’’بدصورتی سے کیا شرمانا‘‘

غنودگی کے عالم میں سنا’’خوب صورتی سے کیا شرمانا‘‘غنودگی کے عالم میں ہی سوچا کہ خوبصورتی پر شرمانے کی نہیں، اسے تو ہر قیمت پر بچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اک ایسا معاشرہ جہاں کوئی بدصورتی پر شرمانے کی زحمت اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، وہاں یہ کون ہے جو خوب صورتی سے شرمانے کی بات کر رہا ہے لیکن شاید اشتہاروں کی دنیا ایسی ہی ہوتی ہے۔

اپنی اپنی دنیا ہے اور اپنی اپنی سوچ کہ کچھ لوگ سورج کی تپش کا رونا روتے ہیں اور کچھ لوگ اسی سورج کی روشنی انجوائے کرتے ہیں۔ کمہار بارش ہونے پر اپنے کچے برتنوں کو روتا ہے اور کاشت کار اس رحمت پر رب کا شکر ادا کرتا ہے۔

قوس قزح کے لئے بارش اور سورج کی روشنی کا ملن ضروری ہے۔ یاد نہیں آ رہا کہ یہ کس شاعر کا شعر ہے کہ اچھی صورت بھی کیا بری شے ہےجس نے ڈالی بری نظر ڈالی اسی لئے بہت سے لوگوں نے خوبصورتی پر لعنت بھیجی، بدصورتی کو گلے لگایا اور زندگی بھر کے لئے طے کر لیا کہ ’’بدصورتی سے کیا شرمانا‘‘۔

میرے ایک فیورٹ چارلس ڈکنز نے کیا جملہ لکھا۔”WE FORGE THE CHAINS WE WEAR IN LIFE”شکلوں چہروں کی خوب صورتی بدصورتی بے معنی ہوتی ہے کیونکہ وقتی ہوتی ہے جیسے اندھیرے میں سب ایک سے ہوتے ہیں، لباس کے اندر بھی سب ایک سے ہوتے ہیں۔

اسی طرح بڑھاپے میں بھی سب ہی صرف بوڑھے ہوتے ہیں، خوب صورت یا بدصورت نہیں تو یہ حسن و جمال دراصل ہے کیا؟ انسانی تاریخ کے مختلف میدانوں، شعبوں میں بیشمار شخصیات کیمرہ کی ایجاد سے پہلے کی پیداوار ہیں لیکن کروڑوں انسان ان سے محبت کرتے ہیں، ان سے عقیدت اور چاہت کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ دیکھنے میں کیسے لگتے تھے۔

رنگ روپ نقش و نگار یا کردار؟قوموں کی زندگی میں بھی ان کی شکلیں نہیں کردار ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور جب گراں خواب چینی سنبھلنے لگیں تو ان کی پھینی ناکیں بھی سیدھی ہونے لگتی ہیں اور پیلی رنگتیں سنہری اور گلابی ہونے لگتی ہیں۔

درندوں سے بدتر وحشی وائی کنگز بھی مہذب ہونے کی ٹھان لیں تو ویلفیئر سٹیٹس جنم لیتی ہیں لیکن جہاں ’’بدصورتی سے کیا شرمانا‘‘ ہی منشور بن جائے وہاں سیاست سے تجارت تک، صحافت سے صنعت تک، وکالت سے عدالت تک، نخوست سے خجالت تک قدم قدم پر ’’بدصورتی سے کیا شرمانا‘‘ کے شہکار جنم لینے لگتے ہیں۔

خواب دکھا کر آنکھیں نوچ لینے سے کیا شرماناکیمیکلز سے دودھ بنانے پر کیا شرمانارشوت ’’کمیشن‘‘ کک بیک سے ملک کو کنگال کرنے پر کیا شرماناغیرت کے نام پر بے غیرتی کی انتہاء پر کیا شرمانامردہ جانوروں کی انتڑیوں آلائشوں سے خوردنی تیل بنانے سے کیا شرمانا۔

جھوٹی گواہی سے کیا شرماناچند مقالے کتر کر مقالہ تیار کرنے سے کیا شرماناطالب علموں کا اساتذہ کی تذلیل سے کیا شرماناآئوٹ آف ٹرن پروموٹ ہونے یا ڈیپوٹیشن ڈاکے سے کیا شرماناجنگل کاٹنے اور پانی چرانے سے کیا شرماناآمدنی سے کہیں زیادہ اثاثوں پر کیا شرماناٹی ٹیوں کی برسات میں نہانے سے کیا شرمانامال مسروقہ سمیت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے کیا شرماناغرضیکہ ان جیسی لاتعداد حرکتوں پر شرمانے نہیں بلکہ ’’وکٹری کا نشان‘‘ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ اور کمال یہ کہ ان گنت خم ٹھوک کر سامنے آتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے بھی باپ ہیں۔’’جس نے کی شرم۔ اس کے پھوٹے کرم‘‘

وظیفۂ حیات ….وہ حیات جس کے بارے کہتے ہیں کہ فقط چار دن کی ہے سو جو چار دن میں آنے والی چار نسلوں کے حصہ کا رزق نہ کھا جائے، وہ بھی کوئی بندہ ہے کہ یہی اس جمہوریت کا حسن ہے، یہی بہترین انتقام ہے اور اسی رویے کو ووٹ کی عزت کہتے ہیں۔بدصورتی سے کیا شرمانا۔

جہاں ’’مقابلۂ حسن‘‘ ہو وہاں حسین، حسین ترین ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ خوب صورتی سراہی جاتی ہے لیکن جہاں ’’مقابلۂ بد صورتی‘‘ عروج پر ہو، وہاں اچھے خاصے خوش شکل بھی اپنی شکلیں بگاڑنے پر تل جاتے ہیں کہ یہی انسانی معاشرہ کی نفسیات ہے اور اسی کا رخ تبدیل کرنا قیادت کا کمال ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے بھی اس تاریخی انقلاب کا حوالہ دیا تھا کہ کبھی عربوں میں زیادہ سے زیادہ غلام رکھنے اور ان پر زیادہ سے زیادہ سختی کا فیشن تھا جس پر لوگ فخر کرتے لیکن پھر چشم فلک یہ دیکھ کر چندھیا گئی کہ وہی لوگ غلاموں کو خرید خرید کر انہیں آزاد کرنے کے ’’فیشن‘‘ میں مبتلا ہو کر اس پر فخر کرنے لگے۔

انسانی معاشروں میں ’’مقابلہ‘‘ بہرحال ناگزیر ہے۔ انسان ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ یہ ’’مقابلہ‘‘ خیر کے میدان میں ہے یا شر کے ….

خوبصورتی کے میدان میں جیتنا ہے یا بدصورتی کے تو اگر مقابلہ ہی صرف بدصورتی کا ہے تو پھر…’’بدصورتی سے کیا شرمانا‘‘بزرگ کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کی تین شناختیں ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جو اسے ورثہ میں ملتی ہے، اس کے باپ دادا کا پتا دیتی ہے۔

دوسری وہ جو اسے والدین سے ملتی ہے کہ اسے کس نام سے پکارا، یاد رکھا یا بھلا دیا جائے جبکہ تیسری اور اہم ترین شناخت وہ خود پیدا کرتا ہے۔

پدرم سلطان بود؟ چھوڑیں، ایک سے زیادہ بار یہ ریسرچ ہو چکی کہ دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ، ناقابل قبول لوگ کون ہیں اور کمال یہ کہ مڈل ایسٹ میں ناپسندیدہ ترین ’’قبیلہ‘‘ کون سا ہے۔

میں نے کچھ نہیں کہنا، خود ڈھونڈ لیں، چودہ اگست یاد آ جائے گا اور چودہ چودہ طبق بھی روشن ہو جائیں گے۔ صورتحال کو سمجھنے کا ایک سادہ سا طریقہ اور بھی ہے کہ دنیا کے تین ناخوشگوار ترین پاسپورٹ کون کون سے ہیں؟

بدصورتی سے کیا شرمانا؟بلکہ شرمانا کیا…. کرپشن کے جرم میں عدالت آتے جاتے وکٹری کا نشان بنانا نہ بھولئے اور جو یہ سعادت حاصل نہ کر سکے وہ وکٹری کے نشان والے کے ساتھ ’’سیلفی‘‘ بنوانا نہ بھولے تاکہ اسے دیکھ دیکھ کر ’’انسپائر‘‘ ہوتا رہے۔

یہاں یہ سوال بہت دلچسپ ہو گا کہ نقش و نگار اور کردار میں سپیریئر کیا ہے؟نقش و نگار کیا جسم کے نشیب و فراز بھی چند لاکھ کی مار ہیں۔ کوئی بھی درمیانہ سا کاسمیٹک سرجن چند لاکھ روپے کے عوض کسی شیداں کو شرمیلا ٹیگور اور میداں کو مارلن منرو بنا سکتا ہے۔

مائیکل جیکسن جیسے تو رنگت بھی تبدیل کرا لیتے ہیں لیکن دنیا بھر کی دولت اور مہارت مل کر بھی کسی کا کردار تبدیل نہیں کر سکے۔ اس کے لئے خود ہی جان مارنا پڑتی ہے جو ایک مشکل کام ہے اور میٹھی جان کو آرام کی ضرورت ہے اس لئےبدصورتی سے کیا شرمانا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے