لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ سے دھرنے تک کا سفر، اب کیا کرنا چاہیے؟

میرے نزدیک نیشنل ازم خود غرضی کی حتمی جہت ہے-
ہر شخص بنیادی طور پر اپنے بال بچوں ، ماں باپ ، بہن بھائیوں اور اسی ترتیب سے اقرباء سے آگے بڑھ کے ہمسائیوں ، اہل محلہ کے خیال رکھنے کا مکلف ہو سکتا ہے – اس کو کفیل کہہ سکتے ہیں – زندگی کی ضرورتیں اپنے زیر کفالت لوگوں کے احتیاج میں ہوتے ہوئے، اہل محلہ کے لئے وقف کر دینی انسانی فطرت نہیں ، کار خیر ضرور ہو سکتا ہے-

سماجی اور سیاسی سوچ بھی اسی طرح پروان چڑھتی ہے – ایک اچھا سماجی اور سیاسی ورکر اپنے محلے، گاؤں ، شہر اور ضلع کے مسائل اور سمت مقرر کرنے کی سوچ سے آگے بڑھ کر ریاست کی سمت اور فلاح و بہبود کے بارے میں اپنا تصور قائم کرتا ہے – اس کو حُب الوطنی کہیں یا نیشنل ازم ، میرے نزدیک دونوں ہم معنی ہیں –

فی زمانہ گلوبل ازم کے تصور نے حب الوطنی اور نیشنل ازم کی جگہ لے لی ہے – جس شخص کو جہاں بہتر مواقع نظر آتے ہیں وہ وہاں چلا جاتا ہے جس وجہ سے حب الوطنی کے روائیتی معنی ہی بدل گئے ہیں –

ریاست جموں کشمیر کا سیاسی مستقبل تا ہنوز فیصلہ طلب ہے – قانون کے تحت ریاست کے لوگوں کو اس کامستقبل ہندوستان یا پاکستان سے وابستہ کرنے کا حق دیا گیا ہے – لیکن منقسم ریاست کے دونوں حصوں میں پوری ریاست کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور قائم کرنے کی سوچ بھی بلا شبہ بہ آواز بلند پائی جاتی ہے اور اس سوچ کے لوگوں کو دونوں طرف یکساں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ہندوستان اور پاکستان ان کو نظر انداز بھی نہیں کرتے –

ریاست کے دونوں حصوں میں کشمیری تشخص پر ”الحاقی سیاست دانوں” نے بھی کبھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیا – مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ مرحوم ہوں یا اس کا بیٹا فاروق عبداللہ ، مفتی سعید مرحوم ہوں یا عبد الغنی لون مرحوم – آزاد کشمیر میں سردار ابراھیم مرحوم ہوں ، کے ایچ خورشید مرحوم یا سردار عبد القیوم مرحوم ، کشمیر کے تشخص کو بحال رکھنے کے سب سے بڑے داعی رہے- اس کے علاوہ نیشنل ازم اور کس کو کہتے ہیں ؟

جب ریاست کے مستقبل کا حل ہونا باقی ہے ، تو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ الحاق کے حق کے ساتھ نئی ”خود مختار ریاست” کی سوچ میں کیا برائی ہے ؟ اس کو اگر ہندوستان برائی سمجھے تو بات سمجھ آتی ہے کیونکہ وہ پوری ریاست کا دعوے دار ہوکر اس پر لوگوں کی خواہشات کے خلاف قابض ہے، پاکستان آئینی طور نہ تو ریاست کو اپنا حصہ کہتا ہے اور نہ ہی اس کے ہندوستان کے ساتھ جانے کے خلاف ہے، اگر ریاست کے لوگ یہی فیصلہ کرتے ہیں –

میرا آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے خود مختاری سوچ کے حامل لوگوں سے مکالمہ رہتا ہے، میں نے کسی خود مختارئیے کے دل میں ہندوستان کے لیے رتی بھر ہمدردی یا سوچ نہیں پائی- ہر چھوٹے بڑے کارکن اور لیڈر کی خواہش خود مختار کشمیر نہ بننے کی صورت میں پاکستان ہی ان کی آپشن ہے –

میری زاتی سوچ ، ریاست کے دونوں حصوں کے زمینی حقائق کیے ذاتی علم اور تجربے کی بنیاد پر لبریشن فرنٹ اور اقتدار پرست ریاستی سیاست دانوں سے یکسر مختلف ہے – لیکن لبریشن فرنٹ کی سوچ کوئی جرم کوئی گناہ نہیں ، یو این چارٹر اس سوچ کو تسلیم کرتا ہے اور ایسی سوچ رکھنے والے نفسیاتی اور فطری طور ” خود غرضی کے سفر سے نیشنل ازم کے سفر کی طرف رواں دواں” ہیں –

لبریشن فرنٹ کے کریڈٹ میں یہ بات جاتی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں اسی نے مسلح جدوجہد شروع کی اور مرحوم جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اسی کو اس قابل سمجھ کر اس وقت اس کی سپورٹ کی – اس کے کریڈٹ میں کشمیر کی راہ میں ہندوستانی کے پھانسی گھاٹ میں مقبول بٹ مرحوم اور افضل گورو کی شہادت بھی ہے-

1992 میں چکوٹھی سیکٹر میں ہی علی الا علان سرحد عبور کر کے قربانی اور شہادت قبول کرنا بھی اسی کا مقدر رہی ہے – ( میں اس وقت بھی بوجوہ اس کے حق میں نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہوں)- اس کے خود مختار کشمیر کے واضح موقف اور ہندوستانی فوج کے خلاف بندوق اٹھانے کے باوجود پاکستان کے خلاف کبھی بندوق نہیں اٹھائی اور پاکستان کے اندر افغان مہاجرین کی طرح کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا-دنیا کی مسلح جد جہد کے خلاف سوچ بدلنے کے ساتھ ہی اس نے مسلح جدو جہد چھوڑ دی-

جب 1992 میں لبریشن فرنٹ نے جنگ بندی لائین کراس کرنے کا اعلان کیا اور پھر عملی طور ایسا کیا بھی، میرا اس وقت بھی یہی موقف تھا اور آج بھی یہی ہے کہ یہ خودکشی کے مترادف ہونے کے علاوہ پاکستان کی عالمی زمہ داریوں کے خلاف ہے، جس نے 1949 کے جنگ بندی لائن کو تسلیم کیا ہے اور شملہ معاہدہ کے تحت اس کے احترام کی زمہ داری بھی اٹھائی ہے –

آزاد کشمیر بین الاقوامی اور ملکی قانون کے تحت پاکستان کے دفاعی حصار میں ہے ، وہ ایسا نہ ہونے دینے کا پابند ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جنگی عمل ہے اور اعلان جنگ ہے ، جو کسی کے مفاد میں نہیں-

مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تیس سال سے جس ظلم و جبر کا لوگ مردانہ وار مقابلہ کر کے اپنی جان ، مال اور عزت کی قربانیاں دے رہے ہیں اور دو ماہ سے کرفیو، قید و بند ، ہر طرح کی پابندیوں کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ، اس کا ہم آزاد دنیا والے تصور بھی نہیں کر سکتے- عالمی میڈیا کے ذریعہ جو رپورٹیں سامنے آتی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں-

ایسے حالات میں لبریشن فرنٹ ہی نہیں، سب کے جذبات ایک جیسے ہیں – محصور بہن بھائیوں ماؤں اور بچوں کی مدد کو پہنچنا سب کا فرض اورقرض ہے – سب کا مارنے اور مرنے پر دل کرتا ہے ، لبریشن فرنٹ نے علم بلند کرکے سب کے جذبات کی عکاسی کی ہے ، سب ہی اہل دل ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں – یہ لوگ تنظیمی طور اقتدار کی سیاست بھی نہیں کرتے کہ ان کا یہ قدم سیاسی چال ہو- یہ ایسا کچھ کرتے چلے آرہے ہیں – اس میں خلوص کو تلاش کریں ، سیاسی مکر کو نہیں – ان کے جذبے کی توقیر واجب ہے -انہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کے مرحوم جنرل کی اپیل پر پاکستان کی مدد کی ہے-

لبریشن فرنٹ کے لوگوں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کے یو این جانے سے پہلے یہ مارچ کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن وزیراعظم کی اس اپیل پر کہ ان کے یو این میں تقریر تک اس کو ”موخر کریں ” ، یہ مارچ مؤخر کردیا- انہوں نے وہاں کشمیریوں کی بھرپور سفارت اور وکالت کی، جو یاد گار ہے- لیکن اس وقت تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور مقبوضہ کشمیر پر سختیاں زیادہ کی جا رہی ہیں-

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تقریر کے فالو اپ کے ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہوتا جو نہ ہونے کی صورت میں ان لوگوں نے دوبارہ آزادی مارچ کا پروگرام بنایا اور اس پر عمل پیرا ہیں- جلتی پر تیل کے طور وزیر اعظم کے اس ٹویٹ نے کام کیا کہ ”لائین آف کنٹرول کراس کرنے والے ہندوستان کے ہاتھوں میں کھیلیں گے”، ان کے الفاظ کا انتخاب مناسب نہیں تھا لیکن مقصد یہ نہیں ہو سکتا تھا جو اخذ کیا گیا کہ یہ لوگ ہندوستان کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں بلکہ اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس عمل سے ہندوستان کے ہاتھ مضبوط ہوسکتے ہیں ، جو یہ الزام لگا سکتا ہے کہ یہ پاکستانی اعانت سے ہورہا ہے-

ایسے حالات میں مناسب یہ ہے پاکستان کی سیاسی قیادت بالخصوص جن کے ہا تھ میں زمام اقتدار ہے ، بشمول آزاد کشمیر کی قیادت کے ، ان لوگوں کے پاس جا کر ان کو یو این جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد کے اور مستقبل میں ہونے والے اقدامات پر اعتماد میں لیں، اس سلسلے میں ان کی قابل عمل تجاویز پر عمل اور باقی پر غور کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ان کو باعزت طور واپس جانے کی اپیل کرے اور ان لوگوں کو پوری قوم کے جذبات کا احترام کرکے دھرنے کو ختم کرنا چاہیے – ان کی عزت نفس اور اس بے لوث کوشش پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے – اس کا ہر شخص اور ہر ادارے کو ادراک کرنا چاہئیے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے