کن چیزوں کو ہم آج رو رہے ہیں

بھارتی آئین میں کشمیر کی جس سپیشل حیثیت کو ہم کچھ سمجھتے ہی نہ تھے آج کے ہنگام میں ہم نے اُسے گلے لگا لیا ہے۔ جس حیثیت کو ہم مذاق سے بھی بد تر سمجھتے تھے آج اُس کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے جب تک وہ حیثیت بحال نہ ہو۔

ستر سال تک یہ راستہ کھلا تھا کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کا کچھ سمجھوتہ ہم کر لیتے۔ ہندوستان یہی تکرار کرتا رہا لیکن ہمارا اصرار تھا کہ کشمیر بن کے رہے گا پاکستان۔ جنگیں لڑی گئیں جن کا مقصد تھا‘ مقبوضہ کشمیر کی آزادی۔ نتیجہ اُن جنگوں کا یہ نکلا کہ مقبوضہ کشمیر کی مقبوضہ حیثیت مزید پکی ہو گئی۔ 65ء اور 71ء کی جنگوں کے بعد ہمیں تسلیم کرنا پڑا کہ ہمارے اور ہندوستان کے درمیان مسائل کا جنگ کوئی حل نہیں اور پُر امن طریقے سے ہی معاملات کا حل ہو سکے گا۔ انتہاء کی بے وقوفی تو معرکہ کارگل تھا‘ جس سے کشمیر نے کیا آزاد ہونا تھا ہم پہ لیبل کراس بارڈر دہشت گردی کا لگ گیا۔ آخر میں صدر کلنٹن کی منت کرنی پڑی کہ بیچ میں آ کے ہمارا کوئی معاملہ کرا دیں۔ ایسا نہ کرتے تو عزتِ سادات بھی جاتی۔

آج کشمیر میں زمینی حقائق ہندوستان نے تبدیل کر دئیے ہیں اور ہم دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی یہاں جا رہے ہیں کبھی وہاں۔ امیدیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے اداروں سے باندھی ہوئی ہیں جن سے آج تک کسی کو کوئی فیض نہیں پہنچا۔

حیرانی کی انتہا کرتے ہوئے ہم آج ہندوستانی سیکولرازم کی موت کا بھی رونا رو رہے ہیں۔ جس چیز پہ ہم تبرّے کستے تھکتے نہیں تھے وہی آج ہمیں اچھی لگ رہی ہے۔ جس فلسفۂ سیاست کا آسانی سے ذکر پاکستان میں نہیں کیا جا سکتا‘ اُس کی بھارت میں وفات یا علالت کا ہمیں دُکھ کھائے جا رہا ہے۔ نریندر مودی اور اُن کی جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی کی انتہا پسندی کو ہم کوس رہے ہیں تھوڑا سا یہ بھولتے ہوئے کہ ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی نقصان اور نفرت کا سودا ٹھہرتی ہے۔

سوالات بہت سے ہیں۔ غور کا سامان تو یہ نکتہ پیدا کرتا ہے کہ تقسیمِ ہند کا منطقی انجام موجودہ ہندوستانی انتہا پسندی ہی ہے۔ جلد یا بدیر پنڈت جواہر لعل نہرو کے سیکولرازم کی جگہ اس انتہا پسندی نے لینی تھی۔ جب تقسیم ہند مذہب کی بنیاد پہ ہوئی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہندوستان میں یہ سوچ فروغ نہ پاتی کہ ہندوستان کو بھی ہندو اکثریت کی مملکت ہونا چاہیے؟ نہرو وغیرہ کی سوچ اور تھی۔ وہ سیکولرازم پہ یقین رکھتے تھے۔ مملکت کے اُمور میں وہ مذہب کی کوئی جگہ نہ دیکھتے تھے۔ اسی لیے ہندوستانی آئین مکمل سیکولر ہے۔ اُس میں مذہب کا کوئی ذکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی پہلی جنگ کے بعد مقبوضہ کشمیر کو ہندوستانی آئین میں ایک خاص مقام دیا گیا۔ لیکن یہ سیکولر سوچ کتنی دیر رائج رہ سکتی تھی؟

جوں جوں سیاسی میدان میں کانگریس پارٹی کو ناکامیوں کا سامنا ہوا ہندووانہ سوچ‘ جس کی علم بردار آر ایس ایس (RSS) رہی ہے‘ زور پکڑتی گئی۔ بی جے پی کی وہی سوچ ہے‘ جو آر ایس ایس کی ہے۔ آر ایس ایس سمجھتا ہے کہ ہندوستان ایک ہندووانہ مملکت ہے اور اُس میں مسلمانوں نے رہنا بھی ہے تو ثانوی حیثیت کے شہریوں کی طرح۔ بیشک ہم جتنا کہتے رہیں کہ نریندر مودی کی سوچ ہٹلر والی سوچ ہے اور آر ایس ایس ہندوستان کی نازی پارٹی ہے‘ لیکن اِس رونے دھونے سے کیا ہندوستان کی حقیقتیں بدل جائیں گی؟ ہندوستان کے لبرل سوچ رکھنے والے عناصر نریندر مودی اور بی جے پی کی سوچ کے خلاف ہیں۔ آج ہمیں ہندوستان کے ایسے لبرل عناصر اچھے لگتے ہیں، اس کے باوجود کہ لبرل لفظ پاکستان کے وسیع حلقوں میں اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔

یعنی آج ہم ہندوستان کی اُن چیزوں میں تحسین کا پہلو تلاش کر رہے ہیں جو پہلے ہماری تنقید کا نشانہ بنتی تھیں۔ انڈین سیکولرازم، انڈین لبرل ازم، بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خاص حیثیت اور جواہر لعل نہرو کے افکار… کون سوچ سکتا تھا کہ ہمیں ان چیزوں میں خیر کا پہلو نظر آئے گا؟ شاید اِیسی کیفیت کو ہی حالات اور وقت کا جبر کہتے ہیں۔ حقیقتوں کا اُلٹ جانا، پرانے خیالات کا برباد ہوتا نظر آنا۔

سوچنے کا مقام ہے انڈس بیسن دریاؤں کے معاہدے پہ ہم نے دستخط کیوں کیے۔ اگر ہمیں کشمیر کی آزادی کا اتنا ہی یقین تھا تو ہم یہ معاہدہ نہ کرتے۔ انتظار کرتے اُس وقت کا جب کشمیر آزاد ہوتا یا ہمارے ساتھ مل جاتا۔ پھر کیا ضرورت پڑتی دریاؤں کی تقسیم کی۔ لیکن یہ معاہدہ زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے کیا گیا کیونکہ جغرافیے نے بدلنا نہیں تھا‘ اس لیے عافیت اسی میں سمجھی گئی کہ دریاؤں کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔ دریاؤں کو بنیاد بنا کے یہ سوچ پورے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کیوں نہ کی گئی؟ عالمی ضمیر کا سوئے رہنا یا جاگنا تو ایک طرف رہا، جب جنگیں بھی بے سود ثابت ہوئیں تو عقل مندی کا تقاضا تھا کہ کشمیر کے کسی مستقل حل کے بارے میں سوچا جاتا۔

لیکن ایسا نہ ہوا اور ہم اپنے جذبات کے اسیر رہے۔ یہ تو اب گزرے وقت کی باتیں ہیں۔ اِن کے اب دہرانے سے کیا فائدہ۔ لیکن فطرتی امر ہے کہ ضائع کیے گئے موقعوں کا کچھ ماتم کیا جائے۔ ہماری تاریخ میں مختلف مراحل پہ بہتر فیصلے کیے جا سکتے تھے۔ لیکن ہماری قیادتوں کی سوچ محدود تھی۔

آج کل صبح کے اُس وقت جب آنکھیں آدھی بند ہوتی ہیں اور آدھی بیدار تو اکثر خیال مولانا ابوالکلام آزاد کی کچھ باتوں کی طرف جاتا ہے۔ میں تو کہوں گا کہ ہر سو چ رکھنے والے شخص کو اُن کا وہ خطبہ سُننا چاہیے جو انہوں نے 1947ء کے پر ہنگام واقعات کے دوران جامع مسجد دہلی میں دیا کیا تھا۔ یہ تقریر ٹوٹے پھوٹے انداز میں یو ٹیوب پہ موجود ہے۔ اپنے سامعین سے مخاطب ہو کے مولانا آزاد نے چیخ چیخ کے کہا تھا کہ کہاں جا رہے ہو، اپنی ہزار سالہ سلطنت کی نشانیوں کو کیوں چھوڑ کے جا رہے ہو؟ تب پورے ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ تھی‘ جن میں مسلمان دس کروڑ تھے، یعنی چار میں سے ایک۔

مولانا نے کہا: اتنی بڑی تعداد کب اقلیت ہو سکتی ہے۔ اپنے آپ پہ کچھ بھروسہ کرو نہیں تو تمہاری مجموعی طاقت تقسیم ہو جائے گی۔ لیکن تب تاریخ کا ایک اپنا دھارا تھا اور مولانا آزاد اُس سے ہم آہنگ نہ تھے۔ اُن کی باتیں بے معنی اور بے وقعت لگتی تھیں۔ تاریخ کا طالب علم البتہ اُن باتوں پہ غور تو کر سکتا ہے۔ اس وقت نہیں لیکن ایک بعد کے انٹرویو میں مولانا نے یہ بھی کہا کہ زیادہ دیر بنگالی پاکستان کا حصہ نہیں رہیں گے۔ ہم جیسے لوگ حال کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چند قدرت کے نوازے لو گ مستقبل کو پڑھ سکتے ہیں۔ مولانا شاید ایسے لوگوں میں تھے۔

بہرحال جو ہونا تھا ہو گیا۔ لیکن جو وقت کے تقاضے ہیں‘ وہ تو ہم پورے کریں۔ ہندوستان اگر آج سیکولر سوچ چھوڑ کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہا ہے تو ہمارے لیے یہ پیغام نہیں کہ ہم دوسری طرف چلیں اور ایک بہتر معاشرہ بنانے کی کوشش کریں؟ یعنی ہندووانہ انتہا پسندی کا ہمارے لیے کچھ پیغام ہونا چاہیے کہ رجعت کی سوچوں کو ہم پیچھے چھوڑیں اور آگے کی طرف دیکھیں۔ کیا ہم یہ کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایسے ہمارے لیڈر ہیں جو اِس قسم کی سوچ رکھتے ہوں؟ دنیا کو چھوڑیں، ہمارے علاقے اور پڑوس میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ افغانستان کی صورتحال، ایرانیوں اور سعودیوں کا جھگڑا، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پہ حالیہ حملہ اور امریکہ کی گومگو کی کیفیت ۔ یہ سب نئے حالات کی علامتیں ہیں۔

نریندر مودی ہمیں ایک موقع فراہم کر رہے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو نئے سرے سے ایجاد کریں۔ یہ ایک تاریخی چیلنج ہے۔ ہم اس پہ پورا اتر سکتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے