فُل کورٹ ججز کا شخصی خاکہ اور جسٹس عیسیٰ کیس کا نیا منظر نامہ

قاضی فائز عیسیٰ کا کیس اب فُل کورٹ سُنے گا۔ پانچ نئے ججز کی آمد کے ساتھ جہاں بنچ کا منظر بدلے گا وہیں کیس کا رُخ بھی بدل سکتا ہے۔ صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی درخواست کی پہلی سماعت کرنے والا لارجر بنچ دو ججز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کے اعتراض کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا اور بنچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ساتھی ججز کے اتفاق سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو فُل کورٹ تشکیل دینے کے لیے فائل بِھجوا دی تھی۔ بظاہر لارجر بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود کولیٹرل ڈیمج کا شکار ہوئے جِس کا اندازہ اُنہیں خود بھی تھا اور اِسی لیے وہ ایک رات پہلے ذہن بنا چُکے تھے کہ وہ کسی صورت بطور کور استعمال نہیں ہوں گے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے اِس بات کا اشارہ اپنے مُختصر خطاب میں بھی دیا کہ وہ وُکلا کے اعتراض پر بنچ سے علیحدہ نہیں ہو رہے بلکہ وہ پہلے سے کیس نہ سُننے کا ذہن بنا کر آئے تھے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے آپ کو بتا دوں کہ ریٹائر ہونے والے جسٹس عظمت سعید شیخ کے اعزاز میں سپریم کورٹ بار کی طرف سے دیے جانے والے عشائیہ میں راقم نے دیکھا کہ جِن دو ججز نے وکلا کے ٹیبل پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود اُن میں سے ایک تھے جبکہ باقی ججز اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک دوسرے سے بظاہر نظریں چُراتے محسوس ہوئے۔

نو تشکیل شُدہ فُل کورٹ 24 ستمبر 2019 سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 9 درخواست گزاروں کی درخواستوں کی سماعت شروع کرے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کو چند روز قبل دِل کی تکلیف پر ہسپتال مُنتقل کیا گیا تھا جہاں اُنہیں انجیوگرافی کے بعد سٹنٹ بھی ڈالے گئے لیکن حیران کُن طور پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سینیئر وکیل کی صحت کے گراؤنڈ پر سماعت کے دو ہفتے التوا کی درخواست مُسترد کر دی ہے۔

اس سے قبل سات ججز کا خاکہ لِکھ چُکا ہوں لیکن اب فُل کورٹ کی تشکیل کے بعد نئے شامل ہونے والے پانچ ججز کا شخصی خاکہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہا ہوں جبکہ پہلے سے تحریر شُدہ پانچ ججز کا پروفائل بھی نقل کیے دیتا ہوں تاکہ نئے پڑھنے والے بھی اِس دس رُکنی فُل کورٹ کے ریمارکس کو پڑھتے ہوئے اِن معزز جج صاحبان کی شخصیت کو سمجھتے ہوں۔ فُل کورٹ کی سربراہی اب بھی پنجاب کے پاس ہے لیکن دو پنجابی ججز کے فُل کورٹ سے علیحدہ ہونے اور دو سندھی اور ایک پختون جج کی شمولیت کے بعد پنجاب کے چار ججز کو فُل کورٹ میں لارجر بنچ جیسی فیصلہ کُن اکثریت حاصل نہیں رہی۔ اب فُل کورٹ میں پنجاب کے چار ججز کے ساتھ سندھ کے بھی چار ججز بنچ کا حصہ ہیں جو دو پختون ججز کی اقلیت کے ساتھ مِل کر سُپریم کورٹ کے واحد بلوچ جج کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

یاد دہانی کے لئے بتاتا چلوں پنجاب ہی وہ واحد صوبہ ہے جِس کی صوبائی بار کونسل نے دیگر تمام صوبائی بار کونسلز کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو سُپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔

[pullquote]جسٹس عُمر عطا بندیال[/pullquote]

لاہور ہائی کورٹ کے جون 2012 سے جون 2014 تک تقریباً دو سال چیف جسٹس رہنے والے جسٹس عُمر عطا بندیال سول لا مُقدمات کے ماہر جج ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے جسٹس عُمر عطا بندیال پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف جعلی بنک اکاؤنٹس سو موٹو بنچ، عمران خان کی رہائش گاہ سمیت بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے والے بنچ، سابق وزیراعظم نواز شریف کو ن لیگ کی صدارت سے نااہل کرنے والے بنچ، اصغر خان فیصلہ عملدرآمد بنچ، ن لیگ کے خواجہ آصف کی نااہلی کالعدم قرار دینے والے بنچ، آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف میں نااہلی کی مُدت طے کرنے والے بنچ اور جج ارشد ملک وڈیو سکینڈل کیس بنچ کا بھی حصہ رہے۔

پنجاب کی انتہائی بااثر جاگیردار برادری بندیال کے سپوت جسٹس عُمر عطا بندیال اپنی زرعی اراضی پر کاشت ہونے والی فصلوں اور اُن سے ہونے والی آمدن میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں۔

بطور سینیئر جج لاہور ہائی کورٹ 2009 میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی منعقد کردہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے شُرکا کے ڈِنر کی پنجاب ہاؤس میں میزبانی کرنے والے جسٹس عُمر عطا بندیال اب بھی عموماً پشاور سے چپل کباب منگوا کر ساتھی ججوں کی دعوت کرتے رہتے ہیں۔ لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال یکم فروری 2022 کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گُلزار احمد کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیں گے جب کہ جسٹس بندیال کے ایک سال سات ماہ چیف جسٹس رہنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 16 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیں گے۔ اور ستمبر 2023 کی پاکستان کے بظاہر طے شدہ ریاستی منظرنامہ میں بہت اہمیت ہے کیونکہ اگلے عام انتخابات کا انعقاد ستمبر 2023 میں ہی متوقع ہے جب سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حلف لے رہے ہوں گے۔

لیکن اب اِس کا انحصار جسٹس عُمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رُکنی بنچ کے فیصلے پر ہے کہ جسٹس عُمر عطا بندیال منصبِ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سونپ کر جائیں گے یا ان کی سربراہی میں لارجر بنچ کا فیصلہ اپنے رُکن جج جسٹس سردار طارق مسعود کے چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار کر دے گا۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے انتہائی قابلِ اعتماد جسٹس عُمر عطا بندیال اب موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھی بہت قریب ہیں۔ مُقتدر اداروں میں جسٹس عُمر عطا بندیال کو انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

[pullquote]جسٹس مقبول باقر[/pullquote]

سندھ ہائی کورٹ کے قریباً ڈیڑھ سال چیف جسٹس رہنے والے اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر نے فروری 2015 میں سُپریم کورٹ کے جج کا حلف لیا۔ سول اور کرمنل لا کے ماہر جسٹس مقبول باقر جب سندھ ہائی کورٹ کے سینیئر جج تھے تو جون 2013 میں اُن پر خودکش حملہ بھی ہوا تھا جِس میں اِن کے ڈرائیور سمیت 9 سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے۔

فروری 2015 میں سپریم کورٹ کا جج بننے والے جسٹس مقبول باقر ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت پر نااہل قرار دینے والے بنچ، کراچی میں ناجائز تجاوزات کے خاتمے والے بنچ اور کراچی کے تین ہسپتالوں کا انتظامی کنٹرول وفاق کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینے کو اٹھارہویں ترمیم کی روح کے منافی قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے۔

جسٹس مقبول باقر زیادہ تر فرسٹ فلور پر اپنے چیمبر تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن نرم مزاج اور شریف النفس جج کی شہرت رکھتے ہیں جو صرف اپنے کام سے کام رکھتے اور زیادہ گُھلتے ملتے نہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دونوں سے ہی واجبی سا تعلق ہے۔ خود کُش حملے سے بچ نکلنے کے بعد سے جسٹس مقبول باقر کے بارے میں مُقتدر ادارے عموماً اچھا تاثر رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس منظور ملک[/pullquote]

تین ماہ تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے اور کرمنل لا کے ماہر کی پہچان رکھنے والے جسٹس منظور ملک جون 2015 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس منظور ملک تحریکِ لبیک کے مولانا خادم رضوی کی ضمانت لینے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل کے بنچ، لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کے نگران بنچ کے رُکن رہے جبکہ دلچسپی کی بات ہے کہ جسٹس منظور ملک نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ن لیگ کے کھوکھر برادران اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور پلانٹ کے خلاف دیے جانے والے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا۔

جسٹس منظور ملک کمال کی حسِ مزاح رکھتے ہیں اور اپنے عملے سمیت ساتھی ججوں سے بھرپور مذاق کرتے ہوئے ہر طرح کے الفاظ کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس منظور ملک میں غرور بالکل نہیں۔ فرسٹ فلور پر چیمبر رکھنے والے جسٹس منظور ملک کی جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس فیصل عرب سے اچھی دوستی ہے۔

جسٹس منظور ملک کا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ورکنگ ریلیشن شِپ ٹھیک ہے۔ 30 اپریل 2021 کو ریٹائر ہونے والے جسٹس منظور ملک کے بارے میں مُقتدر ادارے تصادم نہ کرنے والے جج کا تاثر رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس فیصل عرب[/pullquote]

قریباً دس ماہ تک سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس فیصل عرب دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ سُپریم کورٹ آنے سے قبل سول لا کے ماہر جسٹس فیصل عرب سابق آمر جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مُقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ اور بعدازاں سُپریم کورٹ پہنچ کر سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاکپتن اراضی کیس کے بنچ، بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی قبضہ شُدہ ہزاروں ایکڑ زمین کو 460 ارب روپے میں ریگولرائز کرنے والے بنچ، پاک تُرک سکول ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کو کالعدم تنظیم قرار دینے والے بنچ، پرائیویٹ سکولوں کی فیس کیس کے بنچ اور وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے ہیں جبکہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی نااہلی کی درخواستوں کو مُسترد کرنے والے فیصلے کے ساتھ جسٹس فیصل عرب نے ایک اضافی نوٹ بھی لکھا جِس میں ان کا مؤقف تھا کہ نوازشریف اور عمران خان کے کیس میں کیا فرق ہے۔

جسٹس فیصل عرب فرسٹ فلور پر جسٹس سردار طارق مسعود کے چیمبر کے بالکل سامنے چیمبر میں بیٹھتے ہیں لیکن زیادہ گُھلتے ملتے نہیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کی جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مُنیب اختر سے اچھی بنتی ہے۔ طبعیت اور گفتگو میں نرم مزاج جسٹس فیصل عرب نومبر 2020 میں سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس فیصل عرب کے درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تعلقات واجبی سے ہیں لیکن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قریب رہنے والے جسٹس فیصل عرب کو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بھی مکمل اعتماد حاصل ہے۔ زرعی زمینیں رکھنے والے سندھی جج جسٹس فیصل عرب کو مقتدر ادارے بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل[/pullquote]

قریباً ایک سال آٹھ ماہ تک چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ رہنے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل دسمبر 2016 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ کرمنل لا کے ماہر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کی اپیل مُسترد کرنے والے بنچ اور توہینِ مذہب کے مقدمہ میں آسیہ بی بی کی سزا کالعدم قرار دینے والے بنچ کے حصہ بھی رہے۔ فرسٹ فلور پر کارنر والا چیمبر رکھنے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل سنجیدہ مزاج جج ہیں جو زیادہ گُھلتے ملتے نہیں۔

جولائی 2022 میں سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہونے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے بارے میں مُقتدر اداروں میں بائے دا بُک چلنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔

[pullquote]جسٹس سجاد علی شاہ[/pullquote]

تقریباً چودہ ماہ تک سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جج جسٹس سجاد علی شاہ مارچ 2017 میں سپریم کورٹ پہنچے۔ فرسٹ فلور کے دائیں کارنر پر چیمبر رکھنے والے جسٹس سجاد علی شاہ کارپوریٹ اور سول لا کے ماہر جج ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ جب سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اُن کے وکیل بیٹے اویس علی شاہ کو جون 2016 میں پُراسرار طور پر اغوا کر لیا گیا تھا اور پھراُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر جو کراچی کے ڈی جی رینجرز کے فرائض بھی سرانجام دے چُکے تھے ایک ٹیم تشکیل دی جِس نے ایڈوکیٹ اویس علی شاہ کا ٹانک میں سُراغ لگا لیا اور پھر 19 جولائی 2016 کو صُبح سویرے ایک کامیاب آپریشن میں کوئی بھی خراش آئے بغیر اویس علی شاہ کو بازیاب کروا لیا تھا جبکہ تینوں نامعلوم اغوا کار مارے گئے تھے۔

اغوا سے لے کر بازیابی تک جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کی کہانی میں پُرسراریت برقرار رہی اور بعد میں بھی اغوا کے پسِ پردہ مقاصد کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ بہرحال کیوںکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر کے بطور ڈی جی رینجرز سندھ اور بعدازاں ڈی جی آئی ایس آئی اُن کی شخصیت سے براہِ راست بہت سے تنازعات جُڑے ہیں، اِس لئے جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کا اغوا اور بازیابی دونوں ہی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت مُسترد کرنے والے بنچ، کراچی میں سُمندر کنارے ڈی ایچ اے سمیت تمام غیر قانونی تعمیرات پر پابندی لگانے والے بنچ، سندھ میں زمینوں کی الاٹمنٹ میں شفافیت کا حُکم دینے والے بنچ اور سِندھ میں شراب کی فروخت پر ایک ماہ کے لیے پابندی لگانے والے بنچ کا حصہ رہے۔

مِڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس سجاد علی شاہ کا سُپریم کورٹ کے عملے سے انتہائی نرم رویہ ہوتا ہے۔ انتہائی نفیس جسٹس سجاد علی شاہ کی سُپریم کورٹ میں اپنے ساتھی سندھی جج جسٹس فیصل عرب کے ساتھ اچھی دوستی ہے جو عموماً جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر کا چکر بھی لگاتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی کا تھرڈ فلور پر چیمبر رکھنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اپنی طرح فرسٹ فلور پر موجود درخواستگُزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دونوں سے صرف ورکنگ ریلیشن شِپ ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ اگست 2022 میں بطور سینئر جج سُپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے۔ بیٹے کے اغوا اور بازیابی کے بعد سے جسٹس سجاد علی شاہ کو مُقتدر ادارے ایک اچھا جج سمجھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس منصور علی شاہ[/pullquote]

قریباً بیس ماہ تک چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ رہنے والے جسٹس منصور علی شاہ سول لا کے ماہر جج ہیں۔ فرسٹ فلور پر جسٹس مُنیب اختر کے سامنے چیمبر رکھنے والے جسٹس منصور علی شاہ فروری 2018 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ شفافیت کی عُمدہ مثال قائم کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی عُمدہ روایت قائم کی۔

اس کے علاوہ بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ وکلا گردی کے واقعات پر جسٹس منصور علی شاہ اور وکلا گروپوں کے درمیان ٹھن گئی تھی جِس کا اختتام جسٹس منصور علی شاہ کی سُپریم کورٹ میں تعیناتی پر ہوا لیکن اِس تمام عرصہ کے دوران جسٹس منصور علی شاہ وُکلا گروپس کی کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ سے مرعوب نہیں ہوئے۔ پنجابی جج جسٹس منصور علی شاہ کی جسٹس مُنیب اختراور جسٹس مُشیر عالم سے اچھی دوستی ہے۔

دلچسپی کی بات ہے جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دونوں سے اچھی قُربت ہے۔ سُپریم کورٹ کے عملے میں نرم مزاج مانے والے جسٹس منصور علی شاہ کو ایک خودمختار ذہن رکھنے والا جج سمجھا جاتا ہے جِس پر اثر انداز ہونا کافی مُشکل ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا تعلق ایک بزنس مین فیملی سے بتایا جاتا ہے اور اگست 2025 میں دو سال سے زائد عرصہ کے لیے چیف جسٹس بننے والے جسٹس منصور علی شاہ کے ڈٹ جانے والے تاثر کی وجہ سے مُقتدر ادارے اِن کے خاندانی کاروبار اور بیرونِ مُلک جائیدادوں میں کافی دِلچسپی رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس مُنیب اختر[/pullquote]

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سندھ ہائیکورٹ کی سنیارٹی لِسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس مُنیب اختر کو سندھ ہائیکورٹ بار کی مُخالفت کے باوجود مئی 2018 میں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا۔ کارپوریٹ اور سول مُقدمات کے ماہر جسٹس مُنیب اختر کا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ایک دِلچسپ تعلق یہ بھی تھا کہ نواز شریف دور میں اپنے ساتھ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو سیکرٹری قانون رکھنے والے وزیرِ قانون خالد انور جسٹس مُنیب اختر کے سُسر ہیں۔ جسٹس مُنیب اختر سِندھ میں زمینوں کی الاٹمنٹ میں شفافیت لانے کا حُکم دینے والے بنچ، کراچی میں غیر قانونی تعمیرات پر پابندی لگانے والے بنچ اور ٹیکس امور کو سُننے کے لئے بنائے گئے سپیشل بنچ کا حصہ رہے۔

جسٹس مُنیب اختر کا چیمبر فرسٹ فلور پر جسٹس منصور علی شاہ کے چیمبر کے سامنے ہے۔ شائستہ طبعیت جسٹس مُنیب اختر کی بنچ سے علیحدہ ہو جانے والے جسٹس اعجاز الاحسن، فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ سے اچھی بنتی ہے۔ سنیارٹی لِسٹ میں ابھی کافی جونئیر جج جسٹس مُنیب اختر کا اپنے سینیئر ججز چیف جٹس آصف سعید کھوسہ اور درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تعلق واجبی سا ہے۔

جسٹس مُنیب اختر کے سپریم کورٹ میں آنے کی وجہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس رہنے کی مُدت آدھی رہ گئی ہے اور اب جسٹس مُنیب اختر نومبر 2027 میں قریباً ایک سال کے لیے چیف جسٹس بنیں گے۔ مُقتدر ادارے جسٹس مُنیب اختر کے بارے میں کافی اچھا تاثر رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس یحییٰ آفریدی[/pullquote]

ایک سال چھ ماہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی جون 2018 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جہاں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا وکیل ہونے کی وجہ سے سابق آمر جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مُقدمہ اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے بنچ سے خود کو فواد حسن فواد سے ذاتی تعلق ہونے کی وجہ سے علیحدہ کیا وہیں جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت مُسترد کرنے والے بنچ اور پی کے ایل آئی کے خلاف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے کالعدم قرار دینے والے بنچ، نیب قانون میں پلی بارگین کے خلاف فیصلہ دینے والے بنچ کا حصہ رہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کے عدالتی کرئیر سے جُڑا ایک اہم واقعہ مارچ 2019 میں نیب کے دباؤ کا شکار ریٹائرڈ برگیڈیئر اسد مُنیر کا خودکش نوٹ بھی تھا جو انہوں نے اپنی بیوی کو جسٹس یحییٰ آفریدی کے توسط سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تک پہنچانے کی ہدایت کی تھی۔ کارپوریٹ اور سول لا کے ماہر جسٹس یحییٰ آفریدی کا چیمبر فرسٹ فلور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بالکل سامنے ہے لیکن اِن کی سب سے زیادہ دوستی جسٹس مُنیب اختر اور اپنے جیسے پختون جج جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل سے ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی گھر سے کھانا لائیں تو کبھی کبھار اپنے سامنے موجود چیمبر میں بیٹھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی لنچ پر دعوت دیتے ہیں۔ سُپریم کورٹ کے پختون عملے اور واحد پختون جج سے پشتو میں گفتگو کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بہت ہی گُھلنے ملنے والے جج ہیں جو اپنے سٹاف کو دیے گئے کام میں خود بھی ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ دسمبر 2028 میں تقریباً 13 ماہ کے لئے چیف جسٹس بننے والے جسٹس یحییٰ آفریدی کا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے کافی احترام کا رشتہ ہے۔ مُقتدر ادارے جسٹس یحییٰ آفریدی کو خودمُختار ذہن والا جج مانتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس قاضی مُحمد امین احمد[/pullquote]

لاہور ہائی کورٹ میں جج رہ چُکے جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کو اپریل 2019 میں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ وڈیو لنک پر اب تک سب 142 مُقدمات سُنے گئے اور اکثریت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بنچ میں جسٹس قاضی مُحمد امین احمد اُن کے ساتھ تھے۔ کرمنل لا کے ماہر جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔

گراؤنڈ فلور پر واحد چیمبر رکھنے والے جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کا درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت فرسٹ اور تھرڈ فلور پر موجود دیگر ججز سے تعلق بہت واجبی سا ہے۔۔ پنجابی جج جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کو انتظامی طور پر انتہائی سخت جج مانا جاتا ہے جو سُپریم کورٹ کے انتظامی معاملات میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کو پسند نہیں کرتے۔ جسٹس قاضی مُحمد امین احمد مارچ 2022 میں بطور سینئر جج سُپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے۔ مُقتدر ادارے جسٹس قاضی مُحمد امین کا احترام کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے