کیا سکھ بھی ہندو ہوتے ہیں؟

کیا یہ سکھ بھی ہندو ہوتے ہیں ؟ آپ سوچ رہے ہوں کیا بے ہودہ سوال لے کر آ گیا ہے ، اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے جس کے ماننے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ لیکن میری کوئی غلطی نہیں ۔ مبینہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوری ریاست بھارت کے آئین میں لکھا ہے کہ سکھ بھی ہندو ہی ہوتے ہیں ۔ تو کیا خیال ہے آج تھوڑا سا ’ مطالعہ ہندوستان‘ ہو جائے؟

مودی تو بہت بعد کی بات ہے ، ’ہندتوا‘ پر تو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ہی کام شروع کر دیا تھا ۔ مودی نے صرف اتنا کیا ہے کہ بغل میں رکھی چھری اب ہاتھ میں پکڑ لی ہے ۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں سکھ مذہب کو الگ مذہب ماننے کی بجائے ہندو مذہب قرار دیا گیا ہے ۔

اس آرٹیکل کی کلاز ’ بی ‘ میں ہندوئوں ، ہندوئوں کے طبقات اور ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات کی گئی ہے اور ان اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب لفظ ہندو استعمال کیا جائے گا تو اس میں جین ، بدھ مت اور سکھ سب شامل ہوں گے اور جب ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات ہو گی تو اس میں ان سب کی عبادت گاہیں بھی شامل ہوں گی۔ یعنی آئینی طور پر بدھ مت ، جین مت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کو ہندو قرار دے دیا گیا ۔ یہ گویا پہلے دن سے بھارتی ریاست کو ’ ہندوائز‘ کرنے کی ایک کوشش تھی جو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ہاتھوں انجام پائی ۔ یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا سیکولرزم تھا کہ کھڑے کھڑے تین مذاہب کو ’ہندو‘ بنا دیا گیا ۔

اس اسمبلی میں سردار حکم سنگھ اور سردار بھوپندر سنگھ مان بھی موجود تھے ۔ انہوں نے اس آرٹیکل پر اعتراض کیا کہ ہما را ایک الگ مذہب ہے، ہم سکھ ہیں ۔ہمیں آپ ہندو کیسے قرار دے سکتے ہیں لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔ چنانچہ ان دونوں نے بھارت کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔

سردار حکم سنگھ کوئی جذباتی رہنما نہ تھے۔ وہ بھارت کی اس دستور ساز اسمبلی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ تین دفعہ لوک سبھا کے رکن رہے ، ڈپٹی سپیکر رہے ، سپیکر رہے ، راجستھان کے گورنر کے منصب پر فائز رہے۔ سپوکس مین کے ایڈیٹر رہے اور ’ دی سکھ کاز‘ اور ’ دی پرابلمز آف سکھز‘ جیسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ متفقہ آئین نہیں تھا اور یہ سکھوں پر زبردستی ٹھونسا گیا تھا ۔

سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب اور بدھ مت دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے ۔ بھارت کے آئین کے کمالات دیکھئے اس نے ان دونوں کو ہندو بنا دیا ۔ سکھوں کی اپنی مستحکم روایات اور اپنے طبقات ہیں ۔ یہی حال بدھ مت کا ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت دنیا کے چوتھے اور پانچویں بڑے مذہب کو الگ مذہب ماننے پر ہی تیارنہیں ۔ دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ جس اسمبلی نے یہ واردات ڈالی اس میں اکثریت کانگریس کی تھی جو یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ کانگریس ہو یا بی جے پی نظریات کا نہیں فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ اقلیتوں کو دنیا بھر میں مسائل کا سامنا رہتا ہے ، لیکن جنون اور جہالت کا جو مظاہرہ بھارت میں ریاستی سطح پر کیا گیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔

اقلیتوں کی شناخت کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ۔ جس بنچ نے اس کیس کی سماعت کی اس کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے تھے۔ بھارتی سیکولرزم کی تشریح میں اور ہندتوا کی زلفوں کی آرائش میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ اس بنچ نے 2005 ء میں اپنے فیصلے میں پوری کر دی ۔ اس فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ ایک عدالت کم اور سنگھ پریوار کا ذیلی ادارہ زیادہ لگ رہی تھی۔

عدالت نے طنز اور تضحیک سے کام لیتے ہوئے سکھوں ، بدھ مت اور جین مذہب کے ماننے والوں کو نام نہاد اقلیت قرار دے دیا ۔ عدالت نے ’’ نام نہاد اقلیت‘‘ کی اصطلاح باقاعدہ اپنے فیصلے میں استعمال کی ۔ نفرت اور تضحیک کی یہ انتہاء گویا اس بات کا اعلان تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی سنگھ پریوار کا حصہ ہی سمجھی جائے۔

عدالت نے حد ہی کر دی ۔ فاضل چیف جسٹس نے ایک مورخ کا کردار ادا کرتے ہوئے لکھا کہ سکھ اور جین مت کے لوگ تاریخی طور پر کسی الگ مذہب کے ماننے والے نہیں بلکہ یہ سب ہندو ہی تھے اور ہندوئوں ہی کے فرقے ہیں اس لیے انہیں ہندو ہی کہا جائے گا۔

عدالت نے مزید کمال کیا۔اس نے لکھا کہ اگر آپ بھارت میں ہندو نام کے کسی آدمی کو ڈھونڈیں گے تو یہ آپ کو نہیں ملے گا ۔ ہاں اس میں مختلف ذاتیں ملیں گی۔ کوئی برہمن ہو گا کوئی کھشتری تو کوئی شودر۔مگر آپ تلاش کرنا چاہیں کہ کوئی ہندو ہے تو یہ نہیں ملے گا ۔ اس نکتہ آفرینی کے بعد عدالت نے ابولکلام آزاد صاحب کی بصیرت کی آرتی اتارنے کے بعد ہندو کی ایک نئی تعریف بھی فرما دی ۔ فرمایا ہندو تو اصل میں بھارت میں رہنے والی مختلف کمیونٹی کے لوگوں کی مجموعی تصویر کا نام ہے۔ چنانچہ آج اگر کشمیر کے تناظر میں دارالعلوم دیوبند اسی مجموعی تصویر کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے اور برادرم انعام رانا اس پر جمعیت علمائے ہندتواکی گرہ لگاتے ہیں تو اس میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔

عدالت کے کمالات یہیں ختم نہیں ہو جاتے ۔ عدالت نے کہا کہ دیکھئے صاحب جین مذہب کے اصل میں ہندو ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ دونوں کی تعلیمات میں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔ بس ایک چھوٹا سا معمولی سا فرق ہی تو ہے کہ ہندوئوں کے ہاں بھگوان وغیرہ کا تصور ہے جب کہ جین والے ایسے کسی تصور کو نہیں مانتے۔

اس کے بعد جناب چیف جسٹس ہندتوا کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور جین مذہب کو ہندو بناتے ہوئے فرمایا کہ جین نے اپنا تزکیہ نفس کیا تھا اور اسی کا درس لارڈ کرشنا بھی دیتے ہیں لہذا جین مذہب اصل میں ہندو ہی ہیں ۔ یعنی فاضل عدالت کے نزدیک جس مذہب میں تزکیہ نفس کی بات کی جائے گی وہ ہندو ہو جائے گا۔

نومولود محققین سے درخواست ہے، اللہ کے بندو کبھی’ مطالعہ ہندوستان‘ بھی کر لیا کرو۔یہاں سکھ بھی ہندو ہوجاتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے