منزل ِجاناں پہ آنکھ بھر آئی

فیض صاحب کو در حاجت روا سے دو دولتیں ودیعت ہوئی تھیں۔ ایک تو درد کی نعمت تھی۔ درد بھی ایسا کہ ہر بن مو سے ٹپکنا چاہے۔ اور پھر ضبط کی بے کراں صلاحیت۔ حسرت صاحب نے تو اپنی دھن میں کہہ دیا، یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا۔ فیض صاحب کی دونوں سے آشنائی تھی۔ سینے میں قید بسمل کی تڑپ کیسی ہی جانگسل کیوں نہ ہوتی، دیکھنے والا صرف یہی جان پاتا کہ سگریٹ سے سگریٹ سلگایا جا رہا ہے۔ اگست 1947 کی قیامت کا ہنگام تھا۔

پاکستان ٹائمز اور امروز کی بنا رکھے مشکل سے دو ماہ گزرے تھے۔ انور علی المعروف ننھا اپنے اہل خانہ کی خبر لینے لدھیانہ گئے تھے جہاں وحشت بال کھولے ناچ رہی تھی۔ مشرقی پنجاب سے آنے والی کچھ بسیں اسمبلی ہال کے سامنے اس میدان میں آ کر رکتی تھیں جہاں بعد کے برسوں میں ہم نے بارہا آزادی کی عفت مآب دیوی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ پروگریسو پیپرز کا دفتر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے بالمقابل قائم کیا گیا تھا جہاں اب پینوراما سنٹر کا بدہیئت بھنگڑ خانہ ایستادہ ہے۔ فیض صاحب وقفے وقفے سے باہر آتے اور ٹہلتے ہوئے وکٹوریہ کے بت کا چکر لگا آتے تھے۔ انور علی کے بارے میں تشویش تھی۔ بالآخر انور واپس آ گئے۔ محلہ کریم پورہ کی بہت سی تصویریں کھینچ لائے تھے۔

فیض صاحب نے تصویریں اپنے میز پر رکھ لیں۔ ایک ایک اٹھاتے تھے، نظر بھر کر دیکھتے اور واپس رکھ دیتے تھے۔ اسی کیفیت میں وہ نظم ہو گئی، یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر۔ اس نظم کی تحسین کوئی کیا کرے گا۔ بس یہ ہوا کہ الطاف گوہر سمیت سرکاری کارندے برسوں گرد اڑاتے رہے۔ پھر ایک شام تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن لندن کے ایک اجتماع میں الطاف گوہر شاعر اور نظم کی تعریف میں زور بیان صرف کر رہے تھے، سننے والوں نے کہا کہ تادیب سے پذیرائی تک صرف تیس برس کا فرق رہا۔ ضمیر اور موقع شناسی میں بھی اتنے ہی نوری سال پڑتے ہیں۔

اس برس بھی یوم آزادی کچھ ایسے ہی موسم میں اترا ہے۔ بحران کی فصیل چہار طرف کھنچی ہے۔ معیشت کا حال مندا ہے اور تاحد نظر بہتری کے آثار کی کوئی خبر نہیں۔ غنیم نے ہمارے گھر کی حالت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر کے کشمیر میں بغلی داؤ کھیلا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بے معنی خطابت، بلند آہنگ نعروں اور کھوکھلے نعروں سے آگے کچھ ہونے کا نہیں۔ تادم تحریر سلامتی کونسل کے اجلاس میں کچھ گھنٹے باقی ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ حجت تمام کی جا رہی ہے۔ توقعات کے جو ہوائی قلعے باندھے ہیں، ان کا ملبہ فریقین میں تقسیم ہو جائے گا۔ دو ہفتے ہونے کو آئے، جھیلوں اور چشموں کی وادی میں ہر دروازے پر بندوق گڑی ہے، پھولوں کی کیاریوں میں بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔

بھارت کی پارلیمنٹ سے مزاحمت کی امید منہدم ہو چکی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ہاتھ کھڑے کر دیے، بندی خانوں کا کیا ذکر، کشمیر ایک سرے سے دوسرے سرے تک عقوبت خانہ قرار پایا ہے۔ انسانوں نے ریاست کا بندوبست شہری کے تحفظ اور احترام کے لئے مرتب کیا تھا۔ کرد ہو یا کشمیری، تبت ہو یا یوکرائین، انسان کی تحفظ اور اقتدار کے مرکز سے فاصلے میں تناسب معکوس قائم ہو گیا ہے۔ امریکہ کے جنوب میں میکسیکو ہو یا چین کے مغرب میں سنکیانگ، ایراوتی کے ڈیلٹا میں روہنگیا مسلمان ہوں یا تھرپارکر کی معصوم ہندو بچیاں، ریاست ہر جگہ طاقت کے کھیل میں فریق بن چکی ہے۔

ہماری مشکل دوچند ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد قومی بیانیے پر ایسا مشکل وقت کبھی نہیں آیا۔ ان کہا دکھ یہ ہے کہ قوم کی توانائی کے حقیقی سرچشموں میں انتقام، عناد اور قطبیت کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ جو حکومت بیعت سے انکار کرنے والوں کو نیست و نابود کرنے پر کمر بستہ ہو، وہ قومی بحران میں پورے قد سے کھڑی نہیں ہو سکتی۔ جنہیں قوم کے متن کا حصہ ہونا چاہیے تھا، انہیں حاشیے میں بھی برداشت کرنے کا ظرف نظر نہیں آتا۔ ایسی اتھلی حکومت کو بیرونی دنیا سے حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ناامیدی کے کسی کمزور لمحے میں شاہ محمود قریشی نے ایک ہی جملے میں سلامتی کونسل اور مسلم امہ کا بھرم ملیامیٹ کر دیا۔ ہمیں عجیب الف لیلیٰ سنائی جا رہی ہے، گویا پانچ اگست کی صبح کے واقعات ناقابل پیش گوئی قدرتی آفت تھے۔ اگر یہ آفت تھی تو ہم نے برسوں اس سانحے کی پرداخت کی ہے۔ اگر آرٹیکل 370 کو 65 برس تسلیم ہی نہیں کیا تو اس کی تنسیخ پر واویلا کیسا؟

ہمارا جشن آزادی ایک بڑے سنگ میل کی یاد دلاتا ہے۔، ہم نے غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی جیتی تھی لیکن اس آزادی کی روبکار ہم تک نہیں پہنچی۔ اہل کشمیر کے درد میں سانجھ پر کوئی دو رائے نہیں لیکن اپنے لوگوں کی آزادی، مساوات، احترام، تحفظ اور ترقی کا سوال طے کئے بغیر ہم اس میدان میں فتح کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں ہماری زرہ بکتر شکستہ ہے اور ہماری تلواروں پر ناانصافی کا زنگ لگ گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے