مذاق

عمران خان کے وزیراعظم بننے کا پاکستان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ یہ وہ سوال تھا جس پر دو وفاقی وزراء میں بحث جاری تھی اور میں اس بحث کو خاموشی سے سُن رہا تھا۔ بحث کا آغاز اس طرح ہوا کہ جمعہ کی سہ پہر ایک وزیر صاحب نے وٹس ایپ کال پر پوچھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے استعفیٰ کیوں دیا ہے؟ میں نے بتایا کہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کی منظوری سے اُنہیں برطرف کر دیا ہے۔ وزیر نے کہا اگر آپ دفتر میں ہیں تو کیا چائے پینے آ جائوں؟

کچھ ہی دیر میں وہ ایک اور ساتھی وزیر کے ساتھ میرے پاس موجود تھے۔ میں نے اُنکی موجودگی میں ڈاکٹر شہباز گل سے فون پر بات کی اور پھر ان وزیروں کو بتایا کہ عثمان بزدار ناراض تھے اس لئے انہوں نے اپنے ترجمان کو فارغ کر دیا۔ ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر اور عمران خان کے قریبی ساتھی عون چوہدری کی کال آ گئی۔ انہوں نے پوچھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ وہ بیچارا اپنی برطرفی سے بالکل بے خبر تھا۔ اُسے ایک ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز سے پتا چلا کہ وہ برطرف ہو چکا ہے حالانکہ کچھ دن پہلے عون چوہدری کی وزیراعظم عمران خان سے بڑے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی تھی اور دونوں نے اکٹھے کھانا بھی کھایا۔ عون چوہدری کا فون بند ہوا تو میں نے دونوں وزیر صاحبان کو بتایا کہ عون بھی فارغ کر دیا گیا۔ دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔

پھر ایک وزیر نے کہا ڈاکٹر شہباز گل بہت زیادہ بولتا تھا لیکن عون چوہدری تو کچھ بھی نہیں بولتا تھا، اس کا مطلب ہے وزیراعظم کو نہ تو زیادہ بولنے والے پسند ہیں اور نہ چپ رہنے والے پسند ہیں، ہمارا وزیراعظم میانہ روی کا قائل ہے۔ دوسرے وزیر نے ذرا غصے سے اپنے ساتھی کو کہا کہ شرم کر تو کیمرے کے سامنے تو نہیں بیٹھا ہوا، آف دی ریکارڈ گفتگو کر رہا ہے اور اس گفتگو میں بھی خوشامد کر رہا ہے۔ اگر وزیراعظم نے عون چوہدری کی عزت کا خیال نہیں کیا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ پہلے وزیر نے ساتھی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ آہستہ بول یار! دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور یہ دیواریں تو جیو ٹی وی کی ہیں، ان دیواروں میں نجانے کس کس نے اپنے کان لگا رکھے ہیں اور پھر اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ آئو گھر چل کر بات کرتے ہیں۔

اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں وزیر صاحب ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بجائے ہمیں اپنے گھریلو دفتر میں لے گئے اور بڑے یقین سے کہا کہ یہ محفوظ جگہ ہے اور یہاں کی دیواروں کے کان کاٹے جا چکے ہیں۔ ہمارے موبائل فون بھی لے لئے گئے اور ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد وہ وزیر جو چند منٹ قبل وزیراعظم کی میانہ روی پر گفتگو کر رہا تھا، اپنے ساتھی کو کہنے لگا اب تجھے سمجھ آئی میں ٹی وی پر کیوں نہیں جاتا؟ مجھے پتا ہے کہ میں ٹی وی پر جائوں گا تو مجھ سے اچھا کوئی بول نہیں سکتا، اچھا بولوں گا تو میرے اپنے ہی ساتھی میرے خلاف سازشیں کرینگے اور پھر میرا وہی حشر ہو گا جو اسد عمر اور عامر کیانی کا ہو چکا ہے۔ اس وزیر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو کیپٹل ٹاک میں عمران خان کی گفتگو سُن سُن کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے لیکن آج ہمارے وزیراعظم کو اُن لوگوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو کیپٹل ٹاک میں عمران خان کی ایسی تیسی کیا کرتے تھے۔

اگر عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہم یہی سمجھتے کہ ہمارا خان صاحب بڑا اصول پسند انسان ہے اور اسکے پاس پاکستان کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ میں نے نکتۂ وضاحت پر کہا کہ پیارے دوستو جب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک شروع ہوا تو مشرف کا دور تھا، نواز شریف سعودی عرب اور محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں تھیں، پاکستان میں ایک سیاسی خلا تھا۔ مشرف کو للکارنے والا کوئی نہ تھا لہٰذا ہم مشرف کی ناراضی مول لے کر عمران خان کے ذریعہ سیاسی خلا پُر کرتے رہے لیکن جب عمران خان ایک سیاسی طاقت بن گیا تو پھر مشرف کے ساتھیوں نے اُسے ہائی جیک کر لیا۔ ایک وزیر نے میری اس گستاخی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ہوا بہت اچھا ہوا۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ دوسرے وزیر نے تڑپ کر پوچھا کہ کیا فائدہ ہوا؟ ہم نے کراچی میں کچرا ختم کرنے کی مہم شروع کی اور ہماری سیاست کا کچرا بن گیا۔ پہلے وزیر نے بڑے اطمینان سے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوا ہے کہ صرف ہماری ’’یوتھ‘‘ نہیں بلکہ ہماری اپنی بھی کئی غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ یاد کرو ہمارے خان صاحب مکے لہرا کر کہا کرتے تھے کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو صرف نوے دن میں کرپشن ختم کر دونگا لیکن حکومت میں آنے کے ایک سال کے بعد پشاور میں بی آر ٹی کا منصوبہ ہم سب کے لئے ایک گالی بن گیا ہے۔

ہمارا خیال تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر حکومت چلا لیں گے اور اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لیں گے لیکن ہمیں آئی ایم ایف کے پائوں پڑنا پڑا اور آئی ایم ایف نے ہمارے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہم یہی سمجھتے کہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانا اور گورنر ہائوس کی دیواریں گرانا بہت آسان ہے، ہم یہی سمجھتے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا اور قرضوں کا بوجھ اتارنا بہت آسان ہے، حکومت میں آ کر ہم نے قرضوں کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا یہ فائدہ ہوا کہ ہماری غلط فہمی دور ہو گئی کہ ہم کوئی نیا پاکستان بنا رہے ہیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو جس طرح ناکام بنایا گیا اس سے ہمیں پتا چل گیا کہ نئے پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کتنی ضروری ہے اور اس کام میں ہم نواز شریف اور آصف زرداری کو بھی شکست فاش دے سکتے ہیں۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے سے یہ پتا بھی چل گیا کہ بھلے حکومت کے تمام ادارے وزیراعظم کی حمایت کرتے رہیں لیکن سیاسی و معاشی استحکام کیلئے قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ اگر قانون سب کیلئے برابر نہ ہو تو جیلیں آباد اور مارکیٹیں ویران ہو جاتی ہیں۔ میں نے پوچھا قانون کی بالادستی کا کیا مطلب ہے؟ وزیر صاحب نے کہا آپ اپوزیشن کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ ہماری کابینہ میں ردوبدل کا معیار کیا ہے؟ عامر کیانی کو صرف ایک الزام پر وزارت سے ہٹا دیا گیا لیکن آج تک الزام ثابت نہیں ہوا۔ عون چوہدری کو بغیر کسی چارج شیٹ کے ہی ہٹا دیا گیا۔ ہم نے حکومت اور قانون دونوں کو مذاق بنا دیا ہے اور عمران خان وزیراعظم نہ بنتا تو ہمیں کبھی یہ پتا نہ چلتا کہ حکومت چلانا کوئی مذاق نہیں ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے