ماسکو کا لائل پور

میں نے ماسکو کے طارق چوہدری کا نام پہلی مرتبہ 2006میں سنا تھا‘ شوکت عزیز وزیراعظم تھے‘ حکومت نے کراچی اسٹیل ملز کی فروخت کا فیصلہ کیا‘پتا چلا ماسکو کے ایک پاکستانی بزنس مین اسٹیل مل میں دل چسپی رکھتے ہیں‘ یہ بھی معلوم ہوا یہ بزنس مین جنرل پرویز مشرف کے دوست ہیں اور صدر انھیں نوازنا چاہتے ہیں‘ ہم لوگوں نے سن گن لی تو پتا چلا اس بزنس مین کا نام طارق چوہدری ہے اور یہ فیصل آباد کے رہنے والے ہیں۔

بہرحال قصہ مختصر مارچ 2006میں کراچی اسٹیل مل نیلام ہو گئی لیکن جنرل پرویز مشرف کی کوشش کے باوجود یہ مل طارق چوہدری کے بجائے روس کی کمپنی میگ نیتوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل ورکس(Magnitogorsk Iron and Steel Works)نے سعودی اور پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر خرید لی‘ ہم لوگ ابھی حیرت میں تھے کہ پتا چلا طارق چوہدری کی کمپنی میگ نیتوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل ورکس سے 50 ملین ڈالر لے کر بولی سے اٹھ گئی تھی‘ ایم کیو ایم ان دنوں مضبوط بھی تھی اور کراچی میں ان کا ہولڈ بھی تھا‘ ہمیں پتا چلا ایم کیو ایم کے سیکٹر کمانڈرز نے کراچی میں طارق چوہدری کے دفتر پر قبضہ کر لیا ہے۔

یہ ان سے 50 ملین ڈالرز میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں‘ ہمیں پھر پتا چلا جنرل پرویز مشرف درمیان میں آ گئے ہیں‘ یہ دونوں پارٹیوں کے درمیان سودا کرا رہے ہیں‘ پھر پتا چلا جنرل پرویز مشرف درمیان سے نکل گئے ہیں اور یہ ایشو اب طارق چوہدری اور ایم کیو ایم کے انور بھائی ’’حل‘‘کر رہے ہیں‘ ہمیں پھر پتا چلا روسی کمپنی سے 50 ملین ڈالر طارق چوہدری نے نہیں بلکہ شوکت عزیز نے وصول کیے تھے اور آئی ایس آئی کے پاس اس کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں اور ہمیں پھر پتا چلا طارق چوہدری نے اسٹیل مل کی نیلامی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس پر قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔

طارق چوہدری کی پٹیشن آگے چل کر صدر پرویز مشرف اور افتخار محمد چوہدری میں وجہ نزع بن گئی‘ جنرل مشرف نے افتخار محمد چوہدری کو ایوان صدر بلا کر مستعفی ہونے کا حکم دیا اور پھر تاریخ نے اپنی آنکھوں سے عدلیہ بحالی کی وہ تحریک دیکھی جس کے آخر میں جنرل پرویز مشرف فارغ ہو گئے‘ ہم آج جب 2007کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے پیچھے طارق چوہدری کا نام اور کردار دکھائی دیتا ہے‘ میں نے اس زمانے میں اس حیران کن کردار کے بارے میں تحقیق کی‘ معلوم ہوا طارق چوہدری فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں‘انتہائی غربت سے اٹھے ہیں‘ سرد جنگ کے زمانے میں فیض احمد فیض کے اسکالر شپ پر روس گئے۔

میٹالرجی میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی‘ سخت محنت کی‘ لوہے کا بزنس کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے‘ یہ اب روس کے کامیاب ترین بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں‘ دھاتوں کے شعبے میں ان کا بڑا نام ہے‘ یہ پوری دنیا میں لوہا ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ فیصل آباد کو آج بھی لائل پور کہتے ہیں اور انھوں نے اس شخص کو ایک ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کر رکھا ہے جو فیصل آباد کو دوبارہ لائل پور بنائے گا۔

یہ فیصل آباد میں اپنے محلے میں ہزار بچوں کا چیریٹی اسکول بھی چلا رہے ہیں اور پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں چناں چہ یہ ملک کے لیے ملک کے ہر حکمران کے دوست بن جاتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ‘ میں نے 2007 میں ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن کام یاب نہ ہو سکا‘ میں مئی 2019 میں ماسکو گیا‘ میں نے اس دوران بھی کوشش کی مگر ملاقات نہ ہو سکی۔

تاہم ہمارا گروپ 26 اگست کو ماسکو پہنچا تو طارق چوہدری نے خود میرے ساتھ رابطہ کر لیااور ان کے منیجر بابر مجھے لینے کے لیے ہوٹل آ گئے اور میں اپنے ٹور فیلو شفیق عباسی کے ساتھ طارق چوہدری کے گھر پہنچ گیا‘ یہ ماسکو کے مضافات میں بہت بڑے فارم ہاؤس میں رہتے ہیں‘ گھر میں پاکستانی سبزیوں کی کیاریاں بھی بنا رکھی ہیں اور روسی سیب اور آلوچے کے درخت بھی لگا رکھے ہیں‘ یہ بہت محبت کے ساتھ ملے۔میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ عمران خان کے فین بھی ہیں‘ سپورٹر بھی اور فنانسر بھی۔

میں نے طارق چوہدری سے سوالوں کا سلسلہ شروع کیا اور یہ کھلے دل کے ساتھ جواب دیتے چلے گئے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی کمپنی واقعی 50 ملین ڈالر لے کر نیلامی سے نکل گئی تھی‘‘ ہنس کر جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘ ہم کراچی اسٹیل مل خریدنا چاہتے تھے‘ میں نے چارٹر جہاز پر اپنا منیجر پاکستان بھجوایا تھا‘ وہ نیلامی میں قیمت بڑھاتا جا رہا تھا لیکن پھر کسی نے اسے باہر کوریڈور میں بلوایا اور کان میں سرگوشی کی تم اگر واپس روس جانا چاہتے ہو تو نیلامی سے اٹھ جاؤ‘ وہ ڈر گیا اور نیلامی سے اٹھ گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا ایم کیو ایم نے واقعی آپ سے پچاس ملین ڈالر مانگے تھے‘‘ وہ بولے ’’یہ درست ہے ایم کیو ایم کے لوگوں نے کراچی میں ہمارے دفتر آنا جانا شروع کر دیاتھا۔

وہ سمجھتے تھے ہم نے روسی کمپنی سے 50 ملین ڈالر لیے ہیں‘ میں نے جنرل مشرف کے ذریعے انھیں تسلی دی مگر وہ قائل نہیں ہوئے لیکن جب پارٹی نے خود تفتیش کی تو ہم بے گناہ ثابت ہو گئے جس کے بعد ان کی توجہ شوکت عزیز پر چلی گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ کیا شوکت عزیز نے رقم لی تھی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’اگر لی بھی تھی تو وہ یقینا واپس ہو گئی ہو گی کیوں کہ سپریم کورٹ نے ڈیل کینسل کر دی تھی اور روسی کمپنی کو اسٹیل مل نہیں ملی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے ڈیل کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن کیوں کی؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں جنرل پرویز مشرف کے پاس گیا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا‘ حکومت نے 21.68ارب روپے میں اسٹیل مل بیچ دی۔

میں آج بھی دگنے پیسے دینے کے لیے تیار ہوں‘ جنرل مشرف نے نیلامی کے کاغذات منگوا کر دیکھے اور پھر مجھ سے کہا‘ میں اب کچھ نہیں کر سکوں گا‘ آپ سپریم کورٹ چلے جائیں‘ میں جنرل مشرف کے مشورے پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملا‘ ان کی ہدایت پر پٹیشن تیار کی اور یوں کیس شروع ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی چیف جسٹس سے میٹنگ کس نے طے کی تھی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’جنرل پرویز مشرف کے اسٹاف نے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے جنرل مشرف کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں لندن میں فلیٹ خرید کر دیا تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہرگز نہیں تاہم یہ میرے دوست ہیں۔

میں نے ان کی سالگرہ پر چارٹر جہاز بھجوا کر انھیں سینٹ پیٹرز برگ بلوایا تھا اور ان کی سالگرہ کا فنکشن کیا تھا‘ میں آج بھی ان کی خدمت کے لیے تیار ہوں لیکن مجھ سے جنرل مشرف نے کبھی کوئی رقم لی اور نہ میں نے دی‘‘میں نے پوچھا ’’کیا آپ عمران خان کے فنانسر ہیں‘‘ وہ دوبارہ ہنس کر بولے ’’یہ میرے دوست ہیں اور دوستوں کے لیے میری جان بھی حاضر ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ آج بھی اسٹیل مل خریدنے کے لیے تیار ہیں‘‘ وہ بولے ’’کراچی اسٹیل مل قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے‘ میں کیا دنیا کا کوئی بھی بزنس مین اتنے بھاری قرضوں کے ساتھ یہ اسٹیل مل نہیں خریدے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اسٹیل مل بحال ہو سکتی ہے‘‘ وہ یقین کے ساتھ بولے ’’ہاں سو فیصد لیکن اس کے لیے ہمیں چند نکتے سمجھنا ہوں گے۔

پہلا نکتہ مل کا ماڈل ہے‘یہ مل 1973 میں بننا شروع ہوئی لیکن اس میں 1958 کی ٹیکنالوجی استعمال ہوئی‘مل کی ٹیکنالوجی 60 سال پرانی ہے‘ آج اسٹیل ٹیکنالوجی بہت آگے جا چکی ہے لہٰذا آپ یہ پلے باندھ لیں آپ پرانی ٹیکنالوجی سے مل نہیں چلا سکیں گے‘ مل کو کراچی شہر کے برابر بجلی چاہیے اور آپ یہ بھی فراہم نہیں کر سکیں گے چناں چہ آپ کو بیلٹ کا پلانٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے‘ پوری دنیا میں بیلٹ دستیاب ہے‘ آپ یہ امپورٹ کریں اور باقی مل چلا دیں‘ یہ منافع میں چلی جائے گی‘ پاکستان میں اس وقت لوہے کی سالانہ طلب15 ملین ٹن ہے‘ اسٹیل مل نہ چلنے کی وجہ سے پاکستان ہر سال سات آٹھ ملین ٹن لوہا درآمد کرتا ہے‘ یہ سیدھا سادا نقصان ہے۔

اسٹیل مل چل جائے تو ملک بحران سے نکل آئے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے یہ نقطہ عمران خان کو بتایا‘‘ طارق چوہدری ہنس کر بولے ’’ہاں بڑی تفصیل سے سمجھایا لیکن حکومت جب تک شریف فیملی کے فلیٹس سے باہر نہیں آئے گی یہ اسٹیل مل جیسے ایشوز ہینڈل نہیں کر سکے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا فلیٹس کا ایشو ختم ہو جائے گا‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’میرا نہیں خیال‘ میں نے عمران خان کو بتایا لندن میں جہاں میاں نواز شریف کے تین فلیٹس ہیں میرے وہاں 54 فلیٹس ہیں۔

حکومت ان تین فلیٹس کی جتنی قیمت بتا رہی ہے یہ میرے 54 فلیٹس کی نہیں بنتی تاہم یہ درست ہے یہ فلیٹس قانونی طریقے سے نہیں خریدے گئے تھے اور شریف فیملی پوری زندگی ان کی منی ٹریل نہیں دے سکے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے حکومت بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر فلیٹس کو حرام کی کمائی ثابت نہیں کر سکے گی چناں چہ حکومت کو فلیٹس اور شریف فیملی میں الجھا دینا ملکی وسائل‘ توانائی اور وقت کا خوف ناک زیاں ہے‘ میں سمجھتا ہوں حکومت کو یہ ایشو نبٹا کراسٹیل مل جیسے اصل ایشوز کی طرف آجانا چاہیے تاکہ ملک چل سکے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے اس کے بعد ان سے ذاتی زندگی اور حیران کن کام یابی کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا‘ وہ ہنس کر بولے ’’یہ سب اللہ کا کرم ہے‘ میں لائل پور کی جن گلیوں سے نکل کر آیا ہوں وہاں سے اللہ ہی کسی کونکال سکتا ہے‘ یہ کسی بندے کے بس کی بات نہیں ‘‘۔

ہم رات دیر تک طارق چوہدری کے پاس رہے‘ مجھے ہر منٹ بعد محسوس ہوتا تھا لائل پور 1977میں فیصل آباد بنا دیا گیا لیکن طارق چوہدری کا لائل پور آج بھی ان کی ذات میں موجود ہے اور یہ ان کے خون میں نسلوں تک قائم رہے گا‘ پاکستان کا لائل پور ختم ہو گیا لیکن ماسکو میں لائل پور آج بھی موجود ہے اور جب تک طارق چوہدری قائم ہے ماسکو کا لائل پور بھی سلامت رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے