اک درد بھری داستان….. بلاعنوان

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک مسائلستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو چار قدم پیچھے پلٹ جاتے ہیں، ایک اینٹ رکھتے ہیں تو 6 اینٹیں گر جاتی ہیں، اک جگہ پر آگ بجھاتے ہیں، دو جگہ مزید بھڑک اٹھتی ہے، ایک اژدھا کا ٹتے ہیں تو وہ دو اژدھوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یعنی پورا معاشرہ اس شعر کا عکس دکھائی دیتا ہے۔دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگامیں گر پڑوں گا دیکھ سہارا نہ دے مجھےمحاورہ ہے کہ ……….”IF THINGS STAY THE SAME, THEN THERE IS NO PROGRESS.”

لیکن ہمارے اجتماعی کیس میں پروگریس تو گئی بھاڑ میں، ہمارا ریورس ہی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ باقی مسائل تو اپنی جگہ…. معاشرہ جس بری طرح عدم برداشت، جنونیت، پاگل پن، وحشت، درندگی کا شکار ہو رہا ہے، دیکھ کر خوف آتا ہے۔ اگر یہ چیک نہ ہوا اور سنو بالنگ شروع ہوگئی تو پھر کوئی زمینی طاقت اس کے آگے بند نہیں باندھ سکے گی اور سب کچھ تاش کےپتوں کی طرح بکھر جائے گا۔

آنکھیں نہیں اپنی کبھی چہرہ نہیں اپناوہ بھوک ہے اعضا کہیں اعضا کو نہ کھا لیںاعضا یا تو ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں یا ایک دوسرے کو کاٹنا اور کھانا شروع کردیتے ہیں۔

کوئی جب زہر اٹھا کر منہ میں ڈالتا ہے تو سمجھ لو اس کا دماغ ہاتھ کے ذریعہ اس کے پورے وجود کو ملیامیٹ کرنے پر تل گیا ہے۔

آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ بدہضمی اور دوسرا بھوک کے ہاتھوں بکھر رہا ہے۔ جسے یقین نہ آئے اور سمجھے میں مبالغہ کر رہا ہوں وہ گزشتہ چند دنوں کی یہ چند خبریں بلکہ ان کی سرخیاں ہی دیکھ لے۔

’’نانی نے نواسی کو جلتے تنور میں پھینک دیا‘‘۔’’چھوٹے بھائی نے بڑے کو گولی مار دی۔‘‘’’بیٹے نے باپ پر حملہ کردیا۔‘‘’’ویڈیو گیم پر جھگڑا۔ بارہ سالہ بچے نے بارہ سالہ دوست مار دیا۔‘‘’’تین بچوں کی ماں نے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔

’’معمولی جھگڑے پر اغوا کے بعدتشدد کرکے ہمیشہ کے لئے معذور کردیا‘‘۔’’دوستوں میں تو، تو، میں، میں۔ ایک نے دوسرے کو چاپو گھونپ دیا‘‘۔’’چالان ہونے پر ڈرائیور نے اپنے رکشہ کو آگ لگا دی‘‘۔’’سگا چچا زیادتی کے بعد قتل کا مجرم نکلا‘‘۔’’زمیندار نے امرود توڑنے پر بچے کا بازو کاٹ دیا‘‘۔’’اینکر کمسن ملازمہ پر تشدد کرتی رہی‘‘۔

’’استاد نے گھٹنوں میں دبا کر طالب علم مار دیا‘‘۔’’مریض کی موت پر ورثا نے ڈاکٹرز کی پٹائی کردی، لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ بدتمیزی‘‘۔’’مولوی نے زنجیروں میں جکڑے طالب علم کو ڈنڈے مار مار کر بے ہوش کردیا‘‘۔

’’وکیلوں نے ججوں کی دوڑیں لگوا دیں، فائلیں ماریں، گالیاں دیں‘‘۔’’طلبہ نے اساتذہ کو گھیر لیا، گریبان پھاڑ دیئے‘‘۔’’ڈاکٹرز مریضوں کو لاوارث چھوڑ کر ہڑتال پر چلے گئے‘‘۔

’’DHAمیںامیر زادے شرابی نے باپ بیٹی پر گاڑی چڑھادی‘‘۔’’5منٹ تاخیر سے آنے پر ٹیچر کا طالبہ پر بدترین تشدد‘‘۔’’ماں نے نشہ آور دوا پلا کر بچے نہر میں بہا دیئے‘‘۔

یہ ہیں صرف چند جھلکیاں۔ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ سب کچھ تو پہلے بھی ہوتا تھا لیکن آج کل میڈیا اسے ضرورت سے زیادہ اچھال دیتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیںنکلتا کہ ہم پہلے ہی نفسیاتی مریض، ابنارمل اور نیم پاگل سے لوگ تھے؟ نہیں یہ غلط ہے۔

میں پاکستان کے تیسرے یا چوتھے بڑے اور صنعتی شہر لائل پور کی جم پل ہوں جہاں چھوٹی سے چھوٹی واردات، واقعہ یا حادثہ جنگل کی آگ سے زیادہ رفتار کے ساتھ پھیل جاتا تھا کہ شہر کی رہتل، ہیئت اور بُنت ہی کچھ اس قسم کی تھی۔ ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نیم پاگل پن اور عدم برداشت کا عشرعشیر تو کیا، عکس تک بھی موجود نہ تھا جو آج نہ صرف عام ہے بلکہ سرعام بھی ہے۔

سب کچھ جس تیزی سے گلتا، سڑتا، پگھلتا، ادھڑتا جا رہا ہے، اس کے اگلے مرحلہ کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں، تو کیا اس ملک کے بڑوں کا فرض نہیں کہ سر جوڑ کر بیٹھیں، برین سٹارمنگ کریں اور سوچیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ اور اگر اس ’’انسانی‘‘ معاشرہ میں یہ شیطانی حیوانی سلسلہ یونہی نان سٹاپ جاری و ساری رہا تو مستقبل قریب میں منظر کتنا بھیانک اور ڈرائونا ہوگا؟ کوئی ہے جو غورکرے کہ کل تک کے ٹھنڈے میٹھے قناعت پسند سے سماج میں SUBMENاور MANIMALSکی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’افتادگان خاک‘‘ کا یہ کلچر کل کلاں ’’بندگان افلاک‘‘ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے؟۔

نفسیات میرا مضمون نہیں، صرف تیر تکے ہی مار سکتا ہوں کہ آبادی بڑھتی جا رہی ہے، وسائل سمٹتے جا رہے ہیں اور جو وسائل دستیاب ہیں ان کی تقسیم میں بھی بے غیرتانہ ڈنڈی ماری جا رہی ہے۔

شوکت عزیز جیسے احمقوں نے قبل از وقت لیزنگ کلچر متعارف کرا کے اسراف، نمود و نمائش، تصنع، ریٹ ریس (RAT RACE)کو مزید بڑھاوا دیا۔ کاروں اور سیل فونوں کے صرف اقتصادی ہی نہیں سماجی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند عشروں میں ہی یہ رسم پروان چڑھی کہ عیدین پر نئی گاڑی خرید کر اس پہ ’’ایپلایڈ فار‘‘ کی تختی لگا کر غریب رشتہ داروں کو ’’عید مبارک‘‘ کہنے جاتے اور اس کمینی حرکت پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حکم ہے کہ پھلوں کے چھلکے بھی باہر نہ پھینکو کہ ممکن ہے تمہارے پڑوسی کے بچے احساس محرومی کا شکار ہو جائیں۔ میں جانتا ہوں کہ آج کے زمانے میں اس حکم کی علامتی حیثیت کا کیا مطلب ہے۔

مختصراً یہ کہ آبادی پھلتی، وسائل سکڑتے گئے اور ساتھ ساتھ ان کی لوٹ مار، منی لانڈرنگ بھی زور و شور سے جاری رہی، ٹیکنالوجی نے اپنے حصے کے زخم لگائے، میڈیا ایکسپوژر نے اپنی قسم کے ستم ڈھائے اور نتیجہ سامنے ہے۔ سماج سدھار سوچ کا سیاسی مسخروں میں رواج ہی نہیں۔

کم لوگوں کو علم ہوگا کہ اک زمانہ تھا جب امریکہ میں بھی شراب پر پابندی لگی تھی لیکن چند سالوں کے اندر اندر ہی ان کے بڑوں نے جان لیا کہ اس کے فائدے کم اور نقصان بہت زیادہ ہیں سو فیصلہ RE VISITکیا گیا لیکن یہاں تو جذبات فروشی، نعرہ گردی، ڈنگر کھاتہ کا موسم ہی ختم نہیں ہو رہا حالانکہ ’’فحش سائیٹس‘‘ میں بھی ہم ہی نمبر ون ہیں۔

معروضات کا مقصد یہ ہے کہ ماہرین نفسیات کا کوئی بورڈ بٹھائو جو حکمرانوں کو بتائے کہ اس زوال، انحطاط، گراوٹ، غصہ، عدم برداشت، جنسی جرائم (بچوں کو بھی معافی نہیں)، تشدد، ماردھاڑ، قانون شکنی، اخلاق باختگی، ظلم و ستم کی وجوہات کیا ہیں؟ تاکہ ان کا تدارک ہو سکے، کوئی حل نکالا جاسکے۔’’بازار‘‘ بھی بند کردیئے، بادہ نوشی بھی بین تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ’’پورن سائیٹس‘‘ میں بھی نمبر ون نہ ہوں اور بادہ نوش نشے میں دھت ہو کر دن دہاڑے باپ بیٹی پر کار بھی چڑھا دے اور شادی بیاہوں پر پی پلا کر اندھا دھند فائرنگ کا فیشن بھی بہت مقبول ہو۔

علی شریعتی یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا ……”CHANGING RULES FOR THE CHANGING NEEDS AND UNCHANGING RULES FOR THE UNCHANGING NEEDS” ہمارے بہت سے چیمپئنز اور ٹھیکے داروں کو تو شاید یہ جملہ ہی سمجھ نہ آئے۔ سیاسی اور فکری راہنمائوں کو بھی چھوڑو…….. کیا ہمارے مذہبی راہنما کسی اجتہادی، تخلیقی انداز میں نتیجہ خیز راہنمائی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں یا کوئی مقدس موت ہی مقدر ہے کہ ’’زندہ‘‘ تو ریڈانڈینز بھی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے