اسلام آباد ہی بدل دیں

آپ اگر اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ سے فیض آباد کی طرف آئیں تو آپ کو ایکسپریس وے پر سفر کرنا پڑے گا‘ یہ شہر کی ابتدائی روڈ ہے‘ وفاقی دارالحکومت کے یونانی آرکی ٹیکٹ نے بنوائی تھی اور یہ اسلام آباد کی ہموار ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے‘ آپ اگر اس پر گاڑی چلائیں تو آپ بے اختیار گاڑی کی اسپیڈ بڑھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ سڑک ہموار اور رواں ہے‘ یہ روانی اور ہمواری سڑک کا طرہ امتیاز ہے لیکن یہ طرہ امتیاز فخر کے ساتھ ساتھ ہر ماہ کسی نہ کسی کی جان بھی لے جاتا ہے۔

ہم اسلام آباد کے باسی ہر دوسرے تیسرے دن کسی ایکسیڈنٹ کی خبر سنتے ہیں اور پھر کئی دنوں تک اداس رہتے ہیں‘ ہفتہ 14ستمبر رات10 سے11 بجے کے دوران بھی ایکسپریس وے پر خوف ناک ایکسیڈنٹ ہوا‘ چار نوجوان گاڑی میں ایکسپریس وے پر آئے‘ گاڑی کی اسپیڈ اس قدر زیادہ تھی کہ یہ آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی‘ فٹ پاتھ سے ٹکرائی‘ اڑتی ہوئی درخت کے ساتھ لگی اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔

چاروں نوجوان بھی گاڑی کے ساتھ ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے‘ گاڑی اور لاشوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ دیکھنے والے بھی قے کرنے پر مجبور ہو گئے‘ نوجوان بمشکل جوان ہوئے تھے‘ یہ کالج میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے‘ تین غوری ٹاؤن کے رہنے والے تھے اور ایک نوجوان جی ٹین سے تعلق رکھتا تھا اور یہ چاروں چار سیکنڈ میں زندگی کی حد پار کر گئے۔

یہ اسلام آباد میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں‘ پچھلے سال دسمبر میں میرے دوست اور وزارت داخلہ کے آفیسر شفقت چیمہ کے دو نوجوان بیٹے بھی اسی سڑک پر جاں بحق ہو گئے ‘ یہ بھی بہت اوور اسپیڈ تھے‘ سڑک پر بس کھڑی تھی‘بیٹے نے فل بریک لگائی لیکن گاڑی کی اسپیڈ اس قدر زیادہ تھی کہ یہ گھسٹ کر بس سے جا ٹکرائی اور تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

یہ دونوں بھائی جاں بحق ہو گئے‘ میرے ایک اور جاننے والے کا بیٹا رات کے وقت مارگلا روڈ پر گاڑی چلا رہا تھا‘ وہ موبائل کے ذریعے اپنے کسی دوست کو اپنی اسپیڈ لائیو دکھا رہا تھا‘ گاڑی دو سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ گئی‘ بیٹے نے بریک لگائی‘ گاڑی روڈ سے اڑی‘ درخت سے ٹکرائی اور درمیان سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ بیٹے کا جسم بھی درمیان سے چر گیا‘ یہ ایک خوف ناک حادثہ تھا‘ ہم میں سے آج بھی جو اس حادثے کا تصور کرتا ہے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن میں دوبارہ عرض کروں گا‘ یہ اسلام آباد کا معمول ہے‘ یہ شہر روڈ ایکسیڈنٹ کے دوران ہلاکتوں میں پورے پاکستان میں سرفہرست ہے‘ یہاں ہر سال چھ اعشاریہ ایک فیصد ہلاکتیں حادثوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

یہ شرح پنجاب میں تین اعشاریہ تین‘ سندھ میں دو اعشاریہ ایک‘ کے پی کے میں چار اعشاریہ پانچ‘ بلوچستان میں تین اعشاریہ دو اور آزاد کشمیر میں چار اعشاریہ تین فیصد ہے‘ اسلام آباد دنیا بھر کے دارلحکومتوں میں بھی خوف ناک روڈ ایکسیڈنٹس میں ابتدائی نمبروں پر آتا ہے‘ آپ ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔

2012-13 میں 201 روڈ ایکسیڈنٹ ہوئے‘ 107 شدید تھے‘ ان میں 109 لوگ ہلاک اور 202 گاڑیاں مکمل تباہ ہو گئیں‘ 2013-14 میں 256 حادثے ہوئے‘ 120 شدید تھے‘ 132 لوگ ہلاک اور 256 گاڑیاں تباہ ہوئیں‘ 2014-15ء میں 216 حادثے ہوئے‘107 شدید تھے‘ 118 لوگ ہلاک اور 217 گاڑیاں تباہ ہوئیں‘ 2015-16میں 244 حادثے ہوئے‘ 120 شدید تھے‘ 140افراد ہلاک اور 244 گاڑیاں تباہ ہوئیں‘ 2016-17ء میں 226 حادثے ہوئے‘ 127 شدید تھے‘ 129 افراد ہلاک اور 216 گاڑیاں تباہ ہوئیں اور 2017-18ء میں 259 حادثے ہوئے‘ 157 شدید تھے‘ 167 افراد ہلاک اور 259 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔

آپ یہ اعداد وشمار دیکھیں اور ان کا تجزیہ کریں‘ آپ کو حادثوں اور ہلاکتوں میں بھی اضافہ دکھائی دے گا اور آپ یہ جان کر بھی حیران رہ جائیں گے یہ تمام حادثے اووراسپیڈ‘ بندسگنل سے گزرنے کی کوشش اور غلط سائیڈ سے اوور ٹیک کی وجہ سے ہوئے اور یہ کہاں ہو رہے ہیں ؟یہ اس وفاقی دارالحکومت میں ہو رہے ہیں۔

جہاں اس وقت تبدیلی سرکار موجیں مار رہی ہے‘ یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں پورا ملک تو دور اسلام آباد میں بھی رٹ آف دی گورنمنٹ اور قانون کا نفاذ نہیں‘ ہم وفاقی دارالحکومت میں بھی ٹریفک کنٹرول کرنے میں فیل ہو گئے ہیں‘ یہ شہر بھی قانون کی حکمرانی کے بغیر چل رہا ہے‘ اسلام آباد میں سڑکوں اور ٹریفک کی کیا حالت ہے آپ کسی روز رات گیارہ بجے کے بعد دیکھ لیں‘ آپ کو ہر دوسری تیسری گاڑی نشے میں جھومتی ملے گی‘رات کے وقت سڑکوں پر نوجوانوں اور نشئیوںکا قبضہ ہوتا ہے‘ شرفاء بارہ بجے کے بعد سڑک پر نہیں آتے‘ حکومت نے پورے ملک میں ہیلمٹ لازم قرار دے دیا تھا لیکن آپ کسی دن اسلام آباد کی سڑکوںپر دیکھ لیجیے۔

آپ کو ہر دوسرے موٹر سائیکل پر تین تین نوجوان ملیں گے اور کسی نے ہیلمٹ نہیں پہن رکھا ہو گا جب کہ شہر میں اوور اسپیڈنگ ایک نارمل فیچر بن چکا ہے‘ آپ کو سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے جگہ جگہ فاسٹ اینڈ فیوریس کا مظاہرہ دیکھنا پڑتا ہے‘ یہ شاید دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جہاں ٹریفک پولیس رات کے وقت چھٹی کر جاتی ہے اور سڑکیں ’’فری فار آل‘‘ ہو جاتی ہیں‘ میں عمران خان اور ان کی کابینہ کو اکثر کہتے سنتا ہوں ہم یہ ملک چند دنوں میں ٹھیک نہیں کر سکتے‘ یہ بات درست ہے قوموں کو واقعی بنتے بنتے دہائیاں بلکہ بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ہم اسلام آباد کی ٹریفک کو بھی ٹھیک نہیں کر سکتے؟ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔

حکومت اس کی ایک ایک گلی اور سڑک سے واقف ہے‘ یہ اگر اس شہر میں بھی قانون کو مکمل روح کے ساتھ نافذ نہیں کر سکتی تو پھر ہمیں خود کو ’’اللہ حافظ‘‘کہہ دینا چاہیے‘ ہمیں پھر اس ملک کو خود ہی دیوالیہ قرار دے دینا چاہیے‘ ریاست ڈسپلن اور قانون کی پابندی کی علامت ہوتی ہے لیکن ہم بدقسمتی سے یہ علامت وفاقی دارالحکومت میں بھی قائم نہیں کر پا رہے‘ آپ اگر حکومت کو دیکھیں اور پھر اس کی ڈینگیں گنیں تو محسوس ہوتا ہے مریخ پر پانی تلاش کرنے کا کارنامہ بھی یہ لوگ سرانجام دے رہے ہیں اور عمران خان بہت جلد پوری دنیا کے رول ماڈل بن جائیں گے۔

امریکا‘ روس‘ چین‘ برطانیہ ‘ جرمنی اور فرانس اپنے لیڈروں کو کرسی اقتدار پر بٹھانے سے پہلے کورس کے لیے پاکستان بھجوایا کریں گے اور عمران خان انھیں وزیراعظم ہاؤس یونیورسٹی میں حکومت کاری کی ٹریننگ دیں گے‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہم سے پوچھ کر ملکوں کو قرضے دیا کریں گے اور ہم ملکوں کو جنگ لڑنے اور جنگ جیتنے کا طریقہ بتایا کریں گے وغیرہ وغیرہ لیکن عملی نتیجہ کیا نکل رہا ہے! ہم سے اسلام آباد کی ٹریفک بھی کنٹرول نہیں ہو رہی‘ شہر میں ہر سال صرف اوور اسپیڈنگ کی وجہ سے اڑھائی سو ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہیں اوران میں سو سوا سو لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں‘ یہ ہے حکومت کی اصل کارکردگی!۔

میں نے ایک بار میاں نواز شریف سے عرض کیا تھا ہم جس دن اسلام آباد میں حکومت کی رٹ نافذ کر لیں گے ہم اس دن پورے ملک کو بدل لیں گے مگر حقیقت یہ ہے قانون اور انصاف کی صورت حال اسلام آباد میں زیادہ خراب ہے‘ یہ شہر دن بدن زیادہ خوف ناک ہوتا چلا جا رہا ہے‘ روز کسی نہ کسی سیکٹر سے ڈکیتی کی اطلاع ملتی ہے۔

پولیس کے پاس ڈاکوؤں کی تصویریں اور فنگر پرنٹس تک موجود ہیں لیکن یہ انھیں گرفتار نہیں کر پا رہی‘ ڈاکو چلتے چلتے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور چلتے چلتے لوٹ کر واپس چلے جاتے ہیں اور پولیس جوتے تلاش کرتی رہ جاتی ہے‘ وزیراعظم کسی دن اسٹریٹ کرائم کا اصل ڈیٹا بھی منگوا کر دیکھ لیں‘ یہ پریشان ہو جائیں گے‘ حکومت نے آخر وزیروں اور مشیروں کی اتنی بڑی فوج کس استعمال کے لیے رکھی ہے‘ حکومت کے پاس سو سے زائد وزیر‘ مشیر‘ خصوصی معاون اور بااختیار دوست ہیں اور یہ سب مل کر قوم کو ایک سال سے صرف یہ بتا رہے ہیں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں کرپٹ ہیں‘ بھائی ہم نے مان لیا یہ لوگ بے ایمان ہیں۔

آپ کام یاب ہو چکے ہیں‘ آپ اب مہربانی فرما کر کوئی اور کام بھی کر لیں‘ آپ کم از کم اسلام آباد ہی کو کرائم فری کر دیں‘ آپ اس شہر کی ٹریفک کو ہی ٹھیک کر لیں‘ آپ تمام سگنلز میں اسپیڈ کیمرے لگا دیں‘ اووراسپیڈ گاڑیاں پکڑ لیں‘ ڈرائیور کو ایک ماہ جیل میں رکھیں‘ کم سے کم دس ہزار روپے جرمانہ کریں اور جرمانے کی رقم گاڑی کے ماڈل اور اسپیڈ کے ساتھ ساتھ بڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ گاڑی ضبط کر لیں‘اسلام آباد میں ٹریفک کنٹرول ہو جائے گی‘ حکومت اسی طرح اسلام آباد میں یورپی طرز کا ڈرائیونگ لائسنس متعارف کرا دے‘ یہ لائسنس نادرا کے سسٹم سے منسلک ہو‘ پوائنٹس پر مشتمل ہو‘ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر یورپ کی طرح پوائنٹس کٹ جائیں اور پھر ریاست کم پوائنٹس اور لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ کرنے والے لوگوں کے خلاف اقدام قتل کی دفعات لگا دے۔

اسلام آباد میں کوئی تیسرا شخص موٹر سائیکل پر بھی نہ بیٹھ سکے اور شہر میں ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانا بھی ممکن نہ ہو‘ لائین کی پابندی‘ اشارے‘ ٹریفک سگنل اور پیدل کو گزرنے کا موقع دینا یہ اسلام آباد میں لازم ہو اور اگر وزیراعظم بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں تو یہ بھی سزا سے نہ بچ سکیں‘ آپ پھر شہر کی فضا کو تبدیل ہوتے دیکھیں گے‘ ہم اگر پورے ملک کو تبدیل نہیں کر سکتے تو ہم کم از کم ٹریفک ہی کے معاملے میں اسلام آباد کو ریاست مدینہ بنا دیں‘ ہم اس شہر میں گورنمنٹ کی رٹ اسٹیبلش کر دیں‘ آخر اسلام آباد میں لوگ کب تک سڑکوں پر مرتے رہیں گے‘ شہر کے لوگ کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟۔

میری وزیراعظم سے درخواست ہے حکومت سابق حکومتوں کو چور ثابت کرنے کی مہم سے چند لمحے نکال کر تھوڑا سا وقت ٹریفک پولیس کوبھی دے دے‘ ہو سکتا ہے اسلام آباد ہی نیا اسلام آباد بن جائے‘ یہ شہر ہی بدل جائے اور شہر میں ایکسیڈنٹ ہی کم ہو جائیں‘ باقی آپ عقل کل ہیں آپ حکیم لقمان کوبھی حکمت سکھا سکتے ہیں‘ میری کیا اوقات‘ میری کیا مجال ہے!۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے