ستم گر محبوب

میں شاعر تو نہیں مگر میں نے روگ شاعروں والا پال رکھا ہے۔ میرا محبوب ستم گر ہے، وہ مجھ پر ستم ڈھاتا ہے مگر مجھے اس پر پیار آتا ہے۔ وہ مجھے زخم لگاتا ہے مگر مجھے وہ زخم اپنے جسم پر اَنمٹ تمغوں کی طرح عزیز محسوس ہوتے ہیں۔ وہ مجھے برا بھلا کہتا ہے مگر مجھے یہ جھاڑ موسیقی کی آواز کی طرح بھلی لگتی ہے۔ وہ میرے پیشے کا مذاق اڑاتا ہے مگر میں اُسے اس کی صاف دلی کا مظہر قرار دیتا ہوں۔ کئی بار بھرے جلسوں میں اس نے میرے ساتھیوں کو ہدفِ تنقید بنایا، کئی ایک کی تو درگت بھی بنائی گئی، مجھے بھی دوچار دھکے پڑے مگر میں اِسے اُس کی دل لگی قرار دیتا ہوں۔

شاعروں کی طرح میرا بھی یہ خیال ہے کہ وہ محبوب ہی کیا جو ستم گر نہ ہو۔ اگر محبوب ہر وقت مہربان ہی رہے تو محبت میں چیلنج کا جو مزہ ہے، وہ بھی جاتا رہے۔ شاید اسی وجہ سے میں نے محبوب ہی ایسا چن رکھا ہے جو ہرجائی اور بے وفا ہے، مجھے کچوکے دیتا رہتا ہے، درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں مگر میں انہیں انس و الفت کی لہر سمجھتے ہوئے مزہ لیتا ہوں۔ محبوب کے دیئے ہوئے درد کا بھی مزہ ہوتا ہے۔ میں تو امیر مینائی کا قائل ہوں جو کہتے ہیں؎

تیر پر تیر لگائو تمہیں ڈر کس کا ہے

سینہ کس کا ہے، مری جان! جگر کس کا ہے

میرے حاسد مجھے طعنے دیتے ہیں ’’اے عاشق تم نے تو اسے بامِ ثریا تک پہنچایا، پھر تمہارا یہ حشر کیوں؟‘‘ میں مسکراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجنوں ہو یا رانجھا، عاشق کو منزل کہاں ملتی ہے؟ وہ تو صحرا کی خاک چھانتا ہے، محبوب کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ عاشق نامی یہ میڈیا ہر جگہ کیمرے لے کر پہنچ جاتا تھا، اس کی خوبیاں بیان کر کے آسمان اٹھاتا تھا۔ اس کی ایمانداری، اصول پسندی اور درویشی کے قصے سناتا تھا۔ یہ سب میں کرتا رہا۔ میں ’’مسٹر میڈیا‘‘ اپنے اس کارنامے پر فخر کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا، محبوب کی مرضی ہے کہ وہ میرے ساتھ جو چاہے سلوک کرے مجھے قبول و منظور ہے۔

پہلے اس نے مجھے محبت دی، میرے کیمرے کے شیشے کو دیکھ کر وہ مسکراتا تھا، میری تحریر کے لفظوں کو سن کر وہ مجھے فون کرتا تھا، مجھے ملتا تو ہلکی مسکراہٹ سے شناسائی کا اظہار کرتا تھا۔ فرطِ جوش میں آکر کئی بار میرے کردار اور خدمات کی تعریف بھی کرتا تھا۔ پھر کسی رقیب نے میرے سادہ دل محبوب کے کان بھرنا شروع کر دیئے اور یوں پہلی بار ہم میں فاصلہ پیدا ہوا۔ میرا خیال تھا کہ یہ شکر رنجی جلد ہی ختم ہو جائے گی اور میرا محبوب پھر سے مجھ پر مہربان ہو جائے گا مگر کالے دل کا کوئی دشمن ایسا ہے جو مسلسل میرے محبوب کو میرے خلاف کرتا رہتا ہے۔ مجھے علم ہے کہ میرا محبوب دل کا اچھا ہے، بس اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے لوگ دل کے بھی برے اور زبان کے بھی برے ہیں۔

میرے محبوب نے مجھ پر بہت ستم ڈھائے ہیں، کبھی مجھے لفافہ کہا تو کبھی اپنے حواریوں سے سوشل میڈیا پر گالیاں نکلوائیں، کبھی میری ٹرولنگ کروائی اور کبھی سرعام ہی مجھے تمام غلطیوں کا ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ میرا محبوب مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے، اس نے میرے عروج و زوال دیکھے ہیں، یورپ میں میری آزادی کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس کی ناراضی وقتی اور سیاسی ہے، اقتدار میں آئے گا تو بدل جائے گا، اپنے عاشق کے لئے راستے کھول دے گا اور اس کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کرے گا مگر رقیبِ رو سیاہ گہرا گھائو لگا چکا تھا، اس نے اقتدار میں آتے ہی میرے پیشے پر زبانی حملے شروع کر دیئے۔

میں سدا کا خوش فہم ہوں اس لئے یہ سمجھا کہ اچھی سیاست کر رہا ہے تاکہ میڈیا کو باندھ کر رکھے مگر پھر کیا ہوا، میری معیشت کا کباڑہ ہونا شروع ہو گیا، میری تنخواہ کم، میرا دائرہ کار کم اور میری آزادی محدود ہوتی گئی۔ مجھے پھر بھی محبوب اچھا لگتا رہا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ سب کچھ اچھی نیت سے ہو رہا ہےبالآخر اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا۔ میرے سینکڑوں ساتھی اور غمخوار بیروزگار ہوئے، میرے دل کے کئی ٹکڑے خوار ہوئے۔ میرے حاسد اور رقیب اس پر بھی بس نہیں ہوئے، میرے محبوب کو اور بھڑکاتے رہے اور آج یہ دن آ گیا ہے کہ مجھے میری خوبیوں یا غلطیوں پر زنداں پہنچانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ کیا کیا بتائوں، کون کون سے زخم دکھلائوں، بس غالب کی زبان میں کہتا ہوں؎

دردِ دل لکھوں کب تک جائوں ان کو دکھلا دوں

انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

شاعر، ادیب اور صحافی وہ بدقسمت طبقہ ہیں جن کے محبوب ظالم سنگ دل اور بے رحم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ صدیوں سے عشق و محبت میں ناکام و نامراد ہو کر دل کے پھپھولے جلاتا رہا ہے۔ بیچارے صحافی جگر پر لگنے والے داغ سہلاتے رہتے ہیں، یہ مظلوم وہ دل فگار ہیں جو اپنا حال دل کسی کو سنا بھی نہیں سکتے کیونکہ محبوب کے خفا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اپنے محبوب کو راضی رکھنے کے لئے یہ بیچارے اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی دن اسے ضرور احساس ہوگا کہ وہ غلطی پر ہے مگر تاریخ میں آج تک نہ ایسا ہوا ہے نہ ہو گا۔ سنگدل محبوب کو کبھی رحم نہیں آتا اور دوسری طرف عاشق بیچارہ بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتا۔ یوں وقت گزرتا جاتا ہے اور پھر وہ دور لَد جاتا ہے، صرف اس کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور اکثر یہ یادیں تلخ ہی ہوتی ہیں۔

دنیا بھر کے عاشق و محبوب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، عاشق وصال چاہتا ہے، محبوب ہجر دیتا ہے۔سال گزر گیا، ابھی تک مسٹر میڈیا اور محبوب میں ہجر ہی چل رہا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہجر لڑائی میں تبدیل ہو جائے۔دنیا کی تاریخ میں کبھی کبھار عاشق و معشوق میں ٹھن بھی جاتی ہے، جب یہ صورتحال درپیش ہو تو پھر عاشق اور اس کے محبوب دونوں اپنا پورا زور لگاتے ہیں اور گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ اسی کے بارے میں شاعر کہتا ہے؎

اِدھر آ ستم گر، ہنر آزمائیں

تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں

عاشق تو اس مشکل صورتحال سے بھی گزر جاتے ہیں کہ وہ غموں، دکھوں اور تکلیفوں کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں مگر محبوب پر جوابی وار پڑتا ہے تو وہ سہہ نہیں سکتا۔ عاشق تو میڈیا ٹریبونلز کی جیلیں بھی کاٹ لیں گے مگر محبوب کے لئے تو عاشق کے کاٹ دار جملوں کو برداشت کرنا بھی محال ہوگا۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، محبت ہی رہے تو اچھا ہے، جنگ ہوئی تو عاشق و محبوب دونوں کا نقصان ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے