جنرل باجوہ کو ملی ایکسٹینشن۔

اخلاقی طور پر جس شخص کو خود ادارے نے وزیراعظم بنوایا اور الیکشن میں اسکی کامیابی کو دشمن قوتوں کو ووٹ کے زریعے شکست قرار دیا اس کے ہاتھوں توسیع بنتی نہیں تھی ۔ پاک فوج کا سربراہ ادارے کے تقدس کا ضامن ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے جرل مشرف نے وردی اتارنے کا پوری قوم کے ساتھ وعدہ کیا اور اقتدار کا لالچ اتنا زیادہ تھا بعد میں وردی اتارنے سے انکار کر دیا اور جواز دیا ‘ جو میں نے وعدہ کیا تھا وہ محض زبان کے الفاظ تھے’ ۔

جنرل مشرف کی کوئی اوقات نہیں تھی ساری طاقت ،دبدبہ اور زہانت وردی میں چھپی تھی ۔ وردی اتری تو سب طنطنہ بھی ساتھ ہی لے گئی ۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی جنرل باجوہ کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ صاف اور شفاف الیکشن کی زمہ داری ادارے نے سرانجام دی تھی اگر کوئی انعام بنتا تھا تو وہ ادارے کا بنتا تھا جنرل قمر جاوید باجوہ کا نہیں ۔ مدت ملازمت میں توسیع سے ایک سرکاری ملازم کو دنیا کی اپنے تئیں بہترین فوج کی قیادت مزید تین سال تک کرنے کا موقع ملا ہے ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اگر دو جنرلوں کو سپرسیڈ کر کے جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف اف آرمی سٹاف نہ بناتے تو وہ اب تک ریٹائر ہو چکے ہوتے ،بالکل اس طرح جس طرح ان کے ہم عصر جنرلوں کو انکی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی نہیں جانتا جنرل باجوہ بھی بھلا دئے جاتے ۔۔

وزیراعظم سیکرٹریٹ کی پریس ریلیز میں جواز خطہ کی صورتحال کا دیا گیا ہے ۔ خطہ کی صورتحال بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی وجہ سے خراب ہوئی ہے ۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے بھارتیوں کو یہ جرات کیوں ہوئی ؟ اس کا جواب موجود ہے ۔ بھارتیوں کو نادر موقع پاکستان کی کمزور ہوتی معیشت نے دیا ہے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب بطور ادارہ فوج کی ساکھ عام انتخابات کی وجہ سے متاثر ہو چکی ہے۔ ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے کی وجہ سے ان جماعتوں کے کارکنوں کی نظروں میں فوج بطور ادارہ ایک فریق بن گئی ہے۔ بھارتیوں نے اس موقع کا انتخاب اس لے کیا کہ قبائلی علاقہ جات میں منظور پشتین کی پختون تحفظ موومنٹ کے دو قومی اسمبلی کے ارکان محسن ڈاور اور علی وزیر جیل میں ڈال دئے گئے ہیں ۔ مریم نواز کی ریلیوں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کے خوف سے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے ۔

بھارتیوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیچیت ختم کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ملک کے مختلف حصوں میں وکلا کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں ادارے کے خلاف نعرے لگائے جانے کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں ۔

بھارتیوں نے بہت سوچ سمجھ کر وقت کا انتخاب کیا ہے جو کام وہ گزشتہ بہتر سال میں کرنے کی جرات نہ کر سکے وہ کر گرزے ، کیوں ؟ اس لئے کہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور ائی ایم ایف اپنے بیل اوٹ پیکیج کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرامد سے منسلک کر چکا ہے ۔

وزارت خزانہ اور معیشت کے تمام کلیدی عہدوں پر ائی ایم ایف کے لوگ تعینات ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کا ہمیشہ کا دوست عوامی جمہوریہ چین پاکستان سے خفا خفا سے ہو چکا ہے ۔ بھارتی ایسے شاندار موقع سے فائدہ نہ اٹھاتے تو احمق کہلاتے ۔ پاکستانی معیشت جب ساڑھے پانچ فیصد کی شرح سے زیادہ پر ترقی کر رہی تھی ،جب حصص بازار کا انڈکس 53 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر چکا تھا ،جب ملکی اور غیر ملکی قرضے معیشت کے 79 فیصد تھے ،جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود چھ فیصد تھی اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیدہ صحافیوں کو ایک چیدہ بریفنگ میں ملکی معیشت کی صورتحال پر اضطراب کا اظہار کیا تھا اور اسحاق ڈار کو ملکی معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیا تھا ۔ آج جب بینکوں اور مالیاتی اداروں کی شرح سود ساڑھے بارہ فیصد ہو چکی ہے ، قرضے معیشت کے 96 فیصد پر پہنچ چکے ہیں ۔معیشت کی شرح نمو تین فیصد کے لگ بھگ ہے ۔

افراط زر کی شرح بارہ فیصد کے قریب ہے ۔ٹیکس وصولیوں میں تاریخی شارٹ فال ہے ۔ ملک غربت بے روزگاری اور مہنگائی کے شکنجے میں پھنس چکا ہے اور بھارتی آزاد کشمیر لینے کی بات کرنے لگے ہیں ، اور ہم نے خطہ کی صورتحال کے تناظر میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں تویسع کر دی ہے کیوں ؟ کیا اس لئے کہ یہ سب کچھ دو سال آٹھ ماہ کے دوران کئے گئے فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے ۔ میر بھی کیا سادے ہیں جس عطار کے لونڈے کے ہاتھوں بیمار ہوئے اسی سے دوا لینے چلے ہیں۔

دو سال آٹھ ماہ کے دوران جس طرح پاکستانی معیشت تباہ ہوئی ،جس طرح چینی پاکستان سے بدظن ہوئے ،جس طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گھیر لیا اور جس طرح ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی اس پر مدت ملازمت میں توسیع کا انعام کچھ دل کو نہیں لگتا ۔ مدت ملازمت میں توسیع سے کتنے بہترین پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل افسران متاثر ہونگے کیا وہ اس ملک کا اثاثہ نہیں ،کیا وہ ادارے کے وقار کا سبب نہیں ۔ کوئی شخص ملک اور ریاست کیلئے ناگزیر نہیں ہوتا یہ قانون فطرت ہے ۔ ایک جاتا ہے تو قدرت اس سے بہتر پیش کر دیتی ہے ۔ بڑے لوگ جانتے ہیں کونسی سے چیز ملک اور قوم کیلئے بہتر ہے اور کونسی چیز بہتر نہیں اس کے باوجود اگر کوئی ملک اور قوم کے نام پر ایک طاقتور عہدہ پر مزید رہنے کی خواہش رکھتا ہے تو اس پر ہم کیوں مضطرب ہوں کہ ہم قحط الرجال کے دور میں زندہ ہیں۔ خدا ہمارے ملک کی حفاظت کرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے