’’میرا ہے پر میرا نہیں ہے ‘‘

کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ سیاست کی غلاظت و نجاست سے جتنا بچا جا سکے، بچ کے رہوں لیکن کوئلے کے کاروبار میں دامن کو داغدار ہونے سے بچانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس لئے آج طوعاً کرہاً پھر اس موضوع پر لکھ رہا ہوں جس پر لکھنے کے بعد قلم سے معافی مانگ کر اسے غسل دینا پڑتا ہے۔

اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خورشید شاہ صاحب بھی گرفتار ہوگئے اور گرفتار ہوتے ہی جمہوریت کے حسن کی نمائش کرتے ہوئے فوری طور پر بیمار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔ہر ’’جمہوریئے‘‘ کی یہی پریکٹس ہے کہ پکڑے جانے پر کوئی دل پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے اور کسی کی نازک کمر یامیں بل پڑ جاتے ہیں۔کھلے پھرتے ہوںتو ان کی پھرتیاں قابل دید ہوتی ہیں اور اگر یہ ’’اقامے‘‘ اور ’’پانامے‘‘ اقتدار میں ہوں تو ان کی دولت کے انبار مادہ خرگوش کی طرح دھڑا دھڑ بچے جننے لگتے ہیں۔

خورشید شاہ صاحب کے بارے میں ’’میٹرریڈر سے اپوزیشن لیڈر تک‘‘ کے عنوان سے بی بی سی جیسے ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ ان کے پاس 5کھرب روپیہ (؟) موجود ہے تو سچی بات مجھے تو شاہ صاحب دیانت کا کوہ گراں دکھائی دے رہے ہیں کہ اگر لیاقت قائم خانی جیسے معمولی سے گورنمنٹ فنکشنری کے ایک ’’اڈے‘‘ سے اربوں روپے برآمد ہوئے تو شاہ صاحب کے 5کھرب کس کھاتے میں اور اگر جمہوریت کے اس حسن وجمال کا 5کھرب کسی کھاتے میں نہیں تو خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ان اور ان جیسوں کے آقائوں کا کیا حال ہوگا؟یہ ملک یونہی کنگال نہیں ہوااس ملک کی معیشت یونہی بیوہ نہیں ہوئی چاندی جیسا رنگ’’ تمہارا‘‘ سونے جیسے بالایک تمہی دھنوان لیڈرو!باقی سب کنگال گزشتہ سے پیوستہ الیکشن سے پہلے میرا فیورٹ جملہ بلکہ تکیہ کلام ہوتا تھا کہ ’’اگر ان سیاست دانوں کا بس چلے تو یہ پاکستان کو ’’پاکستان ہائوزنگ سوسائٹی ‘‘ ڈیکلیئر کرکے اس کے پلاٹ بنا کر بیچ دیں‘‘(ہائوسنگ غلط العام ہے)۔

اب کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ ’’برادری‘‘ پاکستان کے ساتھ سچ مچ یہی ہاتھ کر گئی ہے اور کچھ اس طرح کہ ان ظالموں نے ملک کی پلاٹنگ کئے بغیر ہی کام کردیا۔ملک موجود ہے لیکن جانے کیسے کیسے کہاں کہاں گروی پڑا ہے یعنی ….’’بہت کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘۔ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ اب اسے چلایا جانا ہے تو غیروں کی TERMS پر جو خود مختاری پر کومپرومائیز کی ایک شکل ہے۔

’’گھر‘‘ میرا ہے لیکن چلائے گا کوئی اور، اس ’’گھر‘‘ کے قواعدوضوابط بھی کوئی اور طے کرے گا۔اہل مغرب کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہʼʼMY NOT MINEʼʼسوسائٹی ہے جس کا مطلب یہ کہTHIS IS MY HOUSE BUT THIS IS NOT MINEʼTHIS IS MY CAR BUT IT IS NOT MINEʼیعنی گھر میرا ہے لیکن میرا نہیں ہے ۔کار میری ہے لیکن میری نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ میں نے اس گھر اور کار کی ابھی بہت سی قسطیں ادا کرنی ہیں۔ʼʼPAKISTAN IS MY COUNTRY BUT THIS IS NOT MINEʼʼوجہ ؟کیونکہ میں نے قرضوں کی قسطیں چکانی ہیں اور جب تک چکا نہیں لیتا، یہ کسی اور کی ڈکٹیشن پر چلے گا۔

یہاں آٹے دال سے لیکر دوا دارو تک کی قیمتوں کا تعین کوئی اور کرے گا۔میری حکومت نہیں کوئی ’’کلرک‘‘ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ فی یونٹ بجلی مجھے کتنے میں پڑے گی۔یہی وجہ ہے کہ میں اس جعلی جمہوریت سے نفرت کرتا ہوں جو جمہوریت ہے ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں ان سیاست دانوں سے متنفر ہوں جو دراصل سیاست دان ہیں ہی نہیں، سیاست دانوں کا صرف روپ دھار رکھا ہے جیسے فردوس فردوس تھی ’’ہیر‘‘ نہیں ۔اعجاز اعجاز تھا ’’رانجھا‘‘ نہیں لیکن ہمارے یہ دونوں اداکار ان سیاست دانوں سے ہزار گنا بہتر تھے کہ ہر دو نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا جبکہ ان لوگوں نے ملکی خزانہ صاف کیا۔

میں پارلیمینٹ کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ ’’پارلیامنٹ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آتی جیسے بہت سی بنیادی باتیں کالمی کلرکوں کو سمجھ نہیں آتیں۔خواجہ آصف نے خورشید شاہ کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی ’’برادری‘‘ کا حوالہ دیا تو خوشی ہوئی کہ سچ خواجہ سیالکوٹیا کے منہ سے سلپ ہوگیا۔واقعی یہ وہ ’’برادری‘‘ ہے جو کسی بربادی اور بوسٔہ مرگ سے کم نہیں ۔ ان کی ساخت، بُنت اور ہیئت سبھی کچھ نرالا ہے ۔اک عجیب سی ڈھٹائی ان کے درمیان پہلی قدر مشترک ہے ورنہ بی بی شہلا رضا یہ کبھی نہ کہتیں ’’کہ کیا صرف خورشید شاہ کے اثاثے ہی ان کی آمدنی سے زیادہ ہیں؟‘‘ناں ناں بی بی ناں…..

اس ’’برادری‘‘ کی بھاری اکثریت، ان کے چمچوں، کڑچھوں، درباریوں بلکہ ان کی اولادوں تک کے اثاثے بھی ان کی آمدنیوں سے زیادہ ہیں۔ کوئی ٹھیکے لیتا ہے کوئی پوسٹنگ ٹرانسفر یا ڈیپوٹیشن کے ذریعہ ڈاکہ ڈالتا ہے۔اور تو اور سعید غنی جیسے سبھائو والے نے بھی کتنی بے رحمی سے پاگل کتے کے کاٹنے پر ایڑیاں رگڑ رگڑ مرنے والے لڑکے کی لاش اس کے غریب والدین کے کندھوں پر ڈال دی کہ وہ خود اپنے بچے کی موت کے ذمہ دار ہیں کیونکہ بروقت اسے اسپتال نہ لے جا سکے۔ واقعی قصور وار وہی والدین ہیں جو اس نظام میں اولادیں پیدا کرنے کا رسک لیتے ہیں، جواکھیلتے ہیں اور اکثر ہار جاتے ہیں۔

قتلِ طفلاں کی منادی ہو رہی ہے شہر میںماں!مجھے بھی مثل موسیٰ تو بہا دے نہر میںسعید غنی کبھی اس طرح بھی سوچ کے دیکھے کہ اگر اپنے بیٹے کے ’’قاتل‘‘ ماں باپ کو تھوڑی سی تعلیم، تھوڑا سا تمول آپ نے اپنے ’’قائدین‘‘ اور لیاقت قائم خانی جیسے ’’منتظمین‘‘ کا صدقہ سمجھ کر ہی عطا کر دیا ہوتا تو کیا اس سانحہ سے بچا نہیں جا سکتا تھا ؟بھائی ! یہاں تو لوگ سانپ ڈسنے پر بھی تعویذ گنڈے سے ہی کام چلاتے ہیں کیونکہ غربت اور جہالت کی اتنی ہی فراوانی ہے جتنی خواجہ آصف کی ’’برادری میں ‘‘ دولت کی۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیاعمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیایہ ’’بھیانک برادری‘‘ عوام کی عمریں کیا نسلیں نگل جانے کے بعد بھی ’’وکٹری‘‘ کے نشان بناتی اور ڈھٹائی سے پوچھتی ہے’’ میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف؟بائولے کتے بےوجہ بدنام حالانکہ کاٹتا تو یہ نظام ہے جو میرا ہے پر میرا نہیں ہے ۔جیسےʼʼTHIS IS MY COUNTRY BUT THIS NOT MINEʼʼورنہ افتخار عارف یہ کبھی نہ کہتامرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دےمیں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے