قائداعظم : جب آفتاب ڈھل رہا تھا…(2)

گاڑی زیارت کی طرف جانے والی سڑک پر جا رہی تھی۔ پچھلی سیٹ پر ڈاکٹر الٰہی بخش بیٹھے تھے۔انہوں نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر رکھی تھیں ‘کبھی کبھار وہ آنکھیں کھول کر کھڑکی سے باہر بھی دیکھ لیتے جہاں ہر طرف خاموشی تھی ۔ڈاکٹر الٰہی بخش کا خیال تھا کہ زیارت کوئی خوبصورت سیاحتی مقام ہو گا ‘لیکن یہ تو ایک ویران سی جگہ تھی ۔وہ آج ہی کوئٹہ پہنچے تھے‘ دو روز پہلے تک ان کی زندگی معمول کی زندگی تھی‘ وہ اپنے پیشے کے ماہر تھے‘ سولہ سال کی عمر میں پڑھائی کے لیے باہر گئے اور لندن سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ معروف کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پہلے مسلمان پرنسپل تھے‘ لیکن ان کا اصل اعزاز جو اُن کی وجۂ شہرت بننا تھا‘ دو روز پہلے تک ان کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اس روز وہ اپنے گھر کے لان میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے جب فون کی گھنٹی بجی اور انہیں فوراً کوئٹہ پہنچنے کا کہا گیا۔

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قائداعظم کی طبیعت ناساز ہے ‘البتہ انہیں بیماری کی نوعیت اور تفصیل نہیںبتائی گئی تھی ۔دوروز بعد وہ کوئٹہ میںتھے‘ جہاں سے ایک گاڑی انہیں زیارت لا رہی تھی ‘جہاں قائداعظم مقیم تھے۔ گاڑی نے بریک لگائی تو ڈاکٹر الٰہی بخش کے تصور کا سلسلہ ٹوٹ گیا ۔محترمہ فاطمہ جناح ان کی منتظر تھیں ‘جنہوں نے انہیں بتایا کہ قائد اعظم نے کہا ہے کہ ڈاکٹر سے صبح آٹھ بجے ملاقات ہو گی۔ اس روز ساری رات وہ بے چین سے رہے ۔ عین صبح کے آٹھ بجے کھلے دروازے سے جب ڈاکٹر الٰہی بخش اندر داخل ہوئے تو قائداعظم کا چہرہ دروازے کی طرف تھا‘ انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پوچھا امید ہے آپ کا سفر خوش گوار گزرا ہو گا۔

ڈاکٹر الٰہی بخش قائداعظم کو دیکھ کر دھک سے رہ گئے۔ قائداعظم ان کے سامنے ایک کمزور‘ لاغر اور ناتواں شخص کے روپ میں تھے۔ قائد نے تفصیل سے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بیماری کا پس منظر بتایا‘ جس میں لندن کے ڈاکٹروں کی غلط تشخیص سے لے کر جرمنی کے ایک ڈاکٹرکے تسلی بخش علاج کا احوال شامل تھا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے نوٹ کیا کہ اس دوران قائد کا منہ باربار خشک ہو رہا تھا اور وہ اپنے ہونٹوں کو تر کرتے تھے۔ قائد نے ڈاکٹر کو بتایا کہ پچھلے چودہ سال سے میں چودہ‘ چودہ گھنٹے کام کرتا رہا اور ڈاکٹروں کے مشورے کے برعکس آرام نہیں کیا۔ میرا خیال ہے میری بیماری کا تعلق معدے سے ہے۔

ڈاکٹرالٰہی بخش نے تفصیلی معائنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بیماری کا تعلق معدے کی بجائے پھیپھڑ وں سے ہے۔ حتمی طو ر پر لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد بھی کچھ کہا جا سکتا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائداعظم کی خوراک کا چارٹ بنایا اور قائد سے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں آپ کی کمزوری پر فوکس کرنا ہے‘ جس کے لیے آپ کی تجویز شدہ خوراک باقاعدگی سے لینا ہو گی اگلے روز لیب ٹیسٹ کی رپورٹ سے ڈاکٹر الٰہی بخش کے خدشے کی تصدیق ہو گئی کہ بیماری کا مرکز پھیپھڑے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح بے تابی سے رپورٹ کا انتظار کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری جانی کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں‘ جو اتنی تسلی بخش نہیں تھی ۔محترمہ فاطمہ جناح نے کہا کہ قائداعظم بھی اپنی بیماری کی نوعیت کو جاننا چاہیں گے‘ اس لیے ڈاکٹر کو انہیں بھی اعتماد میں لینا چاہیے ۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائداعظم کو رپورٹ کے بارے میں بتایا تو قائد نے اطمینان سے سنا ۔ان کا پہلا سوال تھا کہ اس رپورٹ کے بارے میں فاطمہ جناح کو تو نہیں بتایا ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا آپ سے پہلے انہیں بھی رپورٹ کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے‘ قائد نے کہا: ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس عالم میں بھی قائد کو اپنی بہن کا خیال تھا‘ جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ اس کے بعد قائد نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے تین سوال کیے‘یہ مرض مجھے کتنی مدت سے ہے؟ اس کے ٹھیک ہونے کے کتنے امکانات ہیں؟

مکمل صحت یاب ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد کو تسلی دیتے ہوئے کہا: انشاء اللہ آپ کچھ عرصے میں بہتر ہو جائیں گے‘ لیکن ڈاکٹر الٰہی بخش کا ذاتی خیال یہ تھا کہ بیماری کی نوعیت سنجیدہ ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے مناسب سمجھا کہ ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر غلام محمد کو بھی کوئٹہ بلا لیا جائے۔ قائد کے صبح شام ٹمپریچر اور دوائیوں کے لیے بھی ایک لیڈی کمپائونڈ ر رکھی گئی‘ لیکن یہ فریضہ فاطمہ جناح خود بھی انجام دیتی تھیں۔ ایک رات لیڈی کمپاونڈر نے قائداعظم کا ٹمپریچر چیک کیا تو قائد نے پوچھا کیا ٹمپریچر ہے؟ لیڈی کمپائونڈر نے قائد سے کہا میں ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتی ۔ اصول پسند قائد نے اصرار نہیں کیا بلکہ اگلے روز ڈاکٹر سے اس لیڈی کمپائونڈر کی تعریف کی کہ اس نے اپنے پیشہ ورانہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے دیکھا کہ قائد کے پاجامہ کا کپڑا موسم کے مطابق نہیں‘ اس لیے کراچی سے کسی سے کہا کہ 30 گز کا کپڑا بھیج دے تا کہ اس سے قائد کے پاجامے سلوائے جا سکیں۔قائد کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بلایا اور سختی سے کہا ڈاکٹر میری ایک نصیحت یاد رکھو‘ جب بھی کسی چیز پر تم خرچ کرو تو دو بار سوچوکیا واقعی یہ چیز خریدنا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا: سر آپ کے کیس میں تو ہم کئی بار سوچتے ہیں یہ کپڑا خریدنا واقعی ضروری تھا۔ڈاکٹر الٰہی بخش ماہر ڈاکٹر تھے‘ لیکن دو چیزیں ان کا کام مشکل بنا رہی تھیں۔ قائدِاعظم کی عمر ‘جو اس وقت 72 سال تھی اور زیارت کا مقام جو خاصی بلندی پر تھا۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مریض سانس کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک روز معمول کے معائنے کے دوران پتہ چلا کہ قائد کے پائوں پر ہلکی سی سوجن آ گئی ہے۔

وہ تشویش کی بات تھی‘ اب ضروری ہو گیا تھا کہ قائد کو زیارت سے کوئٹہ منتقل کیا جائے جو کم بلندی پر ہے ۔ قائد کا ٹمپریچر مستقل نارمل نہیں ہورہا تھا اس‘ روز بھی قائد نے صحیح طور پر دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ۔ ان کی کھانسی میں شدت آ گئی تھی اور ٹمپریچر بھی زیادہ تھا ۔ اسی دن وزیراعظم لیاقت علی خان قائد کو دیکھنے زیارت آئے ‘ انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے بیماری کی اصل وجہ پوچھی اور اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

وزیراعظم کی اس ملاقات کی پیشگی اطلاح نہیں دی گئی تھی‘محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کو لیاقت علی خان کی آمد کا بتایا او ر یہ بھی کہا کہ وہ نیچے انتظار کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے نقاہت بھری آواز میں کہا ”انہیں اوپر بھیج دو ‘‘ پھر وہ بولے :فاطی (وہ ہمیشہ محترمہ فاطمہ جناح کو فاطی کہہ کر بلاتے تھے) کیا تمہیں معلوم ہے یہ یہاں کیو ں آئے ہیں؟محترمہ فاطمہ جناح نے چند لمحے سوچا اور پھر انکار میں سر ہلادیا۔ قائد نے اپنی نحیف آواز میں فاطمہ جناح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: فاطی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں کتنا بیمار ہوں اور مزیدکتنی دیر تک زندہ رہوں گا۔محترمہ فاطمہ جناح کو اپنی سماعت پریقین نہیں آیا‘ انہوں نے اس رُخ سے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔وہ بے یقینی کے عالم میں بھائی کا چہرہ دیکھنے لگیں۔

کمرے کو گہرے سناٹے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ایسا سناٹا جس میں دلوں کی دھڑکن بھی سنی جاسکتی تھی۔(جاری)
ڈاکٹر الٰہی بخش نے دیکھا کہ قائد کے پاجامہ کا کپڑا موسم کے مطابق نہیں‘ اس لیے کراچی سے کسی سے کہا کہ 30 گز کا کپڑا بھیج دے تا کہ اس سے قائد کے پاجامے سلوائے جا سکیں۔قائد کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بلایا اور سختی سے کہا ڈاکٹر میری ایک نصیحت یاد رکھو‘ جب بھی کسی چیز پر تم خرچ کرو تو دو بار سوچوکیا واقعی یہ چیز خریدنا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا: سر آپ کے کیس میں تو ہم کئی بار سوچتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے