عروج و زوال کی کہانی

چند سال پہلے ایک ریسرچ پیپر ہاتھ لگا تھا جس میں جھٹلائے نہ جا سکنے والے دلائل اور تاریخی ثبوتوں کی روشنی میں بتایا گیا تھا کہ قوموں کے عروج و زوال کے پیچھے اصل وجوہات، اسباب اور محرکات کیا ہوتے ہیں۔اسے پڑھنے کے بعد میں کچھ دن خاصا ڈپریشن کا شکار رہا کیونکہ عروج پانے والی عادات میں سے ایک بھی مجھے اپنے ہاں دکھائی نہیں دی ۔سوچا اس پر کالم لکھ کر صحرا میں اذان دوں گا کہ انہی دنوں ’’بیلی پور ‘‘ سے شہر شفٹ ہونا پڑا ۔اسی شفٹنگ میں وہ قیمتی دستاویز ادھر ادھر ہو گئی کہ اب تک میری آدھی لائبریری ’’بیلی پور ‘‘ اور آدھی PCSIRوالے گھر میں ہے کیونکہ موجودہ سائز کے گھر میں اتنی بڑی سٹڈی کی گنجائش نہیں ۔یہی نہیں کچھ اور کتابیں بھی دائیں بائیں ہو گئیں۔

آج کل ایک بار پھر انہیں ٹریس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔کسی بھی قوم کے عروج کیلئے جن باتوں کو لازمی ترین قرار دیا گیا، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ عروج پانے والی قوموں میں کمیونٹی کیلئے کچھ اچھا ، عمدہ، اعلیٰ کونٹری بیوٹ کرنے کا شوق اور جذبہ بہت نمایاں اور غالب ہوتا ہے ۔اس پس منظر اور تمہید کے ساتھ عرض یہ ہے کہ ’’انجن‘‘ کی ایجاد سے بہت پہلے ہی انسان نے ’’ایمبولینس‘‘ اور ’’فائر بریگیڈ‘‘ جیسی انسان دوست چیزیں متعارف کرا دی تھیں ۔

شاید کچھ لوگوں کو عجیب لگے کہ انجن کی آمد سے پہلے یہ دونوں کام گھوڑے جتی بگھیوں اور ویگنوں سے لئے جاتے ،چاہیں تو انہیں ’’ریڑھے‘‘ کہہ لیں جن میں صحت مند گھوڑے جتے ہوتے۔کوئی بیمار یا زخمی ہوتا تو مریض کو ’’ریڑھے‘‘ پر لٹا کر حکیم، ڈاکٹر یا جراح کی طرف سرپٹ بھاگ اٹھتے کہ کم سے کم وقت میں بیمار یا زخمی کو شفاخانہ پہنچایا جا سکے ۔یہی حال فائربریگیڈ کا ہوتا کہ ہر وقت چھکڑے، ریڑھے پر پانی کے ڈرم اور ریت ،مٹی کی بوریاں لدی رہتی ، تازہ دم گھوڑے ہمہ وقت تیار ہوتے۔جونہی کہیں آگ لگنے کی اطلاع ملتی ،فائر فائٹرز کی ٹیم پوری رفتار سے روانہ ہو جاتی اور ظاہر ہے ان زمانوں میں ’’برج العرب‘‘ ٹائپ عمارتیں تو تھیں نہیں، ایک ڈیڑھ منزلہ عمارتیں ہوتیں جن میں پھیلی آگ بجھانے کیلئے یہی کچھ کافی تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھوڑے، چھکڑے، ریڑھے، بگھیاں اور رتھیں تو ہمیشہ سے موجود ہیں تو اک خاص کمیونٹی یا قوم کے علاوہ کسی اور کو گھوڑے چھکڑے کا یہ استعمال کیوں نہیں سوجھا، تو صرف اس لئے کہ ان ’’MANIMALS‘‘اور ’’SUBMEN‘‘کے اندر وہ ’’کنسرن ‘‘ ہی موجود نہ تھا جو بھلے انسانوں کے اندر ایک دوسرے کیلئے بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اور انہیں دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے یعنی وہی بات کہ …..’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘اور یہی انسان کا امتحان بھی ہے، پہچان بھی۔

آگ کی دریافت اور اس پر قابو کے بعد سے یہ ’’تحفہ‘‘ انسان کے پاس ’’موجود‘‘ ہے اور استعمال ہو رہا ہے ۔جانے کب سے چولہے جل رہے ہیں، ان پر برتن رکھے ہیں، اور ان برتنوں پر ڈھکن موجود ہیں جنہیں بھاپ تھرتھرائے رکھتی تھی اور کبھی گرائے بھی دیتی تو یہ خیال ہم میں سے کسی کو کیوں نہیں آیا کہ جو بھاپ ڈھکن اچھال سکتی ہے، اک ’’طاقت‘‘ ہے جسے بڑے پیمانے پر کسی بڑے کام کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔بھاپ کے انجن کا آغاز اک چولہے، برتن اور ڈھکن سے ہوا تھا اور دیکھو کہاں جا پہنچا لیکن یہ معمولی سا غیر ثواب یافتہ کارنامہ ہمارے تمہارے اور ہم جیسوں کے پرکھوں کے نصیب میں نہیں تھا ۔

اس برصغیر کی اوقات تو یہ تھی کہ جب گندے گورے، بے راہروفرنگی نے یہاں ریلوے ٹریک بچھانے کے عظیم الشان کام کا آغاز کیا تو مقامی آبادی یہ کہتے ہوئے ننگے پائوں دور کی کوڑی لائی کہ صاحب لوگ لوہے کے پٹے اس لئے بچھا رہے ہیں تاکہ اس ملک کو گھسیٹ کر انگلستان لے جا سکیں ۔جب ریل چلی تو فرمایا صاحب لوگوں نے لوہے کے ڈبوں میں جن بھوت قید کر رکھے ہیں جو کوئلے کھاتے، ابلتا پانی پیتے، سٹیم یعنی بھاپ میں سانس لیتے ہوئے باہر نکلنے کی جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں ریل چلتی ہے ۔ہینڈپمپ کو یہ ’’بمبا ‘‘ کہتےتھے اور جب انہیں بائی سائیکل کے بارے میں بتایا گیا تو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ کوئی شے دو پہیوں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہے ؟

چچا غالب جیسا جینئس ماچس دیکھ کر حیران کہ آگ جیب میں لئے پھرتے ہیں جبکہ یہاں محاورہ یہ تھا کہ ’’آگ لینے آئی تھی گھر والی بن بیٹھی ‘‘یہ جومعنک ناکوں پر عینکیں جمائے پھرتے ہیں، نہیں جانتے کہ بائی فوکل شیشہ 1760ء میں کسی پیر فقیر نے گفٹ نہیں کیا اور نہ ہی ریفریجریٹر کسی گرم ملک کی ایجاد ہے بلکہ 1841ء میں امریکنوں نے دان کیا، سلائی مشین 1833ء میں اسلم کی خالہ یا پھپھونے نہیں بنائی، ٹائلٹ پیپر اجاڑتے ہیں لیکن کبھی نہیں سوچتے کہ 1857ءمیں جنگ آزادی کے آگے پیچھے یہ بھی گوروں نے گفٹ کیا۔ ظالمو!ہم تو کپڑے ٹانگنے والے ہینگر تک کا نہ سوچ سکے اور یہ 1869ء کی یادگار ہے ۔ہزاروں سال شدید گرمی میں ذلیل ہوئے لیکن اے سی بھی 1902ء میں ٹھنڈے علاقوں سے آیا۔کینسر کے علاج کیلئے کیموتھراپی بھی پاکستان سے صرف ایک سال پرانی ہے ۔پولیو انجکشن 1952ءمیں آیا جو آج بھی ’’حرام‘‘ ہے۔ معذور ہو جائیں گے سوچیں گے کبھی نہیں ۔

پھیپھڑوں کی پیوند کاری 1963ء اور دل کی 1964ء لیکن وہ بے راہروہم ’’صراط مستقیم‘‘ پر بیٹھے دودھ سے مرچوں تک میں ملاوٹ کر رہے ہیں، پیشہ ور گواہوں سے کچہریاں آباد ہیں۔ٹریفک کے برقی اشارے 1912ء میں متعارف ہوئے جنہیں استعمال کرنے کی تمیز ابھی تک یہاں نہیں پہنچی۔یہاں صرف ملی نغموں کا عروج ہے …’’اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ کیا واقعی بلاول اور اس ملک کے کروڑوں بیروزگار ایک ہیں ؟کیا ٹی ٹی کوئین مریم اور بھٹے پر کام کرتی شیداں واقعی ایک ہیں؟کیا گلاب دیوی، اسپتال میں ٹی بی کے مارے مریض اور ٹی ٹی پرنس شہباز شریف ایک ہیں ؟کیا حبیب جالب اور اس کا گلوکار و اداکار بھی ایک ہے ؟سلامتی کونسل کا اجلاس مبارک ہو لیکن یاد رہے ….. یاد رہے ….کہ جب تک ہم بہت بڑا فکری یوٹرن نہیں لیتے ’’سلامتی‘‘ ہمارے لئے خواب رہے گی، سراب رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے