پاکستان کے غیر مسلم ہیروز

چھ ستمبر کو ہم نے دفاع وطن میں جان سے گزر جانے والے سپوتوں کو یاد کیا ۔ تو آئیے وطن کے ان بیٹوں کو بھی یاد کر لیں جو غیر مسلم تھے مگر مادر وطن پر قربان ہو گئے۔

پانڈو کے محاذ پر ہونے والی لڑائی کا تذکرہ تو ہم نے سن رکھا ہے ، کل پترا کی پہاڑی فتح کرتے ہوئے کیپٹن سرور شہید ہوئے تھے اور انہیں پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر ملا تھا ۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے اس پہاڑی پر پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعزاز کسے حاصل ہوا تھا ؟ لانس نائیک یعقوب مسیح کو۔ گولیوں سے ان کا وجود چھلنی ہو چکا تھا لیکن اس نے گھائل وجود کے ساتھ پانڈو ٹاپ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا او رپھر اس پرچم کے سائے میں جان قربان کر دی ۔ یہ لانس نائیک یعقوب مسیح بھی ہمارے ہیرو ہیں ۔

سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی 65ء کی جنگ میں شریک رہے ۔ جب 71 ء کی جنگ شروع ہوئی تو پیٹر کرسٹی ڈیپوٹیشن پر پی آئی اے میں کام کر رہے تھے۔ چھوڑ کر واپس آ گئے ۔ کراچی پر دشمن کے حملے کا خطرہ تھا ۔ اسے روکنا ضروری تھا ۔ بیس کمانڈر ایئر کموڈور نذیر لطیف بھی مسیحی تھے۔ ( انہیں 65 کی جنگ میں تمغہ جرات عطا کیا گیا اور 71 کی جنگ میں انہیں ستاہ جرات سے نوازا گیا) ۔ انہوں نے کہا دشمن کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جام نگر ایئر پورٹ کو تباہ کر دیا جائے لیکن یہ مارو اور مر جائو مشن ہو گا اور واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ کون جائے گا؟ پیٹر کرسٹی نے کہا اس دن کا تو انتظار تھا، میں جائوں گا ۔ اسی مشن کے دوران پیٹر کرسٹی وطن پر قربان ہو گئے۔

ونگ کمانڈر مارون لیزلے مڈل کوٹ 65 کی جنگ میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے طور پر کراچی میں تعینات تھے۔ دشمن نے کراچی پر حملہ کیا تو انہوں نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے۔ انہیں شہریوں کی جانب سے ’ کراچی کے محافظ ‘ کا خطاب کیا گیا ۔انہیں دو مرتبہ ستارہ جرات عطا کیا گیا ۔ اتفاق دیکھیے 1965ء کی جنگ میں جس مشن پر سکوڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی قربان ہوئے 1971ء میں پھر وہی مشن درپیش تھا ۔ جام نگر کے ایئر پورٹ پر حملہ کرنا تھا اور جس نے جانا تھا یہ سوچ کر جانا تھا کہ مشن سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ۔ اس دفعہ کمانڈر مارون لیزلے مڈل کوٹ نے مادر وطن کے لیے لبیک کہا اور خود کو والنٹئر کیا حالانکہ وہ ایک ہی دن پہلے اردن سے لوٹے تھے۔ کامیاب حملے کے بعد واپسی پر بھارت کے مگ طیاروں نے ان پر حملہ کر دیا، ان پر میزائل فائر ہوئے۔ ایک میزائل جہاز کو آ لگا ۔ پاکستان کا ایک اور بیٹا پاکستان پر قربان ہو گیا ۔

انہوں نے اسرائیل کے خلاف عربوں کی جنگ میں بھی حصہ لیا اور اردن کے شاہ حسین ان کے بہت معترف تھے۔ شاہ حسین نے باقاعدہ درخواست کی تھی کہ کمانڈر مڈل کوٹ کے جسد خاکی کو تو آپ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کریں گے لیکن ہماری درخواست ہے کمانڈر کے سر کے نیچے اردن کا قومی پرچم بھی رکھ دیجیے۔ یہ ایک عظیم کمانڈر کو ہمارا خراج عقیدت ہو گا ۔ لیکن شاہ حسین کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ سکواڈرن لیڈرر پیٹر کرسٹی کی طرح کمانڈر مارون لیزلے کا جسد خاکی بھی نہ مل سکا ۔

سیکنڈ لیفٹیننٹ دانیال ، مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو دانیال نے خود کو ’ والنٹیئر ‘ کیا اور مشرقی پاکستان پہنچ گئے ۔ 13 دسمبر کی صبح ایک مشن سے واپس لوٹ کر ناشتہ کر رہے تھے کہ خبر ملی 31 پنجاب کی پلٹون پر حملہ ہو گیا ہے۔ ناشتہ بیچ میں چھوڑ کر دشمن کے گھیرے میں آئے ساتھیوں کو بچانے نکلے اور سینہ چھلنی ہو گیا ۔ ہسپتال پہنچے، آپریشن ہوا، سینے سے گولیاں نکالی گئیں ، دانیال نے ڈاکٹر سے کہا یہ گولیاں نہیں یہ سووینئر ہے ، یہ میری ماں کو پہنچا دینا اور خود مادر وطن پر قربان ہو گئے۔

کیپٹن میخائل ولسن 1971 میں چھمب سیکٹر میں تعینات تھے۔ زخمی ہوئے اور جان قربان کر دی ۔ روایت ہے کہ مادر وطن پر قربان ہوتے وقت بھی وہ اپنے لیے نہیں اپنے وطن کی سلامتی کے لیے پریشان تھے۔

وطن پر قربان ہونے والے ان ہیروز کے ساتھ ساتھ کچھ اور نام بھی ہیں جن کی پاکستان کے لیے ناقابل فراموش خدمات ہیں ۔ سیسل چودھری ہیں جنہیں ستارہ جرات ، تمغہ جرات اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا ، میجر جنرل ایرک جی ہال جو وائس چیف آف ایئر سٹاف رہے ۔ 65 کی جنگ میں ایک موقع وہ بھی آیا جب پاکستان کے پاس جنگی طیارے کم پڑ گئے۔ جنرل ایرک نے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا کہ سب حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا ہم سی ون تھرٹی کو بمبار طیارے کے طور پر استعمال کریں گے۔

منصوبہ ناقابل عمل تھا کیونکہ سی ون تھرٹی لڑاکا طیارہ نہیں تھا ۔ ایرک جی ہال نے منصوبے کو اس شان سے قابل عمل بنایا کہ خود سی ون تھرٹی اڑایا اور جا کر بم پھینک آئے۔ انہیں ہلال جرات ، ستارہ جرات اور ہلال امتیاز عطا کیا گیا ۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد پینتالیس کے قریب پولینڈ کے افسران پاکستانی ایئر فورس کی تربیت کے لیے منگوائے گئے۔ ان میں سے ایک ونگ کمانڈر ولا دیسلاو جوزف تورووچ یہیں رک گئے اور پاکستان کے شہری بن گئے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے لیے الگ کالم چاہیے۔ انہیں ستاہ پاکستان ، تمغہ پاکستان ، ستارہ خدمت، ستارہ قائد اعظم ، ستارہ امتیاز، عبد السلام ایوارڈ ان ایرو ناٹیکل انجینئرنگ اور سپیس فزکس میں آئی ٹی سی پی ایوارڈ عطا کیا گیا۔

یہ صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کی قربانیوں اور خدمات کا تذکرہ ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ یہاں بسنے والے ہر مذہب کے ماننے والے مادر وطن پر قربان ہوئے ہیں ۔ یہ سب ہمارے ہیرو ہیں ۔ لیکن ہم انہیں بھلاتے جا رہے ہیں ۔ یہ ہماری اجتماعی یادداشت سے محو ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے نصاب اور ہمارے قومی بیانیے میں نصاب میں پیٹر کرسٹی اور کمانڈر ویزلے مڈل کوٹ جیسے سرفروشوں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے۔

جو پاکستان کے لیے اپنی جان پر کھیل گئے ، مطالعہ پاکستان ان کے ذکر کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟

اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے