آو میں تمہیں gaslight کروں

– محترمہ آپ کیا کرتی ہیں؟

– جی رونا روتی ہوں

– کیا کہا؟ رونا روتی ہوں؟ کیا مطلب؟

– جی میں ایک ادارے میں پارٹ ٹائم کام کرتی ہوں اور سوشل میڈیا پر فل ٹائم رونا روتی ہوں۔

– کس چیز کا رونا؟

اور کس چیز پر رونا؟

– اف اللہ‎ ایک تو آپ لوگ جاہل بہت ہیں۔ کہاں سے اٹھ کر آتے ہیں۔ اس وقت امریکا سے یورپ اور یورپ سے پاکستان۔ ایک ہی تو مسئلہ ہے۔۔ عورت کا استحصال۔اسی پر تو رونا روتی ہوں۔ ۔۔دنیا کو بتاتی ہوں کے یہ مرد کتنی کتی چیز ہے۔۔۔ یہ روایتی خاندانی نظام بنا ہی عورتوں کے خلاف ہے۔۔یہ مذہب کی دقیانوس دیواروں کو توڑ دو۔۔آؤ ملنگ بن کر رقص کریں اور اس طرح مرد کی قید سے آزاد ہوں۔ فلاں فلاں فلاں۔۔

ویسے آپ کی شکل سے جانے کیوں اختلاف کی بو آرہی ہے۔

– محترمہ نا میں نے کہا کے عورت ظالم ہے اور نا ہی آپ کے رونے پر کوئی اعتراض ہے۔ لیکن جان کی آمان پاؤں تو کچھ کہوں؟

– کہیے ۔ لیکن خبردار جو gaslight کیا۔

– کونسی light, کہاں کی light, کدھر کی گیس؟

– اف خدا را آپ تو بلکل ہی پیدل ہیں۔ آپ کو ہمارے five star hotels میں لگے ٹریننگ سیشنز کی شدید ضرورت ہے۔ یہ بھی نہیں پتا gaslight کیا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے قبیلے کا جانا، پہچانا اور مانا لفظ ہے ،بس یہ سمجھ لیجئے کے یہ ہمارا "اقرا” ہے۔ میں نہیں بتا رہی اس کا مطلب خود ڈھونڈو۔

توبہ میں کہاں پھنس گی۔ اب کچھ بول بھی لیں۔

– کیا آپ کو نہیں لگتا کے یہ رونے انتہائی جعلی ہیں۔ آپ کی چیخ مظلوم عورت کے لیے نہیں جو استحصال سے دبی ہوئی ہے بلکے اپنے social capital کو بڑھانے کیلئے لگایی جاتی ہے۔ یہ فوٹو سیشنز ۔ یہ فیس بک پر سٹیٹس۔ یہ ترمیمی نعرے۔ یہ سب فنڈز لینے کے اور اپنی PR بڑھانے کے ٹوٹکےنہیں ہیں؟ آپ کے رونے نے کتنی عورتوں کی زندگیاں تبدیل کی ہیں، بلکے سب چھوڑئیے صرف اتنا بتا دیں آپ نے ground پر کیا کام کیا ہے۔ فیس بک اور twitter کے علاوہ آپ اور آپ کے دوست کہاں پاۓ جاتے ہیں۔؟

– یہ سوال نہیں تھا۔ آپ کے اندر کا زہر تھا اور کچھ نہیں۔ آپ کے اندر کا misogynist عورت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ کیا عورت پر ظلم نہیں ہوتا؟

– ہوتا ہے بلکل ہوتا ہے۔ ایک بوسیدہ نظام میں سب سے نچلے طبقے پر سب سے زیادہ ظلم کیا جاتا ہے۔ یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کے اجتمائی طور پر بیشک ہم نے عورت پر عرصہ دراز سے ظلم کیا ہے۔ یہاں میرا اور آپ کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مسلہ صرف یہ ہے کے آپ مسئلے کو چھوڑ کر مسلے کے ثمرات پر گفتگو کر رہی ہیں۔ ایک نظام جہاں ایک طبقے کے پاس سب کچھ ہو اور ایک طبقے کے پاس کچھ نہیں وہاں معاشرے میں ظلم عام ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے سے کم تر کو انگوٹے سے نیچے رکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے کیوں کے نظام بنا ہی ایسا ہے جہاں have/have not کی جنگ رہے، یہاں مسلہ صفت (gender) کا نہیں اختیار کا ہے۔ بات کا لبےلباب یہ کے کیوں کے عورت کے پاس اس نظام میں اختیار نہیں اس پر ظلم ہوتا رہےگا۔ اور ظالم یہاں مرد بھی ہے اور عورت بھی۔ مسئلہ صنف کا نہیں طبقات کا ہے۔ ظلم اس لیے نہیں ہوتا کیوں کے وہ عورت ہے بلکے اس لیے کیوں کے اسے کمزور جانا جاتا ہے۔ اور کمزور کو کچلنا اس نظام کی "خاصیت” ہے۔

اور یاد رکھیے یہ have/have not کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے. موسیٰ اور فرون, علی، حسین اور یزید، ابراھیم اور نمرود۔۔ کیا ہے یہ سب۔ وہی نا تمام جنگ۔

کیا دیکھ رہی ہیں آپ۔ کچھ بولیے تو سہی۔ کریں اعتراض، کہیں یہ دلیل جھوٹی ہے، فریب ہے، مکر ہے، بکواس ہے۔ کہیے نا۔

– کر دیا نا پھر سے gaslight.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے