سیاست اور خوفِ خدا

آج آپ کی خدمت میں دو واقعات بیان کروں گا۔ ایک تو کشمیر کا اہم معاملہ اور دوسرا سلطان ترکی کی اپنی رعایا کی فکر اور دیکھ بھال۔

(1)کشمیر کا مسئلہ بہت گرم، سنجیدہ اور تکلیف دہ بھی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے جو شرارت کی ہے اس سے خطّے میں بہت بے چینی پھیل گئی ہے۔ دونوں ایٹمی قوّت ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے فلسطین کی مثال موجود ہے تقریباً 70برس سے وہ بے چارے بے یارومددگار تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کو تو چھوڑیئے بعض عرب ممالک نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل دُکھ اور تنقید ہے۔ مغربی ممالک مل جل کر اسرائیل کو سپر پاور بنانے میں کامیاب ہوئے اور مغربی کنارے اور بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ مستقل بنانے میں مدد کی۔ اگر عرب ممالک چاہتے تو چند ہفتوں میں فلسطینی ریاست بن جاتی اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو جاتا۔ دیکھئے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی بستے تھے مگر کشمیر میں مسلمان بستے ہیں، مغربی ممالک کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

کشمیر کے معاملےکی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری پر جو احتجاج کی تیاریاں ہورہی تھیں وہ ٹھنڈی ہوگئیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا لانگ مارچ اور اسلام آباد بند کرو کی مہم بھی ٹھنڈی پڑ گئی مگر مہنگائی اور بے روزگاری برابر ترقی کرتی جارہی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ جونہی ٹھنڈا ہوا یہ احتجاجی مہم پھر یقیناً سرگرم ہوجائے گی۔ میرے خیال میں اب تک حکومت نے جو اقدامات کشمیر کے معاملے میں کئے ہیں ان سے مطلوبہ نتائج نہیں نکلیں گے۔ زبانی جمع خرچ سے ایسے مسائل حل نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے لئے بھارت، پاکستان کو کچھ لینا اور کچھ دینا ہوگا۔

ابھی حکومت نے ’’بچوں کو اسکولوں سے نکال کر، سرکاری ملازمین کو دفتروں سے نکال کر، تمام سڑکوں کے سگنل بند کرکے، تمام ٹرینوں کو روک کر اور مسافر گرمی سے گھبرا کر ٹرین سے نکل آئے، پارلیمنٹ میں تالا لگا کر سارے ممبران کو باہر نکال کر، سرکاری کارخانوں اور فیکٹریز کو بند کرکے دفتروں میں تالا لگوا کر اور ٹی وی پر پروپیگنڈا کروا کر کے، آدھ گھنٹہ میں کروڑوں اربوں روپے کا نقصان کرایا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا، کچھ دنوں کے بعد پتا چلے گا کہ کتنے مریض اس ٹریفک میں پھنس کر دم توڑ گئے، کتنے ارب روپے کا نقصان ہوا۔ قوم کے دانشوروں سے میرا سوال ہے کہ کیا ان اقدامات سے ہمیں کشمیر حاصل ہوجائے گا؟

(2) حقوق العباد و سلطانِ ترکی:مسلمان حکمرانوں کی روایت کے مطابق ترکی کے سلطان مراد چہارم اکثر راتوں کو اپنے سیکورٹی افسر کے ساتھ بھیس بدل کر شہر میں چکر لگاتے تھے تاکہ عوام سے حکومت کے بارے میں تاثرات سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ سلطان نے ترکی میں 1623سے 1640تک حکومت کی تھی۔ ایک رات انہیں بہت بے چینی محسوس ہوئی اور انہوں نے سیکورٹی افسر سے کہا چلو شہر میں چلتے ہیں۔ وہ ایک گنجان علاقے میں آئے اور وہاں ایک شخص کو سڑک پر پڑا دیکھا۔ اس کو ہلا کر دیکھا تو معلوم ہوا وہ فوت ہو چکا تھا اور عوام اپنے کام میں مصروف تھے۔ کوئی شخص بھی اس کی فکر نہیں کررہا تھا۔

سلطان کو لوگوں نے نہیں پہچانا۔ سلطان نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ لاش یہاں پڑی ہے اور عوام کیوں اس کی فکر نہیں کررہے۔ اس کی فیملی کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ شرابی اور بدکردار تھا۔ سلطان نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی اُمت میں سے تو تھا۔ میری مدد کرو کہ ہم اسے اس کے گھر پہنچا دیں۔ لوگوں نے مردہ کو اس کے گھر پہنچا دیا اور فوراً چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ جب مرحوم کی بیگم نے اپنے شوہر کی لاش دیکھی وہ رونے لگی اور کہا اللہ پاک تجھ پر رحم کرے، اے اللہ کے دوست میں گواہی دیتی ہوں کہ تم نیک انسان تھے۔ سلطان کو یہ سن کر تعجب ہوا اور انہوں نے بیوہ سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے! لوگ اس کے خلاف بہت باتیں کررہے تھے۔

اس نے کہا مجھے یہی اُمید تھی۔ میرا شوہر ہر روز کلاری (شراب خانہ) جاتا تھا اور جس قدر ممکن تھا شراب خرید کر گھر لاتا تھا اور نالی میں بہا دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے چند مسلمانوں کو غلط کام اور عذاب سے بچا لیا۔ پھر وہ طوائف کو رقم دیتا اور اس سےگھر کا دروازہ بند کروا دیتا کہ وہ کوئی گناہ نہ کر سکے اور مجھ سے کہتا کہ میں نے آج جوان عورت اور نوجوانوں کو بدکاری سے بچا لیا۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ ایک دن جب تم فوت ہو گئے تو تمہیں کوئی غسل دینے والا اور دفنانے والا نہ ملے گا اور کوئی فاتحہ نہ پڑھے گا۔ اس نے (میرے شوہر نے) کہا تھا کہ مومنوں کا سلطان اپنے نیک بندوں کے ساتھ میری نماز پڑھائے گا اور میری تجہیز و تدفین کرے گا۔

سلطان مراد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس نے خاتون سے کہا بخدا میں ہی سلطان ہوں اس نے صحیح کہا تھا۔ کل ہم اس کو غسل دینگے، نماز جنازہ پڑھیں گے اور دفنائیں گے اور یہی ہوا کہ سلطان اور اس کے ساتھی نیک بندوں نے اس کو غسل دیا۔ نماز پڑھی اور دفنا دیا۔

(نوٹ)ہم لوگوں کو ظاہری چیزوں سے جانچتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ کاش ہمیں علم ہو کہ اس شخص کے دل میں کیا پوشیدہ ہے اور اس کا اپنے رب سے کیا تعلق ہے۔ سورۃ الحجرات، آیت 12میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’اے ایمان والو، شک و شبہ سے پرہیز کرو کیونکہ بعض شک و شبہات گناہ کے زمرے میں آتے ہیں اور دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو اور پیٹھ پیچھے چغلیاں نہ کھائو، کیا تم اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرو گے۔ نہیں تم اس سے نفرت کرو گے۔ پس اللہ سے ڈرو کہ اللہ پاک بڑا معاف کرنے والا اور بڑا رحمدل ہے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے