مسئلہ کشمیر،اقوام متحدہ اورشاہ محمود قریشی کاسچ

وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کے برعکس مسئلہ کشمیر کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے رکھی۔آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں لے جانے کیلئے وکیل کی ضرورت تھی۔دورہ مظفرآباد سے قبل میں چین گیا تھا، آپ کو مبارک ہو چین آپ کی وکالت کیلئے تیار ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تنازع ریاست جموں وکشمیر میں باشندگان ریاست کے وکیل ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی گفتگو سے یہ عیاں ہوا کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ اہل کشمیر کے وکیل کو بھی وکیل کرنا پڑ گیا۔تاہم میں بحیثیت باشندہ ریاست جموں وکشمیر شاہ محمود قریشی کو اس لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اس خطہ کے لوگوں کو سیڑھی پر نہیں چڑھایا بلکہ جو زمینی حقائق ہیں ،وہ سامنے رکھے اور عالمی سطح پر جو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اس کا کھل کر اظہار کیا۔

سچ یہ ہے کہ ملکوں کے تعلقات ان کے اسٹریٹجک مفادات اور معیشت سے جڑے ہوتے ہیں۔ہندوستان کے جو پانچ بڑے اسلامی ممالک کاروباری پارٹنر ہیں، اس میں متحدہ عرب امارات 49ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر،26ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب دوسرے،19ارب ڈالر کے ساتھ انڈونیشیا تیسرے،15ارب ڈالر کے ساتھ قطر چوتھے،15ارب ڈالر کے ساتھ عراق پانچویں نمبر پر اور 14ارب ڈالر کے ساتھ کویت چھٹے نمبر پر ہے۔ایسے میں مسلم ممالک کیوں کر ہمارا ساتھ دیں گے؟

15اگست 2019 کے اخبارات میں سعودی کمپنی آرامکو کا بھارتی کمپنی سے 24کھرب کا معاہدہ ہوا ہے ، ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟انڈیا کے کاروباری پارٹنر میں چین 84ارب ڈالر کے ساتھ پہلے اور امریکہ 74ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ہندوستان مجموعی طور پر جو اسلحہ خریدتا ہے ، اس کا 68 فیصد صرف روس سے خریدتا ہے۔ان مشکل حالات میں مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں جائے گا تو نتائج ماضی کی طرح ہی ہوں گے۔

آئیے دیکھتے ہیں ماضی میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ میں کیا کچھ ہوتا رہا۔

یکم جنوری 1948 کو تنازع کشمیر اقوام متحدہ میں پیش ہوا ، بعد ازاں اقوام متحدہ نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادیں منظور کیں۔ 1949 ہی میں اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کی تشریح کے حوالے سے اٹھنے والے باہمی اختلاف کو ثالثی کے لیے ناظم رائے شماری کے سامنے پیش کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس تجویز کو برطانیہ کی بھی حمایت حاصل تھی۔

دسمبر 1949 میں سلامتی کونسل کے صدر جنرل میکناٹن نے جموں کشمیر سے دونوں ممالک کی فوجوں کے انخلا کی تجویز پیش کی۔ جسے پاکستان نے منظور کر لیا۔ لیکن بھارت نے محدود فوج رکھنے پر اصرار کیا۔ مارچ 1950 میں سلامتی کونسل کی ہدایت پر اقوام متحدہ کے سر اون ڈکسن نے فوجوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے سامنے اپنے تجاویز پیش کیں۔ اقوام متحدہ اس فیصلے پر بھی عمل درآمد نہ کروا سکا۔

جنوری 1951 میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کو ممکن بنانے کے لیے دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم نے ہرممکن سفارتی کوشش کی کہ وہ دونوں ملک فوجوں کو غیر مسلح کرنے اور انخلا پر رضامند ہو جائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے دونوں ملکوں کے سامنے درج ذیل تجاویز پیش کیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو تسلیم کر لیں۔

الف۔ ریاست میں دولت مشترکہ کی فوج جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل ہو، تعینات کی جائے۔
ب۔ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ فوج کا تعین کیا جائے۔

ج۔ ناظم رائے شماری کو اس امر کی اجازت دی جائے کہ وہ استصواب رائے کے لیے مقامی فوج کا قیام عمل میں لائے۔ لیکن اس تجویز پر دونوں ممالک کا اتفاق نہ ہو سکا۔

مارچ 1951 میں سلامتی کونسل کے صدر مونیز جو برازیل کے سفارت کار بھی تھے، نے تجویز پیش کی کہ دونوں ملک تمام اختلافات کو ثالثی کے ذریعہ حل کر لیں اور ثالث کے فیصلے کو حتمی سمجھا جائے۔ اس پر بھی دونوں ممالک متفق نہ ہو سکے۔ اسی دوران سلامتی کونسل نے بھی اپنی ایک قرارداد میں ایسی ہی ایک تجویز پیش کی۔ اس سلسلہ میں مارچ اور دسمبر کے درمیان کونسل کے نمائندے ڈاکٹر گراہم نے فوجوں کو غیر مسلح کرنے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے سامنے کئی ایک تجاویز پیش کیں، لیکن حسب سابق دونوں ممالک پھر ایک نکتے پر جمع نہ ہو سکے۔

دسمبر 1952 میں سلامتی کونسل نے پاکستان اور بھارت پر اپنی ایک اور قرارداد کے ذریعہ زور ڈالا کہ وہ ریاست میں اپنی اپنی فوجوں میں کمی کر دیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ فوجوں کی تعداد گھٹا کر 6 ہزار سے 3 ہزار کر دے، جبکہ بھارت پر یہ تعداد 18 ہزار سے 16 ہزار کرنے پر زور دیا گیا۔ دونوں ممالک کے پھر متفق نہ ہونے کی وجہ سے یہ تجویز بھی تشنہ رہی۔

فروری 1957 میں سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ممکنہ امکانات پر غور کرنے کے لیے سویڈن کے سفیر گنر جیرنگ کو مقرر کیا۔ اس موقعہ پر بھارت نے ایک نیا سوال اٹھا دیا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ چنانچہ مذکورہ نمائندہ نے تجویز پیش کی کہ اس مسئلہ کو کہ آیا پاکستان نے ان قراردادوں پر عمل کیا ہے یا نہیں، غیر جانبدارانہ تحقیق کے لیے پیش کیا جائے۔ یہ تجویز بھی عدم اتفاق کی نذر ہو گئی۔

مارچ 1958 میں سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کی روشنی میں ڈاکٹر گراہم نے دونوں ملکوں کے سامنے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا:

الف۔ دونوں ممالک پر امن رہنے کا اعلان کر دیں۔

ب۔ جنگ بندی لائن کے تحفظ اور سلامتی کا پھر سے اقرار کریں۔

اس نکتہ پر سیر حاصل غور و خوض کیا جائے کہ پاکستانی فوج کے زیر انتظام علاقوں میں سے مذکورہ فوج کے انخلا کے بعد مجوزہ علاقوں کا انتظام کیسے سنبھالا جائے گا اور ان کی حفاظت کیا کیا انتظام ہو گا، اور کیا یہ چیز ممکن ہے کہ ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی فوج کا تعین کیا جائے؟

دونوں ممالک کے سربراہ اقوام متحدہ کے نمائندوں کی نگرانی میں باہم ملاقات کریں۔ یہ تجویز بھی مسترد کر دی گئی۔

27/ اپریل 1962 کو پاکستان کی درخواست پر سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا۔ پاکستان نے سلامتی کونسل سے اس کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔ بھارتی نمائندے نے اس موضوع پر مسئلہ کشمیر کے وجود سے ہی انکار کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ”کشمیر کا بھارت سے الحاق حتمی اور آخری ہے۔ لہذا اس پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کی جا سکتی۔“

سوویت یونین کے سوا سلامتی کونسل کے تمام اراکین نے بھارت کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر امریکہ اور برطانیہ نے کوشش کی کہ ایک بے ضرر سی قرارداد پاس ہو جائے، جس میں دونوں ممالک سے مطالبہ کیا جائے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔ مگر سوویت نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔

سوویت یونین کے اس دوسرے ویٹو (پہلا 1957) نے عملاََ پاکستان پر واضح کر دیا کہ اب قضیہ کشمیر میں اقوام متحدہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

1958 سے 1965 تک کے عرصے میں عملاََ اقوام متحدہ تنازع کشمیر سے لاتعلق رہی۔ 1962 کی چین، بھارت جنگ نے بھارت کی عالمی طاقتوں کی نظر میں اہمیت کئی گنا بڑھا دی۔ اور بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط حصار سمجھا جانے لگا۔ بعد ازاں شملہ معاہدے سے لے کر 1989 تک شملہ معاہدے کے تحت کشمیر پر مذاکرات ہوئے، اور نہ ہی یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا۔ حتیٰ کہ اس دوران اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھی کبھی کشمیر کا تذکرہ نہیں کیا۔

1989 کے آخری ہفتوں میں تحریک آزادی میں شدت آئی۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے ممکنہ کردار پر ایک مرتبہ پھر از سر نو بحث نے جنم لیا۔ 23/ جنوری 1990 کو سرینگر میں تقریباََ چار لاکھ افراد نے اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے سرینگر میں قائم دفاتر کے سامنے مظاہرہ کیا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں اپنی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کروائے۔

21/ ستمبر 1990 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے کہا کہ ”مجھے یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت جنگ کے بغیر مسئلہ کشمیر حل کر لیں گے۔”

23/ اپریل 1992 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”مسئلہ کشمیر کا بہترین حل یہ ہے کہ دونوں ممالک براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دونوں ممالک اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست نہیں کرتے،تب تک اقوام متحدہ کوئی کردار ادا کرنے سے معذور ہے۔

26/ اپریل کو اسلام آباد میں بطروس غالی نے کہا کہ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے لیے تیار ہے۔

وزیراعظم (وقت)پاکستان بے نظیر بھٹو سے ایک ملاقات کے دوران بطروس غالی نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور وہ سلامتی کونسل میں متنازع علاقے کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہیں گے۔

اقوام متحدہ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کا فوری طور پر سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

پاکستان نے اکتوبر 1994 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی طور پر اس قرارداد کو کشمیر پر اسلامی کانفرنس کے رابطہ گروپ کی طرف سے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں لابنگ بھی کی گئی، مگر بعد میں قرارداد پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کشمیر کاز کو دھچکا لگا اور دُنیا کو معلوم ہوا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہے۔

2/ اگست 1996 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے صدر کا ایک بیان جاری کیا، جس کے مطابق سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ جن امور پر پچھلے پانچ سال کے دوران سلامتی کونسل میں بحث نہیں ہوئی، انہیں ایجنڈے سے خارج کر دیا جائے۔ سلامتی کونسل کے صدر ٹواینل (جرمنی) نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تنازعہ کشمیر اور دیگر 49 امور (بشمول فلسطین، حیدرآباد، مشرقی تیمور، کیوبا) کو سلامتی کونسل کے زیر غور امور کی فہرست سے اس لیے خارج کیا گیا ہے کہ ”پیپر ورک“ کم اور آسان ہو۔

جب اخبار نویسوں نے فیصلے کی تفصیلات معلوم کرنا چاہیں اور پوچھا گیا کہ ”کشمیر کا تنازعہ تو ابھی حل نہیں ہوا، اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا عملی نفاذ ابھی باقی ہے تو ایسے مسئلہ کو ایجنڈے سے کیسے حذف کیا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی سفارت کار، جس کی صدارت میں یہ فیصلہ ہوا، نے ایجنڈے اور ”زیر غور“ میں فنی فرق کا سہارا لیا۔ وہ ”فنی فرق“ کی وضاحت نہ کر سکے، تاہم انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ متعلقہ فریقوں اور دیگر اراکین کے ساتھ مشورہ کیوں نہیں کیا۔ لیکن بعد میں پاکستان کے اصرار اور دباؤ پر کشمیر کے متعلقہ فیصلے کو ایک سال کے لیے واپس لے لیا گیا۔

5اگست 2019 کے بھارتی فیصلہ کے بعد گرچہ حکومت پاکستان کی طرف سے جارحانہ اقدامات کیے گئے ہیں تاہم ماضی کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات کے نتائج شاید اہل کشمیر کے حق میں نہ ہوں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے،حکومت پاکستان کے پاس واحد آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ وہ آزادکشمیر حکومت کو پہلے خود تسلیم کرے پھر اسے عالمی سطح پر تسلیم کروائے اور پھر بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو چھڑانے کیلئے آزادکشمیر حکومت اپنا مقدمہ خود عالمی برادری کے سامنے رکھے۔

آج شہ رگ کے دعوے داروں کو ماضی کی غلطیوں کا احساس کرنا ہوگا۔ جب یہ معلوم تھا کہ آپ کی فوج بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کیلئے لائن آف کنٹرول عبور نہیں کر سکتی تو پھر اس تحریک کو کشمیریوں کے ہاتھ میں رکھا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔آج 80لاکھ اہل کشمیر گزشتہ 12دنوں سے محصور ہیں،خوراک،ادویات ناپید ہیں،ایک انسانی المیہ برپا ہے اور شہ رگ کے دعوے دارشہ رگ سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، اس سے بڑا سنجیدہ مذاق کیا ہوگا؟

امید تھی لشکر طیبہ،جیش محمد میدان میں اتریں گے لیکن وہ تو غائب ہیں،کل جب ہم یہ کہتے تھے کہ اس تحریک کو اہل جموں وکشمیر کے ہاتھ میں رہنے دو تو اس وقت ہمیں غدار کہا جاتا رہا آج غدار کون ہے،آج جو قتل و غارت ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟سچ یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی قومی آزادی کی تحریک ہمیشہ غلط بیانی،مصلحت اور کاروباری مفادات کے تحت لڑی گئی جس کی قیمت ہم سب ادا کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے