگ کی تجویز پیش کرنے۔ میں ایسے کئی "شُرفاء” کو جانتی ہوں جو گھر کی عورتوں کو کھانا پکانے اور بچے پیدا کرنے سے زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے مگر کام کی غرض سے گھر سے باہر آئی ہوئی عورت کو اشارے بھی کریں گے اور اس کے لیے پیار بھی جگائیں گے اور محبت بھری باتیں بھی کریں گے۔

کچھ روز قبل ایک تحریر نظروں کے سامنے آئی جس میں مردوں نے اپنے حقوق کی آواز بلند کرتے ہوئے یہ موقف دیا کہ یہ نام نہاد خواتین کے حقوق کی علمبردار عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مرد تو جیسے اپنے ازار بند ڈھیلے کیے پھرتے ہیں۔ ازار بند کا تو پتہ نہیں مگر کچھ مردوں کے دماغ کے پیچ ضرور ڈھیلے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مال روڈ پرکسی سٹاپ پر بس کا انتظار کرتی ایک اکیلی لڑکی کے لیے گاڑی روک کے ڈراپ کر دینے کی آفر آسانی سے مل سکتی ہے۔ یہی نہیں کئی دفعہ کافی عمر رسیدہ مردوں کو بھی گاڑی میں ایک "خاص” طریقے سے اشارے کرتے اور برابر والی نشست کا دروازہ کھولنے کی پیشکش کرتے دیکھا ہے۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ تصویر کا دوسرا رُخ دکھانا ابھی باقی ہے۔ کئی روز کی مسلسل سوچ بچار اور پریشانی کے بعد جو نتائج میرے سامنے آئے وہ کچھ زیادہ ہی بھیانک تھے۔ میں اپنے ہاسٹل لائف کے مشاہدے سے جس نتیجے پہ پہنچی ہوں اُن میں سے چند ایک یہ بھی ہیں کہ جب کسی پسماندہ علاقے سے کم پڑھی لکھی لڑکی نوکری کی تلاش میں بڑے شہروں کا رُخ کرتی ملے اور چند روز میں ہی اُس کے سادہ لباس کی جگہ مہنگی جینز اور ٹاپ آ جائے تو سمجھ جاؤ کہ ساری دال ہی کالی ہے۔

ایک انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق زیادہ تر لڑکیاں کھانا کھانے اور شاپنگ کرنے کی غرض سے مردوں سے تعلقات بناتی ہیں۔( ہو سکتا ہے بہت سی خواتین نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی میرے لیے گالیوں والی تسبیح کرنا شروع کر دی ہو مگر پہلے بات تو کرنے دیں) ان دنوں ہاسٹل میں ایک ایسی لڑکی سے جان پہچان ہوئی ہے جس کا پنجاب کے ایک دور دراز قصبے سے تعلق ہے اور لاہور میں بڑے بڑے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے آئی ہے۔ ذرا سی تعلیم ہوتی تو اچھی نوکری بھی مل ہی جانی تھی مگر شام کو ہنستی مسکراتی اس حسینہ کو ہزاروں روپے کی شاپنگ کیے بغیر آتے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ کچھ جُملے جو ایک لڑکی ہوتے ہوئے میرے لیے سُننا بھی نہایت شرم ناک تھے مجھے اس انجام تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ سماج میں غلط فہمیاں بڑھانے والے یہ مُٹھی بھر "گاڑی” والے مرد اور "شاپنگ” والی خواتین ہیں۔ ایسے لوگوں کی اِن حرکتوں کی وجہ سے پڑھے لکھے افراد (خواہ وہ مرد ہے یا عورت) اس لیے بھی خائف رہتے ہیں کیونکہ کہیں نا کہیں اُن کی ذات کا استحصال کرنے والے یہی ناسور ہوتے ہیں۔ جس طرح ہر مرد ازار بند کھول کے نہیں پھرتا اسی طرح ہر ترقی کرنے والی عورت بھی ترقی کے لیے درمیانی راستے کا انتخاب کرنا پسند نہیں کرتی۔

قوانین اور اصولوں کی پاسداری کرنا پڑھے لکھے افراد کو بہتیرا آتا ہے۔ زندگی میں مسائل تب جنم لیتے ہیں جب ہم ایک محدود دائرے میں رہ کر سوچتے ہیں اور عام انسانوں میں "فرشتہ” تلاش کرنے کی خواہش لیے گھومتے ہیں۔ مگر یہ پیاری زندگی تو پروردگار کا دیا ہوا ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ اس کی خوبصورتی میں رنگ تب ہی بھرے جا سکتے ہیں جب ہم سماج کی خوب صورت تصویر کا بُرا رُخ پیش کرنے والے لوگوں کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے یہ باور نہ کروا دیں کہ کون ہے یہ گستاخ۔۔۔۔۔ تاخ۔۔۔ تڑاخ خ خ خ خ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے