ویر چکرا نے تو چکرا کر رکھ دیا ہے

ایک دوست پوچھنے لگا کہ چلیں یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ پاکستان نے چودہ اگست کو حسب روایت فوجی اعزازات حاصل کرنے والوں میں اس سال ان دو پائلٹوں کا نام بھی شامل کر دیا ہے جنہوں نے اسی سال ستائیس فروری کو پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی طیارے مار گرائے تھے۔ اس سلسلے میں سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان کو بہادری کے تمغوں سے نوازا گیا ہے۔ ونگ کمانڈر نعمان علی خان کو ستارہ جرأت اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کو تمغہ جرأت دینے کا اعلان ہوا ہے۔ ان دونوں سپوتوں کو جو اعزازات دئیے گئے ہیں اس کی منطق سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے بھارتی گھس بیٹھیا جہاز مک21 گرایا تھا لیکن یہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بہادری کا ایوارڈ ”ویر چکرا‘‘ کس خوشی میں دیا گیا ہے؟

میں نے کہا: اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ موصوف کو عوام نے پکڑ کر ٹھکائی کی تھی تو اس کے بعد جب پاک فوج نے اسے عوام کے غیظ و غضب سے بچا کر آرمی بیس میں پہنچایا تھا تو موصوف نے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے چائے کی فرمائش کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اسے اپنی گرفتاری پر رتی برابر پریشانی نہیں۔ بھارتی سرکار نے اس کی اس ڈھٹائی کو بہادری قرار دیا ہے۔ دوسری یہ کہ جب موصوف ”خونم خون‘‘ کیمرے کے سامنے سے گزرا تو چہرے پر گائوں والوں سے ہونے والی ”جوت پیزار‘‘ پر ٹکے کا ملال نہیں تھا۔

تیسری یہ کہ موصوف نے لاکھوں ڈالر مالیت کے جہاز کے عوض ایک چائے کی پیالی نوش فرما کر دنیا میں سب سے مہنگی چائے کی پیالی کا جو نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنایا تھا اس عالمی مہنگے ترین سودے پر موصوف کو گھاٹے کا سودا کرنیکا کوئی افسوس نہیں تھا اور سودے پر انکے چہرے پر پھوٹنے والی مسرت کو‘ جو دراصل بے شرمی تھی‘ بھارتی حکومت نے بہادری سمجھ لیا تھا اور چوتھی بات یہ کہ بھارتیوں کو اس قسم کے لوگوں کو ہیرو مان لینے کی عادت سی ہے اور آخری بات یہ کہ موصوف نے بہرحال نریندر مودی کو بھارت کا وزیر اعظم بنوانے میں جو مدد فراہم کی ہے بھارتی وزیر اعظم نے اس کے اس عظیم احسان کا بدلہ چکایا ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں۔

میرا دوست کہنے لگا: یہ چوتھی بات کیا تھی؟ تم نے کہا ہے کہ بھارتیوں کو اس قسم کے لوگوں کو ہیرو مان لینے کی عادت ہے؟ یہ کس قسم کے لوگوں کی بات کر رہے ہو؟ میں نے کہا: یہ میں نہیں کہہ رہا‘ تھوڑی دیر پہلے کسی دوست نے ایک بھارتی ٹویٹ فارورڈ کیا ہے۔ یہ کسی میجر ابھیجیت شامی نے کیا ہے۔ اس نے اپنے اس ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ”مجھے یہ منطق قطعاً سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے‘ تین پائلٹ مر گئے‘ چھ دیگر لوگ مارے گئے‘ چار لوکیشنز پر بمباری ہوئی اورایک پائلٹ زندہ گرفتار ہو گیا‘ جس کو ہجوم نے زدوکوب کیا۔ فوجیوں نے آ کر بچایا۔ ذلیل و رسوا ہو کر واپس آیا اور اب وہ ہیرو ہے۔ یہ سب خوشیاں کس بات کی ہیں؟ مجھے غداروں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے‘‘۔ یہی میجر ابھیجیت شامی اپنی دوسری ٹویٹ میں لکھتا ہے ”ہم بھارتی دنیا کے سب سے وسیع القلب لوگ ہیں جو سنی لیون کو ہیروئن اور ابھی نندن کو اس امر کے باوجود ہیرو مان لیتے ہیں کہ دونوں کی بھارت سے باہر عزت لوٹی جا چکی تھی‘‘۔

ابھی نندن کے ساتھ جو ہوا وہ آپ سب لوگ جانتے ہیں۔ رہ گئی سنی لیون تو اس کے بارے میں بھی آپ لوگ سب جانتے ہیں لیکن بوجوہ اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ آپ کو سب کچھ معلوم ہے۔ ایک جگہ کسی دوست نے سنی لیون کا ذکر کیا تو ایک اور دوست جو اپنی شرافت اور پارسائی میں کافی مشہور تھا‘ کہنے لگا: اس سکھوں کی چوکھری کرنجیت کور ووہرا نے اپنا نام کیوں تبدیل کر لیا تھا؟ دوسرے دوست نے پوچھا کہ یہ کرنجیت کور ووہرا کون ہے؟ تو پہلے والا دوست اچانک گھبرا گیا اور کہنے لگا: مجھے کیا پتہ یہ کون ہے؟ یہی تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کون ہے؟ اس کا پتا سب کو ہے مگر مانتا کوئی نہیں کہ سنی لیون کی وجہ شہرت کیا ہے لیکن خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ فی الحال تو معاملہ ابھی نندن پر آن کر رک گیا ہے۔

میرا دوست پوچھنے لگا: اور یہ ابھی نندن کی وجہ سے نریندر مودی کے الیکشن جیتنے کا کیا قصہ ہے؟ میں نے کہا: یہ ایک لمبا موضوع ہے اور اس بارے میں پھر کبھی بات کر لیں گے‘ فی الحال تو ابھی نندن کے ”ویر چکرا‘‘ نے چکر ڈال رکھا ہے اور سر چکرا گیا ہے کہ آخر بہادری کے اعزازات کی اور تمغوں کی کوئی قدرومنزلت ہوتی ہے‘ کوئی عزت وآبرو ہوتی ہے اور کوئی نیک نامی ہوتی ہے۔ اگر یہ اعزازات اس طرح ”ٹکے ٹوکری‘‘ ہو جائیں تو بھلا اس کی کیا عزت رہ جاتی ہے؟ میرا دوست ہنس کر کہنے لگا: بھائی صاحب! زیادہ جذباتی نہ ہوں اور وہ جو مصرعہ ہے ”اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت‘‘ ایسے موقعوں پر ہی یاد آتا ہے۔

ابھی گزشتہ سال ہم نے بھی قومی سول ایوارڈز دیتے ہوئے ایک بھارتی فلم میں آئٹم سانگ کرنیوالی اداکارہ کو بہت سی بلکہ بے شمار نہایت ٹیلنٹڈ اداکارائوں پر ترجیح دیتے ہوئے تمغہ امتیاز عطا فرما دیا تھا تو کون سی قیامت آ گئی تھی جو اب پریشانی ہو رہی ہے؟ میں نے کہا میرے عزیز! میں بہادری کے تمغوں اور اعزازات کی بات کر رہا ہوں سول اعزازات کی بات نہیں کر رہا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی مزید بات کرنا چاہوں گا۔ لیکن دنیا بھر میں ابھی بہادری کے اعزازات کی کوئی اہمیت بھی ہے اور میرٹ بھی۔ یہ نہیں کہ جس کو چاہا منہ اٹھا کر عطا کر دیا۔ اللہ کے بندے! جہاز گروانے میں بھلا کیا بہادری ہے؟ مجبوری ہے۔ بس دشمن نے گرا لیا۔ اب سے نالائقی تو کہا جا سکتا ہے تربیت کی کمی کہا جا سکتا ہے پیشہ ورانہ مہارت میں کمی بیشی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بھلا جہاز گروانے میں بہادری کہاں سے آ گئی؟

چلیں جہاز گر گیا تھا تو مجبوری تھی۔ اس کے بعد اگر آپ بہادری سے لوگوں کے نرغے سے بھاگ نکلیں۔ ساٹھ ستر کلومیٹر دشمن سے بچ بچا کر واپس اپنے ملک پہنچ جائیں تو چلیں یہ بھی کوئی بہادری ہوئی لیکن یہ کیا بہادری ہوئی کہ پستول پہلو میں لٹکا ہوا ہے اور اردگرد کے گائوں والے پکڑ کر چھترول کر رہے ہیں اور پاکستانی فوجی آ کر بچ بچائو کروا رہا ہے اور گردن سے چوہے کی طرح پکڑ کر قریبی معسکر میں لا رہا ہے۔ اس ساری عمل کے دوران کوئی ایک کام بہادری کا بتائیں؟ اب آگے چلیں۔ بھلا میس میں چائے پینے میں کیا بہادری ہے؟ دشمن کی چھائونی میں کھڑے ہو کر دشمن کی بڑھ چڑھ کر تعریف کرنے میں کیا دلیری ہے؟ اگر پاکستانی فوجی میس میں چائے پی کر پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرنا واقعی بہادری ہے تو بھارتیوں نے اس ”بہادری بھرے بیان‘‘ کو یوٹیوب سے ہٹوانے کی مقدور بھر کوشش کس لیے کی تھی؟ بھارتی میڈیا نے بعدازاں جاتے سمے ابھی نندن کے بہادری سے بھرپور بیان کا اپنے میڈیا پر بلیک آئوٹ کیوں کیا تھا؟

اگر ابھی نندن شرم والا ہوتا تو بھارت جا کر فوری طور پر پہلا کام تو یہ کرتا کہ اپنی مونچھیں اگر بالکل صاف نہ بھی کرواتا تو کم از کم چھوٹی ضرور کروا لیتا اور فضائیہ سے ریٹائرمنٹ لیکر گھر چلا جاتا اور کم از کم چار پانچ سال تک بازار خریداری کرنے کیلئے اپنی بیگم کو اکیلا بھجواتا لیکن اب اس میں ابھی نندن کا کیا قصور ہے؟ جب بھارتی حکومت اسے دلیر‘ بہادری اور سورما قرار دے تو ایک بے چارے سکواڈرن لیڈر کی کیا مجال ہے کہ وہ اس سرکاری فیصلے سے اختلاف کرے؟ اگر بھارتی حکومت میں بھی تھوڑی شرم یا حیا باقی ہوتی تو وہ ابھی نندن کی پاکستانی فوجی میس میں ایک مگ 21 کی قیمت پر چائے کی پیالی پینے پر ہونے والی فضول خرچی کی مد میں اسے زیادہ ادائیگی والی رقم کی واپسی کا بل بھجوا دیتی اور اس باہمی فرق والی کروڑوں روپے کی رقم کا کچھ معمولی سا حصہ اس کے پراویڈنٹ فنڈ اور جی پی فنڈ سے منہا کر لیتی مگر ادھر بھارت میں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔

خالی والا ویر چکرا بھارت کا بہادری کا پانچواں بڑا اعزاز ہے۔ لیکن اس اعزاز کا ابھی نندن کو ملنا یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت میں بہادری کے اعزازات جوتیوں میں دال کی مانند بٹ رہے ہیں؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ اس بہادری کے میڈل پر بھارتی میڈیا کی پذیرائی نے یہ بات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ بھارتی میڈیا جھوٹ‘ افترا اور من گھڑت پراپیگنڈے کا بادشاہ ہے لیکن جب کبھی کوئی باہمی معاملہ آن پھنسے‘ جیسے عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو والے کیس کا فیصلہ اور ابھی دو دن پیشتر ہونیوالے سلامتی کونسل کے اجلاس کی روداد تو ہمارے ترقی پسند اور لبرل اسی جھوٹے اور دروغ گو میڈیا کو نہ صرف حرف آخر سمجھتے ہیں بلکہ اس جھوٹ کو آگے پھیلانے کا نیک کام بھی زوروشور سے کرتے ہیں۔ اللہ ہی ہدایت بخشے تو بات بنے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے