نمک اور چائے کا احتجاج انقلاب لے آیا

چاچا مقصود ان لوگوں میں سے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ اس ملک میں حقیقی تبدیلی صرف عمران خان لا سکتا ہے ۔ خان کو پانچ سال لگانے دیں ۔انقلاب آ جائے گا. تیس سال سے بلڈنگ کی چوکیداری پر مامور چاچا مقصود عمران خان کا Die Heart فین ہے ۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار نے الیکشن کیمپین میں گاڑی سے نیچے اتر کر اس سے ووٹ مانگا تھا ۔ کشمیر کے حوالے سے گزشتہ جمعہ کو خان صاحب کی کال پر ہونے والے احتجاج پر چاچا کچھ کنفیوژ تھا ۔

چاچے مقصود نے پوچھا کہ ویسے تو عمران خان کی ہر بات سر آنکھوں پر لیکن کیا اس احتجاج کا کوئی فائدہ بھی ہو گا ؟ میرے خیال میں تو پٹاخہ (ایٹم بم ) پھٹا دینا چاہئے ۔ میں نے کہا کہ خدا کا خوف کرو چاچا ۔ کیوں سب کو مروانے پر تلے ہو۔ لیکن اس کا سوال میرے ذہن میں ٹک گیا کہ کیا احتجاج کا کچھ فائدہ ہو گا ؟

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو لگ بھگ ایک مہینہ پورا ہونے لگا ہے ۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ سکول و کالج بند ہیں۔ مواصلات معطل ہے۔ نظام زندگی مفلوج ہے۔ کشمیر کی سیاسی قیادت نظر بند ہے۔ کہیں کہیں سے پر تشدد واقعات کی خبریں آ رہی ہیں۔ عورتیں اور بچے سہمے ہوئے ہیں ۔ کشمیری پاکستان پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔

گزشتہ جمعے کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کے مطابق دن 12 سے لے کر 12:30 بجے تک کشمیریوں پربھارتی جبر کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔اس موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹریفک سگنل بندکر دیئے گے۔ ٹریفک رک گئ۔ کشمیری ترانے کے ساتھ ساتھ قومی ترانہ فضا میں بلند ہو ا۔ بچے ،بوڑھے ،عورتیں ،جوان سب کشمیر کے لئے احتجاج میں کھڑے نظر آئے ۔ یہ یقیناً اپنی نوعیت کا منفرد احتجاج ہو تھا۔ لیکن کیا یہ احتجاج کشمیریوں کی زندگی آسان بنانے اور انہیں حق خود ارادیت دلوانے کے لئے ایک مؤثر کوشش ثابت ہو گی؟ آئیں ساڑھے تین سو سال پیچھے جاتے ہیں۔

یہ امریکی ریاست بوسٹن ہے۔ دسمبر 1773 کا زمانہ ہے ۔ جب امریکی ریاست بوسٹن کی بندرگاہ پر کچھ منچلے جان کی پرواہ کئے بغیر چائے کی پیٹیاں اٹھا اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے تھے ۔ یہ ایک احتجاج تھا ۔ اس کو ” بوسٹن ٹی پارٹی” کے نام یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ وہی احتجاج تھا جس کی بدولت امریکیوں میں یہ احساس بیدا رہوا۔ کہ اب انہیں تاج برطانیہ سے نجات حاصل کرنی ہو گی ۔ اس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں اپنے پاؤں جمانے کی کوششیں کر رہی تھی ۔

برطانوی حکومت خود بھی قرضوں کے بوجھ تلے دبی تھی سو برطانوی پارلیمنٹ نے اپنی نو آبادیاتی بادشاہت کو وسعت دینے اور پیسہ کمانے کے لئے Tea Act of 1773 کے ذریعے کمپنی کو اجازت دی کی وہ چائے کسی ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر امریکی بندرگاہوں تک لے جائے اور وہاں فروخت کرے۔ اس کا براہ راست نقصان امریکی کمپنیوں کو پہنچنے لگا ۔ ان امریکیوں کمپنیوں نے اس معاشی نا انصافی کے خلاف برطانیہ سے احتجاج کیا ۔ لیکن جب ان کا احتجاج نہ سنا گیا تو انہوں نے بوسٹن کی بندرگاہ پر چائنا سے آنے والی چائے کے تین سو سے زائد باکس سمندر میں پھینک دئیے۔

اس احتجاج کی قیادت Sons of Liberty نے کی تھی ۔ یہ امریکی تاجروں اور کاروباری افراد پر مشتمل ایک وطن پرست گروہ تھا جو وقتا فوقتا برطانوی سامراج کے لگائے گئے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کرتا رہتا تھا ۔

یکم جون 1774 کو تاج برطانیہ اس ا حتجاج کی سزا سنا ئی اور بوسٹن کی بندرگاہ کو اس وقت تک کے لیے بند کرنے کا حکم دیا گیا ۔ جب تک شہر دسمبر 1773 میں ہونے والی ’’ٹی پارٹی‘‘ پر معذرت خواہ نہ ہو، اس بغاوت میں ملوث افراد کو گرفتارکیا جائے اور انھیں سزا دی جائے اور اس کے ساتھ ہی چائے کی اس دعوت کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم بھی جاری ہوا۔ اس ردعمل کے نتیجے میں پورے امریکہ میں آگ بھڑک اٹھی ۔ اور امریکیوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد شروع کی جو برطانوی سامراج سے نجات پر ختم ہوئی ۔

12 مارچ 1930ء کو مہاتما گاندھی نے برطانوی راج کی مخالفت میں ایک تاریخی نمک مارچ کیا۔ یہ مارچ نمک کی پیداوار پر مکمل برطانوی کنٹرول کے خلاف شروع کیا گیا تھا ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے قانون Britain’s Salt Act of 1882 کی رو سے برصغیر کے شہریوں کو نمک اکٹھا کرنے اور فروخت کرنے پر مکمل پابندی تھی۔

اس نمک مارچ کو وائٹ فلوئنگ ریور(White Flowing River) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس مارچ میں شریک سب افراد نے سفید کھدر پہنی ہوئی تھی۔انہوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ احمدآباد کے سابر متی آشرم سے ساحلی گاؤں دانڈی تک 390 کلومیٹر کا یہ پیدل سفر چوبیس روز میں مکمل کیا تھا۔احتجاج کے آخری روز گاندھی جی نے سمندر کے کنارے سے نمک ملی مٹی اٹھا کر برطانوی سامراج کے خلاف سول نافرمانی کی بنیاد رکھی ۔ اور پھر کانگرس اور مسلم لیگ کی قربانیوں نے پاکستان و بھارت کو نو آبادیات سے نجات دلائی ۔

گزشتہ صدی بھی مشرق تا مغرب احتجاجوں اور انقلابوں سے بھرپور رہی ۔ صنعتی انقلاب ہو یا روس ، مصر ، جرمنی ، انڈونیشیا اور انقلاب ایران سب اسی صدی کی پیداوار ہیں ۔ پاکستان بھی اسی صدی میں آزاد ہوا ۔ لیکن یہ ساری تحریکیں احتجاج سے شروع ہوئیں ۔ اور پھر خونی معرکوں کے بعد آزادی اور انقلاب پر منتج ہوئیں ۔

عمران خان نے اپنے حالیہ خطاب میں خود کو سفیر کشمیر کہا اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے اس علامتی احتجاج کی کال دی ۔ کیا حکومتی ایماء پر منعقد کیا جانے والا یہ احتجاج کشمیر یوں کی حق خود ارادیت کی طرف ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا ۔ یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔

ٹویٹرپر فالو کریں
amjadqammar@

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے