قائدِ اعظم: جب آفتاب ڈھل رہا تھا…(4)

قائد اعظم کی قوتِ ارادی ہی بیماری کے خلاف ان کی ڈھال تھی لیکن اب اچانک یوں لگ رہا تھا کہ قائدِ اعظم کی زندگی میں دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ یہ اگست کا آخر آخر تھا۔ فاطمہ جناح ان کے پاس بیٹھی تھیں۔ اچانک قائد نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ”اب مجھے زندہ رہنے میں دلچسپی نہیں‘ اب میں جتنا جلدی چلا جائوں اتنا ہی بہتر ہے‘‘۔ فاطمہ جناح کو یوں لگا جیسے انہوں نے بجلی کا ننگا تار چھو لیا ہو۔ انہوں نے قائد سے کہا: آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ قائد کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ابھری جس میں موت کی پرچھائیں تھی۔وہ بولے‘ ”نہیں اب میں زندہ رہنا نہیں چاہتا‘‘۔ لیکن فاطمہ جناح آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھیں۔

انھیں اپنے بھائی کی زندگی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ ڈاکٹر ریاض شاہ نے انہیں ایک امریکی ڈاکٹر کے بارے میں بتایا تھا۔ فاطمہ جناح نے اسی وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر اصفہانی صاحب کو تار بھیجا کہ امریکی ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ان کے آنے کا بندوبست کریں۔ اگلے روز انھوں نے کراچی کے معروف معالج ڈاکٹر مستری کو فون کیا اور انھیں فوری کوئٹہ آنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ قائد کو کراچی منتقل کرنا اب ضروری ہو گیا ہے۔ پھر انھوں نے فاطمہ جناح کو یہ تکلیف دہ خبر سنائی کہ اب قائد کے بچنے کی امید باقی نہیں رہی ہے اور کوئی معجزہ ہی انھیں بچا سکتا ہے۔

جب فاطمہ جناح نے قائد کو بتایا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں آپ کی صحت کے لیے کراچی جانا ضروری ہے تو انہیں ڈر تھا کہ قائد پہلے کی طرح بیماری کی حالت میں کراچی جانے سے انکار کر دیں گے‘ لیکن اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب قائد نے کہا ”ٹھیک ہے مجھے کراچی لے چلو‘ میں وہیں پیدا ہوا تھا اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہتے کہتے ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ فاطمہ جناح قائد کے بستر سے لگ کر کھڑی تھیں۔ قائد اب غنودگی کے عالم میں بول رہے تھے۔ کچھ بے ربط جملے، بکھر ے بکھرے سے الفاظ، جن میں تین الفاظ نمایاں تھے ”کشمیر، آئین اور مہاجرین‘‘۔ ایک سچے اور کھرے لیڈر کی طرح اس عالم میں بھی وہ اپنی ترجیحات نہیں بھولے تھے۔

11 ستمبر کو کراچی جانے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے گورنر جنرل کے طیارے کا اندر سے بھی معائنہ کر لیا۔ جہاز کے اندر کی سہولتیں اطمینان بخش تھیں۔ ایئر پورٹ سے ریزیڈنسی پہنچنے پر ڈاکٹر مستری نے اُنھیں بتایا کہ قائد کی حالت بگڑ گئی ہے‘ انھوں نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کو اچانک یوں لگا جیسے وہ یہ جنگ ہار گئے ہیں لیکن انھوں نے تو آخر دم تک کوشش کرنا تھی۔ کیا پتا کراچی پہنچ کر بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔ وہ گیارہ ستمبر کی سہ پہر تھی جب قائد کو ایمبولینس میں ایئرپورٹ لے جایا گیا۔ جس وقت قائد کو ایمبولینس سے نکال کر سٹریچر پر جہاز میں منتقل کیا جا رہا تھا تو جہاز کے عملے نے اپنے قائد کو سلیوٹ کیا۔ جس کے جواب میں قائد کے نحیف بدن میں حرکت پیدا ہوئی اور انھوں نے اپنے جسم کی تمام تر قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیا۔

قائد آخری وقت بھی فرض کی ادائیگی نہیں بھولے تھے۔ جہاز میں قائد کے ہمراہ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر مستری بھی تھے۔ ڈاکٹر ریاض شاہ اپنی فیملی کے ہمراہ دوسرے طیارے میں آ رہے تھے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے پائلٹ سے پوچھا کہ جہاز کتنی بلندی پر سفر کرے گا؟ پائلٹ نے بتایا کہ شروع میں سات ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کریں گے اور پھر جہاز کم بلندی پر آ جائے گا۔ پرواز کے دوران باری باری ڈاکٹرز اور فاطمہ جناح قائدِ اعظم کو آکسیجن لگاتے رہے۔ اس وقت انھوں نے اطمینان کی سانس لی جب طیارہ 4 بج کر 15 منٹ پر کراچی کے ایئر پورٹ پر اترا۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے طیارے سے نکل کر دیکھا کہ ایک ایمبولینس کھڑی ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی نرس نہیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے سوچا‘ شکر ہے کوئٹہ سے وہ ایک نرس اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اس کے بعد قائد کو ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔ ایمبولینس میں قائد کے ہمراہ فاطمہ جناح اور نرس بیٹھ گئیں۔ ان کے پیچھے والی گاڑی میں ملٹری سیکرٹری، ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر مستری تھے۔ ایمبو لینس آہستہ روی سے چل رہی تھی۔ ابھی انھوں نے چار میل کا فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ ایمبولینس ایک جھٹکے سے رک گئی۔

ایمبولینس کا ڈرائیور نیچے اتر کر انجن کو دیکھنے لگا۔ قائدِ اعظم نے تھوڑی سی آنکھیں کھولیں۔ ان کی نظر میں استفسار تھا کہ ہم کیوں رک گئے ہیں؟ فاطمہ جناح نے جھک کر ان کے کان میں کہا کہ ایمبولینس کے انجن میں خرابی ہو گئی ہے۔ وہ کراچی کا ایک گرم دن تھا۔ اس وقت مکھیاں نجانے کہاں سے آ گئی تھیں۔ قائدِ اعظم کے ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مکھیوں کو اڑا سکتے۔ ایمبولینس کے اندر بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ نرس اور فاطمہ جناح باری باری انھیں پنکھا جھل رہی تھیں۔ دوسری ایمبولینس کا انتظار طویل ہو گیا تھا۔ سڑک پر ارد گرد ٹرک اور بسیں رواں دواں تھیں۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کا محبوب قائد لمحہ لمحہ اپنی زندگی کی باری ہار رہا ہے۔ خدا خدا کر کے دوسری ایمبولینس آئی تو قائد کے سٹریچر کو اس پر منتقل کیا گیا۔ جب وہ گورنر جنرل ہائوس پہنچے تو ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ قائد کو بستر پر لٹایا گیا اور وہ دو گھنٹے تک سوئے۔ فاطمہ جناح ان کے پاس تھیں۔

پھر انھوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور فاطمہ جناح کو سر اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ فاطمہ جناح ان پر جھک گئیں۔ قائد کی نحیف آواز آ رہی تھی ”لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ اسی کے ساتھ ان کا سر دائیں طرف کو جھکا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔

فاطمہ جناح نے ڈاکٹروں کو آواز دی‘ جنھوں نے انجکشن لگا کر جسم میں حرکت پیدا کرنے کی آخری کوشش کی لیکن قائدِ محترم کا آخری وقت آ چکا تھا۔ ہر دم بے قرار رہنے والا جسم بے حس و حرکت ابدی نیند سو رہا تھا۔ ڈاکٹرز نے ان کو سفید چادر اوڑھا دی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش فاطمہ جناح کی طرف مڑے اور اپنا دایاں ہاتھ جناح کے کندھے پر رکھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔ انہیں یوں لگا‘ آج پاکستانی قوم یتیم ہو گئی ہے۔ قائدِ اعظم ایک سچے، اور کھرے لیڈر تھے‘ جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر قوم کو فتح یاب کیا تھا۔ یہ سب کا مشترکہ نقصان تھا۔ ساری قوم سکتے میں آ گئی تھی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کے لیے یہ غم اور بھی سوا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے انھیں زیارت اور کوئٹہ میں قائد کے ساتھ بتائے ہوئے وہ دن رات یاد آ تے رہے۔

کیسے دن رات تھے جو ان کی زندگی میں ٹھہر گئے تھے۔ شام کو اپنے لان میں کتاب پڑھتے ہوئے یا چہل قدمی کرتے ہوئے وہ اکثر سوچا کرتے: اگر قائد شروع میں کراچی آنے پر رضا مند ہو جاتے تو کیا ہوتا؟ اگر نواب آف بہاولپور کو تار اسی روز چلا جاتا تو کیا ہوتا؟ اگر تار کا جواب 3 دنوں کے بجائے چوبیس گھنٹوں میں آ جاتا تو کیا ہوتا؟ اگر ایمبولینس میں خرابی نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ ایک دوسری ایمبولینس وقت پر آ جاتی تو کیا ہوتا؟ پھر ڈاکٹر الٰہی بخش خود ہی اپنا سر جھٹک دیتے۔ وہ سوچتے‘ موت کا ایک دن معین ہے‘ ایک روز ہم سب نے جانا ہے‘ لیکن یہ کیا کم ہے کہ قائد جا کر بھی ہماری زندگیوں سے نہیں گئے۔ ان کی سب سے بڑی نشانی پاکستان ہمیں ہمہ وقت ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ قائدِ اعظم جیسا رہنما پھر کبھی نہیں آئے گا۔ وہ ایک آفتاب تھا جس نے مایوسیوں کے اندھیرے میں امید کی روشنی پھیلائی۔ وہ ایک آفتاب تھا جو ڈھل گیا‘ لیکن اس کی حدت ہمارے جذبوں میں اب بھی زندہ ہے، تا ابد زندہ رہے گی۔ (ختم)

ان کالموں کے لیے درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا:
1: With the Quaid-e-Azam During his Last Days (Dr Elahi baksh)
2: My Brother (Fatima Jinnah)
3: شہاب نامہ (قدرت اللہ شہاب)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے