مدرسہ ڈسکورسز کا فکری اور تہذیبی جائزہ

”جدید“ علم الکلام اور جدید علوم

گزارش ہے کہ مذہب اور جدیدیت کے مابین مباحث میں علم الکلام کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ کئی حلقوں میں جدید علم الکلام کی تشکیل کی ضرورت اور نئے کلامی منصوبوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ معتزلہ، اشاعرہ وغیرہ کے اکا دکا غیر سیاقی حوالے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ متجددین اسلامی جدیدیت کی تشکیل، مذہب کو دی جانے والی رنگ برنگی تعبیری لگاموں اور مذہب کے محاصرے کے لیے نظری اور سائنسی علوم کی deployment کو بھی ”جدید علم الکلام“ قرار دیتے ہیں۔ اکثر مخلص اہل مذہب بھی اس شوق میں ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ایک نئے علم الکلام کی ضرورت ہے، اور ان کی طرف سے جو نئی تعبیرات سامنے آتی ہیں وہ مسائل کو سمجھنے میں نہ صرف یہ کہ معاون نہیں ہوتیں بلکہ خلجان ذہنی میں اضافہ کرتی ہیں۔

”جدید“ علم الکلام کی بات کرتے ہوئے ہمیں اپنی مطلق علمی زبوں حالی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اگر کسی ٹھیٹھ علمی معیار پر مذہب کا دفاع کیا جائے تو تعلیم یافتہ مذہبی آدمی کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ بات مذہب کے خلاف ہو رہی ہے یا مذہب کے حق میں؟ ایسی صورت حال میں مدرسہ ڈسکورسز نے چند ایک بنیادی باتوں کے ارادی اغماض سے، اور علم الکلام کی مجرد ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے نہایت چالاکی سے اس تصور کو appropriate کیا ہے تاکہ داخلی وسائل کو بھی مذہب اور روایت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ ”جدید“ علم الکلام کی بحث میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:

(۱) کلاسیکل اور جدید علم الکلام کے تہذیبی پس منظر کو نظرانداز کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ سیاسی طاقت کی حاضر و موجود صورتِ حال علمی سرگرمی پر لازماً اثرانداز ہوتی ہے۔ کلاسیکل علم الکلام دورِ عروج میں سامنے آنے والے ایک بڑے چیلنج کا جواب (response) تھا۔ دورِ زوال میں شکست خورہ معاشرہ جواب (response) کے امکانات سے خالی ہوتا ہے کیونکہ علم اور عمل کی صرف دو صورتیں، یعنی مداہنت یا مزاحمت ہی ممکن ہوتی ہیں۔ جدید علم الکلام دورِ زوال میں سامنے آنے والی مداہنت ہے، اور شکست کی علمی تشکیل ہے۔

(۲) جدید علم الکلام میں ’تاریخ‘ ایک تعبیری ترکیب ( hermeneutical device) ہے جس کا براہ راست مقصد مذہب اور روایت کو ادھیڑنا ہے، اور زمانی مؤثرات کے تابع کرنا ہے۔

(۳) کلاسیکل علم الکلام مذہب کی روایتی شناخت اور ساخت کو باقی رکھنے کی مستقل اور بھرپور کوشش تھی۔ کلاسیکل علم الکلام، یونانی فلسفیانہ علوم میں مذہب مخالف عناصر کا بہت گہرا تہذیبی شعور سامنے لایا تھا، مثلاً علم اور وحی کے مابین وحی کی اولیت و حاکمیت، عقل کے مواقف، شعور اور وجود کی فکری نسبتیں، عقیدے کو نظری بنانے کا رد اور اس کے جوابات (responses)، یونانی علوم کی تعبیری تزویرات کا رد، یونانی تہذیب اور اس کے فلسفیانہ علوم کو norm تسلیم کرنے سے انکار وغیرہ۔ جدید علم الکلام تہذیبی سطح پر علمی مکالمے کی بنیادی شرائط ہی سے ناواقف ہے، اور استعماری جدیدیت کے علمی معروفات کو مذہب پر لادتے چلے جانے کا نام ہے۔ مثلاً تاریخیت (historicism) ہی کو لیجیے۔ جدید علم الکلام اس پر کوئی سوال اٹھانے کی حمیت اور سکت نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس کے معروفات کو تعبیری عجلت میں مذہب پر وارد کرنے کو ہی علمی سرگرمی خیال کرتا ہے۔

(۴) زوال تہذیبی ادراک کے دھندلانے اور اجتماعی عمل کے غیرنتیجہ خیز ہونے کی حالت ہے، یعنی زوال اجتماعی شعور اور اجتماعی عمل کی ایک خاص صورت حال کا نام ہے، اور جو ناگزیر طور پر شکست میں ظاہر ہوتی ہے۔ زوال بیک آن تاریخ کا سیاسی کھلونا بننے اور اپنے بنیادی متون کو تعبیری بازیچہ بنانے کی حالت ہے۔ ایسی تہذیبی فضا میں شعور ایک نابینا کی طرح غیر تہذیب سے عینیت کا راستہ ٹٹولتا ہے، اور اجتماعی عمل تطبیق کی ڈگمگاہٹ اختیار کرتا ہے۔ ہماری گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کے یہ بنیادی مظاہر ہیں۔ جدید علم الکلام کی علمی منہج عینیت کی شرط پر تشکیل پائی ہے اور عملی منہج تطبیق کے اصول پر۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی صورت حال کی formalization ہے۔ جدید علم الکلام کی کل رسومیات عینیت اور تطبیق ہے۔

(۵) ہمارے ہاں احیا اور نشاۃ الثانیہ وغیرہ کی تمام تر لغویات تہذیبی شکست کے عدم ادراک سے پیدا ہوئی ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ دور زوال میں ہمارے ہاں تاریخ کا ادراک صرف ”عروج کے کھو جانے“ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ”عروج چلا گیا“، ہم یہ نہیں کہتے کہ ”شکست ہو گئی“۔ ہمارے ہاں ”عروج کے خاتمے“ کا معنی ”تہذیبی شکست“ نہیں ہے۔ اس کھوٹے ادراک سے ایک تہذیبی ناسٹیلجیا (nostalgia) پیدا ہوا جس نے ہمارے شعور و عمل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہم جلد ہی احیا و نشاۃ الثانیہ کی لغویات کے طومار میں ڈوب گئے۔ تہذیبی ناسٹیلجیا جمالیاتی تخیل کے اظہار کا جائز دائرہ ہے، لیکن یہ کسی علمی تشکیل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ ہمارے متداول علوم کے جعلی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ اس ناسٹیلجیا سے پیدا ہوئے ہیں، اور تاریخ کو دیکھنے کی آنکھوں سے ہی محروم ہیں۔

ہمارے اختلال کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ تہذیبی ناسٹیلجیا کے جمالیاتی مظاہر کو قابل مذمت سمجھتے ہیں، اور ان احوال میں پیداشدہ ہفواتِ علم پر فخر کرتے ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک حمیتِ شعور اور مزاحمتِ عمل کو باقی رکھتا ہے۔ جدید علم الکلام اسی ناسٹیلجیا کا اظہار ہے اور علمی فریب کاری سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شکست کا سامنا کرنے کا مذہبی اصول جہاد ہے، جسے علم اور عمل میں ایک ایسی تہذیبی مزاحمت کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے جس میں معاشرہ اور حکومت دونوں ایک ساتھ شریک ہوں۔

(۶) متجددین اور اسلامی جدیدیت کی منہجِ علم نے استشراق سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کی کوئی علمی روایت داخلی تضادات سے خالی نہیں ہوتی، اور یہ کبھی اساسی نہیں ہوتے۔ یعنی جدلیات علم اور فکر میں جاری ہوتی ہے، ہدایت/اساسی ورلڈ ویو میں نہیں۔ تہذیب اور روایت کی داخلی جدلیات کا اصلی مقصود متفق علیہ ہدایت/ورلڈ ویو کو علم میں سامنے لانا ہوتا ہے۔ استشراق نے اسلامی تہذیب کی داخلی علمی اور نظری جدلیات کو ہدایت تک توسیع دینے کا کام کیا ہے، اور اسلامی جدیدیت نے اسی علمی اصول اور منہج کو اختیار کیا ہے۔ اسلامی جدیدیت نظری علم کی جدلیات کو ہدایت تک پھیلا کر اس میں نقب لگانے کا کام کرتی ہے، اور اس وقت بیسیوں اہل علم اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ”جدید علم الکلام“ استشراق کے بدترین چربے کے علاوہ کچھ نہیں۔

(۷) ہمارے نزدیک جدیدیت یا مغرب کی درست تفہیم ایک جائز اور ضروری تہذیبی مقصد ہے، اور اس میں جدیدیت یا مغرب کی ’حقیقت‘ اور ’واقعیت‘ دونوں شامل ہیں۔ یہ ایک علمی مقصد ہے جو عمل کے لیے یقینی مضمرات رکھتا ہے، اور شعور کی حریت کے بغیر ناقابل حصول ہے۔ اس علمی کوشش کے ذرائع و آلات (tools) معروف ہیں اور بآسانی دستیاب ہیں، اور جو فراہم نہیں ہیں انہیں تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں مغرب یا جدیدیت سے غلط باتیں منسوب کرنا حصولِ مقصد میں رکاوٹ اور نہایت قابل مذمت ہے۔ یہ اپروچ خود ہمارے لیے مہلک ہے، اور مغرب کے غلبے اور مذہب کے خاتمے کو ایک امر واقعہ بنا دیتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ جدیدیت شعور میں ارادی ہے، اور عمل میں تقدیری ہے۔ اور جدیدیت کو دیکھنے کے مذہبی تناظر دو ہیں: ایمان اور عمل صالح۔ جدیدیت کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ ایمانی تناظر سے مشروط ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جدیدیت اپنے کل اور جزو میں باطل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایمانی تناظر میں جدیدیت کا اساسی ورلڈ ویو قطعی باطل ہے۔ اور جزو میں باطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جدیدیت عمل کی ایک غیرمعمولی تقویم کی حامل ہے، لیکن وہ قطعی عمل صالح نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے احباب فوراً مغربی معاشرے میں خیر کے مظاہر کی ہچکیانہ دلیل لائیں گے۔ یہ محض التباس ہے کیونکہ وہ اس ’عمل خیر‘ کی وجودیات سے بےخبر ہیں۔ عصر حاضر میں عمل صالح کی بازیافت جدیدیت کے تقدیری پہلوؤں کی تنقیح کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اور اس پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم نے علم و عمل کا جو توشہ عصر حاضر کے سامنے پیش کیا ہے، وہ محض شرمناک ہے۔ اقبالؒ نے شاید ایسے ہی کسی لمحے کی برافروختگی میں فرمایا ہو گا:

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا
تیرا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

[pullquote]نوٹ: [/pullquote]

افسوس کہ بوجوہ مدرسہ ڈسکورسز کے کئی اہم پہلوؤں پر گفتگو نہ کر سکا۔ اس میں بہت اہم مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک میں دیے گئے ’دیسی‘ اور ’غیردیسی‘ شرکا کے تاثرات کا تجزیہ ہے۔ دیانتدارانہ متنی تجزیہ اس میں آباد جہانِ معنی کو کھول سکتا ہے۔ یہ تاثرات علمی سرگرمی میں اکثر کارفرما dissonance of perceptions کو سمجھنے کا وقیع ذریعہ ہیں۔ پھر تاریخیت کو ایک تعبیری ترکیب (hermeneutical device) کے طور جس طرح مدرسہ ڈسکورسز میں سامنے لایا گیا ہے، اس کا تجزیہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے متجددین نہایت نادان اور ادرک کی ایک گانٹھ کے پنساری ہیں۔ اصل پنساری ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہیں، اور وہ ہمارے متجددین کی مانند جعلساز نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے فکری منصوبے کے طور پر مدرسہ ڈسکورسز کا تجزیہ تفصیل سے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ مدرسہ ڈسکورسز روایت کے جس تصور پر کھڑا ہے اس کا تجزیہ اپنی جگہ اہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم ان اہم علمی پہلوؤں کی طرف ضرور التفات فرمائیں گے۔
و اللہ اعلم بالصواب
۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے