حج اور قربانی کے حوالے سے چند فقہی مسائل

حج اور قربانی کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ ا س حوالے سے چند اہم سوالات ہیں ‘ اختصار کے ساتھ ان سوالات کے جوابات پیشِ خدمت ہیں‘ مثلاً : کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟ کیونکہ سنا ہے کہ دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ان کی افزائشِ نسل حرام جانور سے کرائی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میںیہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا‘بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے‘ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ”یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ‘‘ تاہم ‘اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ گائیں حلال ہیں ‘ ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے ‘ کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے ‘ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں : ”اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو ‘ وہ ماں کے تابع ہوتا ہے ‘ کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے؛ حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا ‘ تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا ‘ اس کی قربانی جائز ہے ‘‘۔

اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں : ”کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کامسئلہ ہے ) کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں (مادہ)کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے ۔ پس‘ اسی کا اعتبار کیا گیا ہے ‘‘ (فتح القدیر ‘ ج: 9 ص : 532) ‘‘۔

ہمارے بہت سے لوگ مغربی ممالک میں روز گا ر کے سلسلے میں مقیم ہیں ‘ وہ اپنی قربانی اپنے آبائی وطن میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں ‘ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وہاں بعض صورتوں میں اُن ممالک کے قوانین کی وجہ سے قربانی کرنا دشوار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہاں مستحقین دستیاب نہیں ‘لہٰذا وہ کسی رشتہ داریا دینی مدرسہ یا رفاہی ادارے کو وکیل بنا کر قربانی کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں ‘تاکہ قربانی مستحقین تک پہنچ جائے ۔ اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہوگا؛جس دن پاکستان میں کسی ایسے شخص کی قربانی بطور وکیل کی جارہی ہے ‘ جو امریکہ یا کینیڈا میں مقیم ہے ‘ توضروری ہے کہ اس دن وہاں قربانی کے ایام ہوں (یعنی دس تا بارہ ذوالحجہ) اور یہاں بھی وہ قربانی کا دن ہو ‘ خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا ‘ کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے؛ البتہ وقت میں مقامِ ذبح کا اعتبار ہو گا‘ جن شہروں یا قصبات میں نماز عید ہوتی ہے ‘وہاں دس ذوالحجہ کو پہلی نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے گی ‘تین دن اور دو راتیں ایام قربانی ہیں‘ ہمارے فقہائے کرام نے رات کو قربانی کرنے کو مکروہ لکھا تھا اور اس کی علت رات کا اندھیرا ہے‘ لیکن اب‘ بجلی کی روشنی کے سبب وجہِ کراہت مرتفع ہوچکی ہے۔

ایک فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال‘ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ) میں حرم میں پہنچ گیا تو اس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہو گا ۔ اب‘ پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اوربعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑ تا ہے اور اب خود سعودی حکومت شوال کے مہینے میں عمرے کے ویزے جاری کرتی ہے۔ پس ‘سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے؟ حالانکہ اُن کے پاس حج تک کے لیے قیام وطعام کے لیے پیسے نہیں ہوتے ‘ مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں ‘ اُن پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس آنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے‘کیونکہ حج صاحب ِ استطاعت پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے اور اگر ‘اُن کے پاس تکمیل ِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے‘ لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی‘ تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ جب ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتاہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یابے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آسکتی ہے ‘لہٰذایہ شرعاً ناجائز ہے ۔

رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے : ”مومن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ‘ صحابہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ)کوئی شخص اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا؟‘ آپ ﷺنے فرمایا : وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے ‘ جس سے عہدہ برا ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا (اورانجامِ کار اسے ذلت کا سامنا کرناپڑتاہے )‘‘( ترمذی : 2254)۔الغرض مومن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے ۔

جو شخص بیک وقت حج وعمرے کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام ہی میں رہے اور حج ادا کرکے احرام کھولے‘ اسے قارِن (یعنی قِران کرنے والا )کہتے ہیںاور اگر کوئی عمرہ کی نیت کرے اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر مکہ مکرمہ سے آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ جائے اور حج مکمل کرے ‘ تو اسے تمتُّع اور ایسے شخص کومُتَمَتِّعْ کہتے ہیں ۔ تمتع اور قران کرنے والے پر دو عبادات (عمرہ وحج ) کی سعادت سے سرفراز ہونے پر شکر انے کا دَم (قربانی )واجب ہے اور اسے دمِ تمتُّع اور دمِ قِران کہتے ہیں ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ قارِن ؛چونکہ عمرہ ادا کرنے کے بعد بدستور اِحرام میں رہتا ہے اور مُحرِم ہوتا ہے ‘ اس لیے اگر اس سے کوئی جنایت سرزد ہوجائے ‘ تو جرم کی نوعیت کے اعتبار سے اس پر دو دم یا دو صدقے ہوں گے ‘ ”ہدایہ ‘‘ میں اسی طرح ہے ‘ لیکن اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے ۔اگر‘ قارِن نے اِحرام کی کسی جنایت کا ارتکاب کیا‘ جیسے سلا ہوا لباس پہن لیا یا بال کٹائے یا ناخن تراش لیے یا خوشبو استعمال کی ‘ تو اسے دمِ قران (شکرانے کی قربانی ) کے علاو ہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے دوکفارے(خواہ دم ہو یا صدقہ ) دینے ہوں گے ‘ کیونکہ یہ جنایت عمرے اور حج دونوں کے احرام سے متعلق ہے ‘ تو جز ا بھی دو ہوں گی اور اگر‘ اس سے ایسی جنایت سرزد ہوئی‘ جس کا تعلق صرف عمرے یا صرف حج کے واجبات سے ہے تو دمِ قران کے علاوہ صرف ایک اضافی کفّارہ (خواہ دم ہو یا صدقہ )دینا ہوگا ‘ جیسے صرف عمرے کا طواف بے وضو کیا یا جنابت کی حالت میں کیا یا عمرے کی سعی چھوڑ دی اور اسی طرح حج کا طواف جنابت کی حالت میں یا بے وضو کیا یا مغرب سے پہلے عرفات سے نکل گیا یا حج کی سعی یا رمی چھوڑ دی یا رمی سے پہلے حلق کر لیا یا قربانی کر لی (اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیک وقت ان ساری جنایات کا ارتکا ب کیا‘ بلکہ ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب کیا )تو صرف ایک کفّارہ ہو گا ‘ کیونکہ ان اُمور کا تعلق صرف حج سے ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ اگر ‘بالفرض ایک ہی حج میں ایک سے زائد جنایات کا ارتکاب کر دیا ‘ تو پھرجنایات کے مطابق‘ اُتنے ہی دم یا صدقے دینے ہوں گے ۔

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ‘وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا ‘اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے ‘اس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے ‘نہ کرے تو مضائقہ نہیںکہ یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس نے ذو الحجّہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ‘تو جب تک قربانی نہ کرلے ‘بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے‘ یعنی انہیں نہ ترشوائے ‘‘( ترمذی: 1523)
احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے ‘‘مونچھیں پست کرانے ‘بغل اورزیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے ‘وہ چالیس روز ہے ۔اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے ‘ حدیث میں ہے: ”حضرت انس بیان کرتے ہیں : مونچھیں کاٹنے‘ ناخن ترشوانے ‘ بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دُور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں‘‘ ( مسلم :599)۔

امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں: ”اگرکسی شخص نے 31دن سے کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن نہ تراشے ہوں‘ نہ خط بنوایاہوکہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوگیا ‘تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو‘اس مستحب پرعمل نہیں کرسکتاکہ اب دسویں تک رکھے گاتو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا ‘ اورچالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے اورمستحب کی رعایت کرنے کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ردالمحتار میں ہے : ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میںآپ نے فرمایاکہ سنّت کو مؤخر نہ کیاجائے‘ جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے ‘تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ تویہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیںہے ‘ لہٰذا مستحب ہے ‘ ہاں!اگر استحباب پر عمل اباحت کی مدت میں تاخیر کا باعث بنے‘ جس کی انتہا چالیس روز ہے ‘ تواستحباب پر عمل کو ترک کردے‘‘ (فتاویٰ رضویہ ‘جلد20‘ ص:354بتصرف)۔

بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں ‘ اُنہیں ذو الحجہ کے چاند سے ایک دودن پہلے طہارت ‘یعنی ناخن تراشنے ‘مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہئیں‘ تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے