نانی کا تنور اورشراب خانہ خراب

برسوں بیت گئے اپنے کالموں پر مختلف قسم کے ری ایکشنز پڑھتے، سنتے، سہتے، سیکھتے، سوچتے اور انجوائے کرتے لیکن گزشتہ کالم پر ردعمل میں جو سنا اسے بیان کرنا بھی کسی اذیت سے کم نہیں۔ معاشرہ میں بڑھتی عدم برداشت، غصہ، چڑچڑے پن، وحشت وغیرہ کی بات کرتے ہوئے کچھ اور خبروں کے ساتھ میں نے یہ خبر بھی قارئین کے ساتھ شیئر کی کہ کسی نانی اماں نے اپنی سگی نواسی کو تنور میں پھینک دیا۔ یہ خبر میرے لئے سنگین ہی نہیں ناقابل یقین بھی تھی کیونکہ زندگی بھر کا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ بچے کسی بھی خاندان کے ہوں، ننھیال کے ساتھ ان کی محبت اور وابستگی بے پناہ ہوتی ہے کیونکہ ننھیال بھی انہیں دیکھ دیکھ جیتے اور نہال رہتے ہیں…بہرحال کسی واقف حال نے فون کرکے پوچھا’’حسن صاحب !

آپ نے صرف سرخی پر ہی اکتفا کیا یا پوری خبر بھی پڑھی تھی ‘‘ میں نے اعتراف کیا کہ صرف سرخی ہی کافی ہوتی ہے، ایسی خبر کی تفصیل میں جانے کی ہمت نہیں ہوتی ‘‘۔ ’’تفصیل مجھ سے سن لیں کیونکہ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے ۔ہوا کچھ یوں کہ جس نانی کے متعلق آپ نے لکھا، اس کی بڑی بیٹی کا شوہر، اس کا داماد اپنی بیوی یعنی مائی کی بیٹی کو مارتا بہت تھا اور مارتا اس لئے تھا کہ وہ بیچاری اپنے اور اپنی بچی کیلئے کھانے کو مانگتی تھی جبکہ وہ نیم بیروزگار تھا کبھی

دیہاڑی لگ گئی کبھی نہ لگی۔لگ گئی تو دو دن کھا لیا نہ لگی تو بھوکے سو لئے۔ پھر ایک روز مار کھا کر ،تنگ آکر وہ چند سالہ بیٹی کے ساتھ ماں کےگھر آ گئی جہاں پہلے ہی فاقے تھے حالانکہ وہ تنور پر روٹیاں لگانے کی مزدوری کرتی تھی ۔پھر ایک دن یوں ہوا کہ معصوم بچی باپ کو یاد کرکے رونے لگی۔ماں نے چپ کرایا، نانی نے بھی سمجھایا لیکن بچی باپ کو یاد کرکے روتی بلکتی رہی تو نانی کی قوت برداشت جواب دے گئی، اس پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ اس نے نواسی کو اٹھا کر دہکتے تنور میں پھینک دیا۔

حسن صاحب!یہ ہیں اندر کے حالات جو اس سے بھی بدتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘‘ کالر تو فون کال کے بعد فارغ ہو گیا لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کروں؟کاش وعدے روٹیاں اور تقریریں ، کاش طعام بھی جمہوریت کا انتقام ہوتا اور کاش دسترخوان بھی جمہوریت کا حسن ہوتا، کاش سیاسی جماعتوں کے منشور وہ تنور ہوتے جنہیں ان میں بھسم کیا جاسکتا ۔منیر نیازی نے تو تب ہی کہہ دیا تھااس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہئےپھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہئےملتی نہیں امان ہمیں جس زمین پراک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئےاور منیر نیازی کو یہ پٹی علامہ اقبال نے پڑھائی تھی جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دولاکھ لاکھ شکر ہے اس پاک ذات کا کہ پاکستان کے دہقان چٹے تو نہیں البتہ چٹے ان پڑھ ضرور ہیں ورنہ علامہ صاحب کے اس مشورے پر عملدرآمد شروع کر دیتے تو شوگر ملز مافیا کو گنا اور گندم کے مافیاز کو گندم کہاں سے ملتی؟ گندم اس شعر میں صرف ایک علامت ہے، اصل پیغام یہ ہے کہ پیاز اگانے والا پیاز، دھنیا اگانے والا دھنیے، چاول اگانے والا چاول، ٹماٹر اگانے والا ٹماٹر، ٹینڈے اگانے والا ٹینڈے، پالک اگانے والا پالک وغیرہ وغیرہ کے کھیتوں کو آگ لگا دے تاکہ وہ مستقل روزے سے نجات پاکر روزی سے لطف اندوز ہو سکے۔

بات چلی تھی کہ نانی نے نواسی کو تنور میں جلا دیا لیکن میری نااہلی کی وجہ سے پہنچ گئی ہر خوشۂ گندم کو جلانے تک تو علامہ اقبال صاحب کی خواہش اور مطالبہ پر تو یہ کارِخیر ہوانہیں لیکن یہ مردود ملکی معیشت جس رفتار سے جس سمت میں رواں دواں ہے لگتا یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ ہوکے رہے گا کہ جہاں نانیاں نواسیوں کو نرگ رسید کرنے لگیں….وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔گزشتہ کالم کا دوسرا ری ایکشن کچھ عجیب سا تھا اس ری ایکشن میں تھوڑی تھوڑی حیرت اور کچھ کچھ شک شبہ تھا۔حوالہ میں نے اس بات کا دیا تھا کہ کبھی امریکہ میں بھی شراب پر بھرپور پابندی لگی تھی لیکن امریکنوں کے بڑوں اور سیانوں نے جلد ہی جان لیا کہ یہ حماقت کرکے انہوں نے معاشرہ کو جہنم رسید کر دیا ہے کیونکہ الکوحل پر پابندی کے فائدے کم، نقصانات بہت زیادہ ہیں۔میرے کچھ قارئین کو یہ ’’انکشاف‘‘ مشکوک لگا ہے تو جواب بھی حاضریہ ANDREW VOLSTEAD (1860- 19471) نامی ایک احمق کانگریس مین کا پنگا تھا۔

من وعن پیش خدمت ہے۔“NO PERSON SHALL ON OR AFTER THE DATE WHEN THE 18TH AMENDMENT TO THE CONSTITUTION OF THE UNITED STATES GOES INTO EFFECT, MANUFACTURE, SELL, BARTER, TRANSPORT, IMPORT, EXPORT, DELIVER, FURNISH OR POSSESS ANY INTOXICATING LIQUOR EXCEPT AS AUTHORIZED IN THIS ACT, AND ALL THE PROVISIONS OF THIS ACT SHALL BE LIBERALLY CONSTRUED TO THE END THAT THE USE OF INTOXICATING LIQUOR AS A BEVERAGE MAY BE PREVENTED.’’(VOLSTEAD ACT, TITLE II, SEC.3)17جنوری 1920پر جوش سینیٹر ANDREW VOLSTEADنے ریڈیو پر اعلان بھی داغ دیا کہ 18ویں ترمیم (وہاں بھی 18ویں) کے تحت شراب کی تیاری، ذخیرہ اندوزی، فروخت وغیرہ پر مکمل پابندی ہوگی۔

ادھر پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد امریکن بطور قوم ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو رہے تھے اور مختلف شعبوں میں نت نئے تجربوں سے لطف اندوز ہو رہےتھے۔VOLSTEAD ایکٹ نے کہرام سا مچا دیا۔شراب کی تیاری اور فروخت پر 1000ڈالر جرمانہ ( جو اس زمانہ میں بہت بڑی رقم تھی) اور 5سال قید کے ساتھ اس جگہ کا CLOSUREبھی شامل تھا جہاں یہ جرم سرزد ہو۔البتہ طبی ضرورتوں کیلئے الکوحل کی اجازت تھی لیکن اسے انتہائی سختی سے مانیٹر کیا جاتا تاکہ اس چھوٹ کی آڑ میں شراب نوشی نہ ہو سکے ۔اس ترمیم کے نفاذ کیلئے BUREAU OF PROHIBITION لیکن صرف 6مہینے کے اندر اندر شراب خانہ خراب کیلئے ایک طرف کئی LOOPHOLEمتعارف ہو گئے تو دوسری طرف مافیاز کی چاندی ہو گئی اور کام عروج پر پہنچ گیا۔

تقریباً 15000ڈاکٹرز اور 60ہزار فارمیسی مالکان نے علاج کی آڑ میں ’’اجازت ناموں‘‘ کیلئے اپلائی کر دیا ۔مافیاز نے پروڈکشن،مارکیٹنگ اور ڈسٹری بیوشن سنبھال لی۔ 1925ءتک ایک لاکھ غیر قانونی بارز مافیا کی سرپرستی میں کام کر رہی تھیں۔کرپشن انتہائوں کو چھونے لگی یہاں تک کہ اٹارنی جنرل تک رشوت کے الزام کی لپیٹ میں آ گئے۔الکوحل پر نقاب چڑھانے کیلئے کاک ٹیل مقبول ہوئی۔ صرف شکاگو میں 500گینگ وارز ہوئیں۔دلچسپ بات یہ کہ جرائم کے بادشاہ AL CAPONEکو بھی الکپون انہی حالات نے بنایا ۔لمبی کہانی ہے قصہ مختصر کہ آخر کار یہ سب کچھ ریورس کرنا پڑا۔

ہمارے ہاں بھی یہ خانہ خراب خرابی سے تو ہر گز باز نہ آئی ۔دیہاتوں میں پہلے ’’بھانڈا ‘‘ڈالتے تھے جو بڑھ گیا، سمگلنگ علیحدہ عروج پر۔کریلا نیم یوں چڑھا کہ ہیروئن اور آئس قسم کے عذاب نازل ہوگئے لیکن آج موضوع صرف اتنا ہے کہ یہ تجربہ امریکہ میں بھی ہو چکا لیکن سیانوں نے RE VISITکر لیا تھا جس کی جھلکیاں پیش کر دیں تاکہ جنہیں شک تھا، ان کا شک دور ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے