وارث کی تلاش میں

پچھلے ہفتے دو ایسی چیزیں ہوئی ہیں جن کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ منگل کے روز کابینہ کا اجلاس ہوا جس کی دستاویزی تفصیلات میرے سامنے پڑی ہیں۔ اجلاس شروع ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں شدید تشویش ہے کہ ان کے وزیروں کے خلاف جھوٹی خبریں چھاپی جارہی ہیں ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا: الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف مواد چھپ رہا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا: پیمرا بیکار ادارہ بن چکا ہے ‘ روزانہ وزیروں کے خلاف خبریں چھپ رہی‘ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ مشیروں‘ وزیروں کے خلاف خبر چھاپ دیتا ہے ۔ وزیراعظم جب کابینہ اجلاس میں صحافیوں اور صحافت پر ناراضی کا اظہار فرما رہے تھے تو لوہے کو گرم دیکھ کر وہاں بیٹھے وزیروں نے‘ جن میں سے اکثر کے سکینڈلز سامنے آچکے ہیں‘ بولے:

وقت آگیا ہے کہ میڈیا ٹریبونل بنائے جائیں ‘جو کسی بھی وزیر یا اہم عہدے پر فائز لوگوں کی شکایت پر فوری کارروائی کریں اور اینکرز کو سزائیں اور جرمانے ہوں۔ ایک اور وزیر نے فرمایا کہ وہ جب وزیراطلاعات تھے تو انہوں نے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا ڈرافٹ تیار کیا تھا‘ جس نے سوشل میڈیا سے ٹی وی اخبارات اور چینلز تک سب کو ریگولیٹ کرکے سزائیں دینی تھیں۔ ڈرافٹ تیار ہے ‘اگر کہیں تو پیش کر کے منظوری لے لی جائے۔ ایک اور وزیر نے فرمایا: جب یہ فیصلہ کیاجارہا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے سزائیں دی جائیں تو پھر سوشل میڈیا کے لے بھی سخت سزائیں تجویز کر کے نئے قوانین لائے جائیں ‘کیونکہ وہاں بھی‘ بقول ان کے بہت سی جھوٹی خبریں چلتی ہیں اورویڈیوز بھی اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

بحث کا رخ پھر پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف مڑ گیا۔ وزیراعظم کو یہ خیال پسند آیا‘ سب اختیارات ایک ہی اتھارٹی کو دے کر ٹی وی چینلز‘ سوشل میڈیا‘ اخبارات سب کو میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے سزائیں دی جائیں ۔اس پر فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر پیمرا آرڈیننس 2002ء میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور نئے میڈیا ٹربیونلز بنائے جائیں گے جو وزیروں کی طرف سے فائل کی گئی شکایتوں پر فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ٹی وی چینلزاور سوشل میڈیا کو‘ صحافیوں اور اینکرز کو سزائیں سنا سکیں گے۔ وزیرقانون فروغ نسیم کو کہا گیا کہ وہ نئے قانون پر کام کریں اور کابینہ اجلاس میں ترامیم پیش کریں جن کی منظوری دے کر انہیں آرڈ یننس یا ایکٹ کے ذریعے پورے ملک پر نافذ کر دیا جائے اور میڈیا ٹریبونلز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

اور سنیں ‘ جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جی آئی ڈی سی کیس کی سماعت کرنی تھی۔ ہم صحافی بھی وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ حکومت کو وہ آرڈیننس واپس لینا پڑا تھا جس میں تین سو ارب روپے کا ٹیکس کاروباری سیٹھوں کو معاف کیا جا رہا تھا ۔ حکومت پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ اپنے کچھ قریبی دوستوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ کراچی کی ایک پاور کمپنی ‘ جس نے اسی ارب روپے کے قریب ٹیکس دبایا ہوا تھا‘ اسے فائدہ دینا بھی مقصود تھا‘ کیونکہ وہ پارٹی تگڑا چندہ دیتی تھی ۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ میڈیا بلیک میلنگ پر اتر آیا ہے اور اب انہیں اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کررہا ہے۔

وزیراعظم نے آرڈیننس واپس لینے کا اعلان تو کر دیا ‘ لیکن ساتھ میں یہ وارننگ جاری کر دی کہ حکومت 450 ارب روپے کا مقدمہ ہار بھی سکتی ہے۔ یہ پڑھ کر ہم سب حیران رہ گئے کہ وزیراعظم کو ان کی لیگل ٹیم اور انرجی مشیروں نے پوری طرح بریف نہیں کیاورنہ یہ کیس وہ کیسے ہار سکتے ہیں؟ اگر ہارنا ہوتا تو یہ مقدمہ تو برسوں سے عدالت میں پڑا تھا‘ کب کے ہار چکے ہوتے۔ اگر ان کمپنیوں کو یقین ہوتا کہ ان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے اور وہ جیت سکتی ہیں تو پھر کاروباری لوگ کیسے حکومت کو سوا دو سو ارب روپے دینے پر تیار ہوجاتے؟

اگر وہ کاروباری کمپنیاں حکومت کو سوا دو سو ارب روپے کا ٹیکس دینے کو تیار ہوگئی تھیں تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ انہیں یہ خطرہ تھا کہ وہ عدالت میں یہ مقدمہ ہار سکتی ہیں‘ لہٰذا انہیں ساڑھے چار سو ارب روپے مع سود واپس کرنا پڑنے تھے۔

عدالت میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سپریم کورٹ کی راہداری میں سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بات پھیل چکی تھی کہ آج اس اہم کیس کی سماعت نہیں ہوگی۔ حیرانی سے اپنے رپورٹر صبیح الحسنین سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک پارٹی کے وکیل خالد انور کے سٹاف نے پہلے ہی عدالت میں درخواست دے دی ہے کہ وہ سماعت نہ کریں‘ تاریخ دے دیں‘ کیونکہ وکیل صاحب کو اچانک بلڈ پریشر ہوگیا ہے ‘لہٰذا وہ پیش نہیں ہوسکتے۔ یوں پانچ منٹ کی کارروائی کے بعد سماعت بائیس اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

عدالت سے باہر نکلے تو اٹارنی جنرل انور منصور سے ملاقات ہوگئی ۔ میں نے ان سے پوچھ لیا‘ سرجی یہ تو بتائیں کہ حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا‘ وہ پاکستان کے عوام سے اکٹھے کیے گئے ساڑھے چار سو ارب روپے میں سے پچاس فیصد اور سود معاف کررہی تھی‘ کیا وزیراعظم عمران خان یا صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے یہ آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے اپنے اٹارنی جنرل سے مشورہ کیا تھا ؟ انورمنصور نے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے: نہیں مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔ ایک لمحے کے لیے میں سُن ہوکر رہ گیا کہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت ‘جو بار بار کہہ رہی ہوکہ عدالتوں نے سٹے دے رکھے تھے‘ لہٰذا وہ ڈیل کرتے ہوئے ساڑھے چار سو ارب روپے کا پچاس فیصد معاف کررہی ہے‘ نے اتنا تکلف تک نہیں کیا کہ وہ اپنے اٹارنی جنرل سے ہی پوچھ لیتی کہ بتائیں اس کیس میں کتنی جان ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ابھی ہم بم شیل سے سنبھل ہی رہے تھے کہ محمد مالک نے اٹارنی جنرل سے پوچھا لیا :سر یہ بتائیں حکومت کے مقدمہ جیتنے کے کتنے چانسز ہیں؟ انور منصور بولے: دس میں سے چھ سے لے کر سات تک امکانات ہیں۔مطلب ساٹھ فیصد سے ستر فیصد تک امکان تھا کہ حکومت کو ساڑھے چار سو ارب روپے واپس مل جائیں ۔اس پر میں نے انور منصور سے پوچھا: سرجی یہ تو بتائیں‘ یہ ساڑھے چار سو ارب روپے ٹیکس کی رقم کا فگر کہاں سے آیا ہے؟ ان کا کہنا تھا :یہ وہ بلنگ ہے جو کمپنیوں نے خود دکھائی ہے کہ ہم نے لوگوں کو ساڑھے چار سو ارب روپے کی بلنگ کی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ کمپنیاں ٹیکس اکٹھا کرچکی تھیں۔

انہوں نے مرضی سے وہ فگر خود ہی دیا اور اب ٹیکس دینے کی بجائے حکومت انہیں پچاس فیصد معاف کرنے پر تل گئی تھی۔ہم سر پکڑے وہیں کھڑے رہ گئے کہ یہ کیا کیا انکشافات ہورہے ہیں۔ ابھی ہم اس حیرانی سے نکل ہی رہے تھے کہ پتا چلا حکومت پاکستان کو تقریباً پچاس لاکھ ڈالرز رشوت کے وہ ثبوت ملے ہیں جو پیپلز پارٹی دور میں ترکی کے کرائے کے جہاز کے مالکان نے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو دی تھی ۔ ان چھ لوگوں کی منی ٹریل بھی مل گئی تھی کہ کس کمپنی نے کس کو پیسے دیے اور وہ کہاں سے کس کے اکاؤنٹ میں گئے ۔ مطلب یہ کہ پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے غیرملکی کمپنیوں کو پاکستانی لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کی جو اجازت دی تھی‘ اس کے لیے لاکھوں ڈالرز کا کمیشن کھایا گیا تھا۔

خاصی دیر سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ پچھلی حکومت نے ایک رینٹل پاور میں پچاس لاکھ ڈالرز رشوت لی تو اب موجودہ حکومت کے وزیروں کے سکینڈ ل آنا شروع ہوگئے ہیں‘ یہی وزیر اب کہتے ہیں کہ فوری طور پر میڈیا کے لیے سمری ٹرائل ٹائپ ٹریبونل بنا کر سکینڈل بریک کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں۔ یہ ملک پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں‘ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں لیکن جوابدہی کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال میڈیا تیار رہے‘ جنرل مشرف دور کی واپسی ہورہی ہے‘ جب حکومت کے خلاف خبریں نہیں چھپ سکتی تھیں ۔ اگر چھاپتے تھے تو یا چینل بند ہوتے یا صحافی نوکریوں سے فارغ ہو جاتے تھے۔

سوچا تھا نئے لوگ آئیں گے‘ کچھ نئی شروعات ہوں گی‘ کچھ نیا ہوگا ‘ مگر منگل کے روز کابینہ اجلاس کی دستاویزی کارروائی پڑھنے کے بعد دل بجھ سا گیا ہے۔ یہ سب بادشاہ ہیں ‘یہ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں عوام کے لیے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے وزیر غلط کر ہی نہیں کرسکتے۔ عوام ہی غلطیاں کرتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں بھی عوام ہی کے لیے ہیں ۔ پتا چلا وہیں جا پہنچے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ کیا واقعی اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے