آزادی مارچ: امکانات اور خدشات

ایک عجیب و غریب حکومت کا ہمیں سامنا ہے۔ اس کارکردگی کے ساتھ، جب سماج کا ہر طبقہ اس سے نالاں اور آہ و فغاں کر رہا ہے، حکومت مخالفین کو دعوتِ مبارزت دے رہی ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں حکومت مخالف تحریک اٹھانے سے گریزاں ہیں‘ مگر حکومت سرتوڑ کوشش میں ہے کہ یہ جلد از جلد مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جا ملیں۔ گویا حکومت نے مخالفین کو وہ تمام اخلاقی جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کریں۔

تحریک انصاف تو خیر ویسے بھی اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو دھرنے سے روکے۔ وہ جب یہ مطالبہ کرتے ہیں، ان کے اپنے اعمال ان کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ 2014ء میں جو کچھ کر چکے، اس کے بعد اُن کی ساتھ اپوزیشن جماعتیں جو کچھ کریں، اس سے یقیناً کم ہو گا۔ اخلاقیات کی بحث لیکن اب غیر متعلق ہو چکی۔ اب تو امکانات کی بات ہو گی۔

آزادی مارچ پر مولانا فضل الرحمن کا اصرار ابھی تک میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ اس کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اس سوال کی طرف ہم، بعد میں آتے ہیں، پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مولانا اس سے کیا حاصل کریں گے: محض انا کی تسکین، اگر حکومت ختم ہوتی ہے؟ نئے انتخابات جو ان کے لیے امکانات سے مملو ہوں؟ امکانات کی فہرست تو یہاں تک پہنچ کر تمام ہو جاتی ہے۔

تاریخ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک ظاہری اسباب کی بنیاد پر کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ ریاست بہرحال اتنی قوت اور حکمت رکھتی ہے کہ شورش پر قابو پا لے۔ کامیاب تحریک کے لیے نادیدہ قوتوں کی پشت پناہی لازم ہے۔ مذہب، اس میں شبہ نہیں کہ بے پناہ سماجی طاقت رکھتا ہے‘ لیکن مسلمانوں کی پوری تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ ریاست تاریخ کی بدنامی تو مول لے لیتی ہے مگر اپنا وجود ثابت کرتی ہے۔ یوں مذہبی جذبات بھی ریاست کو سر جھکانے پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر وہی تحریک کامیاب ہوئی جسے غیر مرئی قوتوں کی تائید حاصل تھی۔

مولانا فضل الرحمن صاحب کے آزادی مارچ کو بھی کیا اسی تاریخی تسلسل میں دیکھا جانا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے تو پھر ‘مارچ‘ پر شاید خود منتظمین کی گرفت بھی باقی نہ رہے۔ پھر وہ اپنا راستہ خود بنائے گا۔ بظاہر اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ یہ مارچ تاریخ کا تسلسل ہے۔ میرے اس تجزیے کی بنیاد چند شواہد پر ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی عصبیت کو بہت کامیابی کے ساتھ تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کو مولانا فضل الرحمن کے سامنے لا کھڑا کیا گیا ہے۔ ان کی سماجی حیثیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا اصل حلقہ وہی ہے، مولانا جس کی سیاسی نمائندگی کرتے ہیں۔ طارق جمیل صاحب اس وقت یہ بتا رہے ہیں کہ عمران خان ایک درویش مزاج حکمران ہے‘ جو ریاست مدینہ کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ اب کون ہو گا جو ایسے حکمران کے خلاف مہم کا حصہ بن کر اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالے گا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود مسلک دیوبند کے اندر مولانا کے مذہبی نہلے پر دھلا پھینک دیا گیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کا اس وقت ایک بھرپور سیاسی کردار ہے‘ جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیوبند کا ایک بہت طاقت ور تعلیمی ادارہ ان کے ساتھ ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہی مولانا کو سیاست میں دھکیلنے والا ہے۔

دوسری یہ کہ برادرم طاہر اشرفی بھی دیوبندی عصبیت ہی کو مخاطب بنائے ہوئے ہیں اور خان صاحب کو اپنا جبہ پیش کر رہے ہیں۔ مسلک کے اندر ان کی رسائی کتنی ہے، اس سے قطع نظر، ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ میڈیا کی حد تک حصہ بقدر جثہ نہیں، اس سے زیادہ وصول کر سکتے ہیں۔ وہ اگر بڑا حلقہ اثر نہ بھی رکھتے ہوں تو ان کا یہ کردار بہت اہم ہے کہ وہ عمران خان کے حق میں مسلک دیوبند کے حلقے کی ایک آواز ہیں۔

تیسری یہ کہ وفاق المدارس مسلسل حکومت اور ریاست سے رابطے میں ہے اور ان کا یہ قرب ظاہر و باہر ہے۔ میرا احساس ہے کہ دیوبندی مدارس کا منتظم یہ ادارہ اس بات کی پوری کوشش کرے گا کہ مدارس کے طلبا اور اساتذہ اس تحریک سے دور رہیں۔ آج ایک طرف مولانا حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور دوسری طرف مدارس کے طلبا خان صاحب اور آرمی چیف صاحب سے تعریفی اسناد لے رہے ہیں۔ ریاست اور مدارس ایک دوسرے سے کچھ توقعات باندھے ہوئے ہیں۔ وفاق المدارس مولانا فضل الرحمن سے دور رہ کر ہی ان تو قعات پر پورا اتر سکتا ہے۔
چوتھی یہ کہ ماضی میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کے پی میں مولانا سمیع الحق کے حلقے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی تالیفِ قلب ہو چکی۔ یہ حضرات بھی مولانا کے قافلے میں شامل ہونے سے گریزاں ہوں گے۔ یہ چند شواہد، میں اس موقف کے لیے بطور دلیل پیش کر رہا ہوں۔ یہ گواہیاں، یہ باور کرنے میں مانع ہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ کو تاریخی تسلسل میں دیکھا جائے۔

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اسے مولانا کی انفرادی پرواز سمجھنا چاہیے۔ اس کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ ان کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں؟ کیا وہ اتنا بڑا ہجوم اکٹھا کر سکیں گے‘ جو کاروبارِ حکومت کو معطل کر دے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ اگر وزرا اسی گرمجوشی سے انہیں مشتعل کرتے رہے تو ان کے وہ ہمدرد بھی ان کے قافلے میں شامل ہو جائیں گے جو مولانا کے اس اقدام کے حامی نہیں تھے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ نون لیگ سے وابستہ عام لوگ ان کے ہم سفر ہو جائیں۔ اس وقت سیاسی محاذ آرائی جس سطح تک پہنچ چکی، نون لیگ کا عام کارکن شاید اپنی قیادت کا انتظار نہ کرے۔ اگر اسے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے کوئی فورم مل رہا ہے تو وہ ضرور اپنے دل کی بھڑاس نکالے گا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر مولانا کی لوگوں کو جمع کر نے کی اپنی صلاحیت۔ میرا خیال ہے کہ ان سب عوامل کی وجہ سے، حکومت کو کم از کم ایک لاکھ افراد کے استقبال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حسبِ وعدہ کنٹینر تو خان صاحب دے نہیں سکے، اب مہمانوںکی ضیافت ہی کر دیں۔

ایک امکان مجھے واضح دکھائی دے رہا ہے۔ اس آزادی مارچ کے بعد، سیاست وہ نہیں رہے گی جو اب ہے۔ اس میں کوئی جوہری تبدیلی آئے گی۔ جیسے صدارتی نظام کی طرف پیش قدمی یا جیسے…، خیر امکانات کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن سیاست وہ نہیں رہے گی جو اب ہے۔ کیا اس میں کوئی خیر ہو سکتا ہے؟ کاش میں اس کا جواب اثبات میں دے سکتا۔

ہماری سیاست ایک غیر فطری ڈگر پر چل نکلی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ سیاست و ریاست کی باگ ان ہاتھوں میں ہے جو سیاسی حرکیات سے بے خبر ہیں۔ یوں اصلاح کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ سیاست کا فطری راستہ وہی ہے جو رائے عامہ کے آنگن سے ہو کر گزرتا ہے۔ جب تک ہم اس کی طرف نہیں لوٹیں گے، ریاست کی گاڑی حادثات سے نہیں بچ سکتی۔

موجودہ حکومت کی ناکامی ہمہ جہتی ہے۔ اس المیے میں جو چیز اضافہ کر رہی ہے، وہ تصادم کا مزاج ہے جسے اہلِ اقتدار اپنی خوبی سمجھ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں آزادی مارچ جیسے اقدامات کو روکا نہیں جا سکتا۔ اگر حکومت اسے روکنا چاہے گی تو ملک بھر میں تصادم کا آغاز ہو جائے گا۔ حکومت کو مصالحت کی طرف آنا ہو گا یا اسے لانا پڑے گا۔ جو لوگ مولانا فضل الرحمن کے حامی نہیں ہیں، وہ بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ اگر یہ معرکہ آرائی بڑھتی ہے تو ان کا وزن حکومت مخالف پلڑے میں شامل ہو جائے گا اور بہت امکان ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں بھی خود کو الگ نہ کر سکیں۔

اس وقت باگ حکومت کے پاس ہے۔ وہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھا کر سیاسی ہیجان کو کم کر سکتی ہے۔ آزادی مارچ کے بعد، یہ راستہ بھی بند ہو جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے