سیاست میں تشدد کا بڑھتا رجحان

پچھلے کئی برسوں سے ہمارا وطن مختلف اقسام کے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے ۔ بیروزگاری ، دہشتگردی عروج پر ہے البتہ دہشت گردی میں عوام اور فوج کی بے بہا قربانیوں کے بعد کچھ ٹھہراؤ آیا ہے تاہم اس بارے کوئی حتمی بات کرنے کا موسم ابھی نہیں ہے۔ بیروزگاری ، مہنگائی بدستور ملک و قوم کے مسائل بڑھائے جا رہی ہے اس صورتحال میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ’’ مذہبی تشدد‘‘کے بعد اب ’’سیاست ‘‘میں بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

سیاستدانوں کی اقتدار کی جنگ میں جو اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا ہے پوری قوم اس منظرِ تنگ نظری کی گواہ ہے۔ جہاں کسی ایک رہنما نے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالا وہاں درباریوں نے بھی وہی کیچڑ اٹھا کر ان پر لیپنے میں کمی نہیں چھوڑی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مذہبی تشدد نے ملک کو عدم استحکام کی چوٹیوں پر لے جا کر وہاں سے ایسے نیچے پھینکا کہ ابھی تک ہم استحکام کی کرچیوں کو چُن چُن کر تھک گئے ہیں مگر استحکام کسی شیشے کی طرح پھر سے جُڑ کر مضبوط ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے بھی سیاست میں بھی ’’تشدد‘‘ کے رویے کوپروان چڑھارہے ہیں ۔ ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں جن سے میرا وطن پھر سے عدم استحکام کی راہ پر چلتا دکھائی دیتا ہے ۔ الزامات لگانے پر پابندی نہیں مگر تنگ نظر رویے ، زبان درازی اور لیڈروں کی جانب سے جلسہ گاہوں میں دوسرے سیاست دانوں کی نقالی کرنے سے ہم نوجوان نسل کو کیا سکھا رہے ہیں۔۔۔!

ہر سیاسی تنظیم کا کارکن دوسری پارٹی کے کارکن کی بات سننا مناسب ہی نہیں سمجھتا اگر اختلافی بات کی جائے تو گریبان پکڑنے تک بات آن پہنچتی ہے۔ یہ سب میرے وطن کے لیے غلط نہیں ہے کیا؟ ناجانے کب تک ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما ملک و قوم کو مزید تباہی کے راستے پر ڈالنے سے باز آتے ہیں۔ تمام رہنماؤں کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیے تاکہ کسی مشکل وقت میں لوگوں کوٹیبل ٹاک پر مل بیٹھنے کا حوصلہ ہو ۔ اس سے ملک و قوم استحکام پائیں گے وگرنہ ان حالات کے ہوتے ہوئے ملک کو کسی بھارت ، امریکہ،اسرائیل کی ضرورت نہیں ہم خود اس کے ’’دشمن ‘‘ اس کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے