سات اقسام کے کیڑوں کے دماغ قابو کرنے والی خطرناک بِھڑ

آئیووا: ماہرین نے فطرت کے کارخانے میں ایک کیڑا دریافت کیا ہے جو دیگر لیکن مختلف بھڑوں کے دماغ کو کنٹرول کرکے ان سے فوائد حاصل کرتا ہے۔

اسے کرپٹ کیپر بِھڑ (واسپ) کہتے ہیں جو دیگر اقسام کی بھڑوں کو نشانہ بناتی ہے اور اس کا طریقہ واردات دیکھ کر خود سائنسداں بھی دنگ رہ گئے ہیں۔ پہلے خیال تھا کہ کرپٹ کیپر بِھڑ صرف ایک ہی قریبی نسل کی بِھڑ کو نشانہ بناتی ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یوڈیرس نامی کرپٹ کیپر بِھڑ ایک سے زائد اقسام کی بھڑوں پر خاص انداز سے حملہ آور ہوکر ان کے دماغ اور رویے کو تبدیل کردیتی ہے۔

مثال کے طور پر کرپٹ کیپر ایک اور قسم کی بِھڑ یعنی گال واسپ کو اپنا ہدف بناتی ہے۔ یہ بِھڑ پودوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر انڈے دیتی ہے جس سے پودے پر پھوڑے کی طرح ابھار بن جاتے ہیں۔ اس کے اندر بِھڑ کا کیڑا مزے سے رہتا ہے اور اندر کھاتا اور جوان ہوتا جاتا ہے۔ جب کیڑا (لاروا) مکمل بِھڑ بن جاتا ہے تو وہ اسی ابھار کو چباکر ایک سوراخ بناکر باہر اڑجاتا ہے۔

لیکن کرپٹ کیپرعین اسی بِھڑ کے ابھار یا سوراخ کے اندر اپنے انڈے دیتی ہے جس کا کیڑا دوسری شکاری بھڑ پر حملہ کرکے اسے متاثر کرتا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ گال بھڑ کا کیڑا اندر سے غذا کھاکر باہر نکلنے کی جگہ تو بناتا رہتا ہے لیکن وہ اس وقت کھانا بند کردیتا ہے جب باہر نکلنے کا راستہ چھوٹا ہوتا ہے اور تب تک کرپٹ کیپر کا کیڑا اس کے اندر پروان چڑھتا رہتا ہے۔

سات اقسام کے کیڑوں کے دماغ قابو کرنے والی خطرناک بِھڑ

لیکن کرپٹ کیڑا آخر کس طرح گال واسپ کو سوراخ بنانے سے روکتا ہے؟ یہ اب تک معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پھر چند روز بعد بالغ کرپٹ کیپرپیدا ہوتا ہے اور اپنی پہلی دعوت دوسرے کیڑے کے سر کو کھا کر کرتا ہے جو باہر جانے والے راستے پر پھنسا ہوتا ہے؛ اور اس کے بعد درخت سے اڑ جاتا ہے۔

لیکن یاد رہے کہ گال واسپ کی ہزاروں اقسام ہیں اور معلوم ہوا ہے کرپٹ کیپر بھڑ کم ازکم سات اقسام کی بھڑوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔ اس طرح کرپٹ کیپر کو دنیا کی خطرناک ترین بھڑ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مزید تحقیق سے کئی سوالات کے جوابات مل سکیں گے۔ مثلاً اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ شکاری بھڑ آخر باہر کیوں نہیں نکل پاتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید کرپٹ کیپر بِھڑ دوسرے کیڑے میں ایسا کیمیکل داخل کرتی ہے جس سے وہ اپنا کام روک دیتا ہے لیکن اب تک اس کی سائنسی تصدیق باقی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے