مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) اور انسان کا مستقبل ، یہ ایک ایسا موضوع ہے جو یہاں لندن میں بھی کافی مقبول ہے اور یونیورسٹیز اس پر مباحثے کرواتی رہتی ہیں – یہ سوال کہ کیا واقعی اس سے انسانی نسل کو خطرہ ہے ؟ کا جواب دینے سے پہلے میں اکنامک ہسٹری سے ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا –

جب صنعتی انقلاب آیا تھا اور مشینی عہد شروع ہوا تو یہ تاثر عام تھا کہ مشینیں انسانی محنت کی جگہ لے لیں گی ، انسانوں کی اکثریت بے روزگار ہو جائے گی سرمایہ سرمایہ داروں کی قید میں چلا جائے گا پھر محنت کش اکٹھے ہو کر تحریک چلائیں گے ، خونریز جنگ ہو گی اور بالاخر انسان دوبارہ مشینی چنگل سے نکل جائیں گے – … شاید اقبال نے بھی ایسے ہی کسی جذبے کے تحت کہہ دیا تھا "احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ” –

ایسا بالکل نہیں ہوا … بلکہ مشینی تمدن نے ہمیں سخت جان محنت سے نکال کر ذہانت و قابلیت کی محنت کی طرف دھکیل دیا – مشینی معیشت سے ہی علم کی معیشت کو جنم ملا – آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا بنیادی انحصار پروڈکٹوٹی اور انوویشن پر ہے جسے علم (صرف علم ) ہی بھرپور توانائی دیتا ہے اسی لئے اسے علم کی معیشت بھی کہتے ہیں –

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے مالامال روبوٹ ہم انسانوں پر اپنی ذہانت سے سبقت لے جائیں گے تو اس وقت ہم یہ فرض کر رہے ہوتے ہیں کہ شاید انسان اسی موجودہ ذہانت و قابلیت میں ہمیشہ قید رہے گا اور اس کی صلاحیتوں و خوبیوں میں ارتقاء نہیں ہو گا –

میں یہ سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری صلاحیتوں ، ذہانت اور قابلیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اپپس (apps ) کی شکل میں ہماری مدد کرتی جا رہی ہے اور جس طرح انسانی ذہانت کا پروجیکٹ قابل غور ہے ویسے ہی ایسے آلات پر کام ہو رہا ہے جس سے بہت دور کے فاصلے پر ہم کسی چیز کو انتہائی آسانی سے دیکھ سکیں ، اپنے جسم کا ایکسرے خود ہی اپنے موبائل سے کر سکیں گے ، چیزوں کو یاد کرنے (میموری ) کے مسائل سے نکل کر تنقیدی جائزے اور تجزیاتی اسلوب سے کام لے سکیں گے –

جینیاتی انجینئرنگ کی مدد سے بیماریوں پر غلبہ پا لیں اور انسانی عمر میں وسعت آئے وغیرہ وغیرہ ….

یوں یہ انسان جب مصنوعی ذہانت کے عہد میں موجود ہوں گے تو وہ اپنی موجودہ شکل میں نہیں بلکہ اپنی انتہائی ترقی یافتہ شکل میں ہوں گے –

اہم چیز بطور ایک پاکستانی کے یہ ہے کہ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ انسان ترقی و خوشحالی کی جس نئی دنیا میں داخل ہونے لگا ہے اس میں اب ہماری کنٹریبیوشن کیا ہے اور کل کیا ہو گی ؟ کیا ہم ایسے ہی رہیں گے ؟ طفیلیے ؟ جنہیں ترقی دنیا دنیا اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لے چلے گی ؟ اور ہم گرد ہی اڑاتے ہی رہیں گے ؟

ذرا سوچئے ….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے