گزشتہ وزیراعلیٰ تا حالیہ وزیراعلیٰ پنجاب

کہاں گیا ہوم میڈ خادم اعلیٰ کا کیس جو اس نے برطانوی اخبار کے خلاف کرنا تھا؟ ’’شہباز سپیڈ‘‘ یہاں بھی عوام کے ساتھ ہاتھ کر گئی اور دن دہاڑے لوگوں کو دھوکہ دے گئی۔ برطانوی صحافی شہباز شریف کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے اسے جگتیں مار رہا ہے اور یہ اپنی نازک کمریا پہ ہاتھ رکھے ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آرام فرما رہے ہیں۔

بندہ کبھی کبھی سوچتا ہے کہ دس سالہ لگاتار، موسلا دھار اور ٹی ٹی دار اقتدار کے دوران جو کمر ہمیشہ کمر بستہ رہی، اقتدار سے فارغ ہوتے ہی پھر سے بیمار کیسے ہو گئی؟ زیادہ تر سیاستدانوں نے اپنا کوئی نہ کوئی ’’پرزہ‘‘ برے دنوں کے لئے مخصوص کر رکھا ہوتا ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ معاملہ جینوئن بھی ہو، یہاں تک کہ سیریس بھی ہو تو چیخنے چلانے کے بجائے مردوں کی طرح بہادری سے فیس کریں۔ شیر ہیں تو تھوڑا بہت شیر تو بن کر دکھائیں، یہ تو چشم زدن میں مٹی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔

اقتدار میں ہوں تو مرد آہن بنے رہتے ہیں، اقتدار سے نکلتے ہی موم کے پتلے بھی نہیں رہتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عیش اور طیش میں کچھ یاد نہیں رہتا لیکن کیش کی ٹریل دینا پڑ جائے تو محاوروں کا استعمال تک بھول جاتے ہیں۔ یہ وہی شہباز شریف ہیں نا جنہوں نے اسمبلی میں پوری دنیا کے سامنے یہ رونا رویا تھا کہ انہیں دیوار کے ساتھ ہی نہیں لگایا جا رہا بلکہ انار کلی کی طرح دیوار میں چن دیا گیا ہے۔ عمران خان کی اردو اور سینس آف ہیومر دونوں ہی بہت کمزور ہیں لیکن انار کلی نما مہابلی مردِ آہن کی فریاد سن کر عمران خان بھی کھکھلا کر ہنس دیا تھا۔ اس طرح تو تگڑی عورت بھی رونا نہیں روتی جیسے یہ روئے، جنہیں جلال میں دیکھ کر سرکاری ملازمین کے سانس سوکھ جاتے تھے؎

اتنے ہی بس جری تھے حریفانِ آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمرے میں آ گئے

کبھی پتلی گلی پکڑی اور جدہ بھاگ گئے، کبھی انارکلی کا روپ دھار لیا اور کبھی برسات کے ہیروں کی طرح ’’پتلی کمر ہے ترچھی نظر ہے‘‘ جیسے گانے پر اداکاری شروع کر دی۔ عجیب بات ہے کہ ان کی رہائش گاہوں سے ساری سیکورٹی ہٹا لی گئی۔ بنکرز، چوکیاں مسمار کر دی گئیں، ہر قسم کی رکاوٹیں، بیریئرز ہموار کر دئیے گئے لیکن چشم بد دور سب کے سب خیریت سے ہیں اور ان شاء اللہ خیریت سے ہی رہیں گے کیونکہ ان میں کوئی برہان وانی نہیں، ہر کوئی ’’دل دا جانی‘‘ ہے جو اقتدار میں آتے ہی سرکاری زمینوں اور عوامی رستوں پر قبضہ کر کے عوام کو گالی دیتے ہیں اور یہ میں آج نہیں کہہ رہا، مدتوں سے میرے پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ کے پرومو کا حصہ ہے۔

اللہ نہ کرے یہ یا ایسا کوئی اور کبھی اقتدار کے قریب سے بھی گزرے لیکن میرے منہ میں خاک اگر پھر یہ حادثہ ہوگیا تو آپ دیکھیں گے کہ انہوں نے موجودہ ’’عزت افزائی‘‘ سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھنا۔ جلا وطنی کے بعد جب یہ ملک اور اقتدار میں واپس آئے تو مجھ کودن اور احمق کا خیال تھا کہ اس بار یہ لوگ باوقار اور وضعدار طریقے سے ’’بی ہیو‘‘ کریں گے لیکن نہیں…. نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کہلوانا خادم اعلیٰ اور طمطراق عالم پناہوں اور ظل سبحانیوں جیسے کہ اُنہیں تو پھر زیب دیتا کہ اول یہ کہ وہ زمانے اور تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ امیر تیمور جیسے عظیم فاتح کی اولاد تھے لیکن سچ کہا کسی نے کہ تعلیم، تربیت، تمول اور کلاس تین چار نسلوں کے بعد ہی دکھائی دینا شروع کرتی ہے۔

مرا خیال ہے سابقہ وزیراعلیٰ کو کالم میں ضرورت سے زیادہ ’’سپیس‘‘ مل گئی تو اب کیوں نہ حالیہ اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف رخ کریں جس کا تعلق تونسہ سے ہے۔ یاد رہے ’’تونسہ‘‘ ہندی یا شاید سنسکرت میں ’’کبھی نہ بجھنے والی پیاس‘‘ کو کہتے ہیں اور پیاس عزت، شہرت، دولت، علم کسی بھی شے کی ہو سکتی ہے تو یقین مانیں عثمان بزدار یعنی بزدار بھولا بھالا کی لاٹری نکل آئی ہے اور یہ لاٹری وزارت اعلیٰ کا ملنا نہیں بلکہ لاہور شہر کی توسیع کو روکنے کے لئے شہر کی حدود کو منجمد کرنے کا تاریخی فیصلہ ہے۔ فیصلہ تو شاید وزیراعظم کا ہے لیکن اس پر عملدرآمد وزیراعلیٰ پنجاب نے کرنا ہے اور اگر عثمان بزدار نے یہ کارنامہ سرانجام دے دیا تو یہ شہباز شریف کی 50اورنج ٹرینوں جیسی رنگ بازی پر بھاری ہوگا۔

لاہور‘ پاکستان کیا برصغیر کا منفرد، ممتاز اور مختلف ترین شہر ہے جسے بے لگام اور مادر پدر آزاد بڑھوتری تیزی سے اک ایسی بربادی کی طرف دھکیل رہی ہے جس کا کوئی جعلساز محو پرواز حکمران تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مسئلہ صرف ’’آلودگی‘‘ پر قابو پانے کا نہیں، پھیلائو بلکہ اندھا دھند پھیلائو کے ساتھ جڑے بیشمار مسائل کا ہے جن کے ادراک کے لئے اک خاص قسم کے شعور کی ضرورت ہے۔ دنیا کے کئی مہذب ملکوں میں شہروں کو اک خاص حد سے تجاوز کرنے کی اجازت دینے کے بجائے نئے شہر اور قصبے بسائے جاتے ہیں اور تو اور خود ہمارے آقاﷺ کا حکم ہے، سو لاہور کی حدود کو منجمد کرکے اس شہر بے مثال کو محفوظ کرنا تاریخ پر احسان ہوگا۔ جتنی جلدی ہو سکتا ہے ماسٹر پلان کو اَپ ڈیٹ کریں اور لاہور کی حدود میں توسیع کو روکنے کے لئے ایکشن میں آئیں اور خود کو لاہور ہی نہیں پنجاب کی تاریخ میں بھی محفوظ کر لیں۔

شہباز گل کو اگر ٹی وی ٹاک شوز سے فرصت ملے تو اس محاذ پر بھی اپنے بھولے بھالے باس کا ہاتھ بٹائے کہ یہ وقتی نہیں اک ایسا تاریخ ساز کام ہوگا جس کا شاید شہباز کو خود بھی اندازہ نہ ہو (شہباز سے مراد شہباز گل ہے، کوئی ’’انارکلی‘‘ نہیں)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے