افغانستان میں امن

2 ستمبر کو امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے مسودے کی بات کی‘جس بابت تقریباً ایک سال تک مذاکرات ہوئے۔ کابل میں حملے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 7 ستمبر کو اچانک مذاکرات ختم کرنے پر مجبور کردیا‘ جس کا مقصد افغانستان میں اپنے 18 سالہ تنازع کو ختم کرنے کیلئے طویل عمل شروع کرنا تھا‘ تاہم دونوں ممالک کے سیاسی سمجھوتے اورمشترکہ ضرورت کی وجہ سے امریکی طالبان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوناناگزیر تھا۔ دونوں اطراف کے عہدے دار 2 اکتوبر کو پاکستان پہنچے‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سب جلد ہی دوبارہ مل جائیں گے۔

عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب تک کابل میں حکومت طالبان کے ساتھ اپنے ”انٹرا افغان‘‘ فائربندی کے معاہدے کوپایۂ تکمیل تک نہیں پہنچاتی‘ اس وقت تک جنگ جاری رہے گی۔ اس سے قطع نظر کہ امریکہ‘ جس تنظیم کے ساتھ جو بھی معاہدہ کرے۔ افغانستان میں امن کی تقدیر اس بات پرمنحصر ہوگی اور عین ممکن ہے کہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والا طالبان کے ساتھ اپنا معاہدہ کامیابی کے ساتھ طے کر لے۔

28 ستمبر کو افغان صدارتی انتخابات کے موقع پر صرف 25 لاکھ افغانیوں نے ووٹ ڈالے ‘ جبکہ ملک کے 2014ء کے متنازع انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے افراد کی تعداد7 لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ حالیہ رائے شماری کے ابتدائی نتائج کی توقع 17 اکتوبر کو متوقع ہے‘ لیکن صدارتی انتخابات میں آنے والے دو اہم امیدواروں؛ اشرف غنی اور ان کے مرکزی حریف عبد اللہ عبد اللہ نے پہلے ہی دعویٰ کر دیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی بنا پر واضح اکثریت حاصل کر لیں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرونی استحکام جو لائے گا‘ بالآخر وہی اقتدار سنبھالے گا۔ حکومت کے مسابقتی نمونوں پر ایک بنیادی بحث کی صورت اختیار کرے گا اور ملک میں تاریخی طور پر غالب پشتونوں سے دورِ اقتدار کے توازن میں ردوبدل کا امکان پیش کرسکتا ہے۔

غنی پشتونوں کی ایک طویل وراثت کا حصہ ہیں‘ جنہوں نے 1919 ء میں اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد سے افغانستان پر بڑے پیمانے پر حکمرانی کی۔ اپنے پشتین پیشرو حامد کرزئی کی طرح‘ غنی نے بھی ایک صدارتی نظام کی حمایت کی ہے ‘جو انتظامی طاقتوں کی حمایت کرتی ہے‘ جو ضروری طاقتوں کے ساتھ ضروری ہے۔ پیش قدمی ‘اصلاحات‘ اتحاد کو برقرار رکھنے اور بااثر علاقائی سیاستدانوں کے چیلنجوں کو کمزور کرنا ‘ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ دوسری طرف‘ عبد اللہ عبداللہ ایک تاجک ہیں‘ جو افغان آبادی کا تقریباً 25 فیصد (ازبک اور ہزارہ‘ دیگر اہم نسلی اقلیت گروہ ہیں‘ جن کی تعدادقریباً 10 فیصد ہے) غنی کے برعکس‘ وہ پارلیمانی نظام کے تحت ایک ماڈل کے حامی ہیں ‘جو علاقوں کو اختیارات منتقل کرتا ہے۔

دو مسابقتی حکمرانوں کے تاریخی طور پر افغانستان کے سیاسی استحکام پر زبردست مضمرات ہیں اور وہ امریکی مداخلت سے قطع نظر‘ ملک میں دیرپا امن کے امکانات کے بارے میں بصیرت فراہم کرسکتے ہیں۔ 1929ء میں باقاعدہ ملک کی حیثیت سے آغاز کرنے والا افغانستان غیر منحرف ماڈل کے تحت چلتا رہا ہے‘ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ اور ایشیاء کے وسیع حصے پر تشدد تنازعات میں گھرے ہوئے تھے‘ لیکن 1978ء میں‘ افغانستان کی کمیونسٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بغاوت کا اعلان کیا اور تیزی سے معاشرتی اصلاحات کو فروغ دینے کیلئے مرکزی حکمرانی کا ایک ورژن نافذ کیا۔ اس نے ملک گیر بغاوت کو جنم دیا ‘ 1979ء میں سوویت حملے کے نتیجے میںاور اس کے بعد 1989ء میں افغان خانہ جنگی کا آغاز ہوا اوربالآخر 1992 ء میں مذکورہ بالا پارٹی کا خاتمہ ہوگیا۔

خانہ جنگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی وجہ سے تحریک ِطالبان نے 1996ء میں کابل پر فتح حاصل کر لی اور پانچ سال بعد‘ امریکہ نے القاعدہ کو پناہ دینے والی طالبان حکومت کو ختم کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد جنگ کا آغاز ہوا ‘جس نے تین امریکی انتظامیہ کو محیط کردیا‘ جس کی وجہ سے واشنگٹن کا اب تک کا سب سے طویل تنازع چلا آرہاہے۔ 2001 ء میںبظاہر طالبان کو شکست دینے کے بعد تصفیہ طلب بون معاہدہ بھی ہوا‘ جس میں صدر حامد کرزئی کی حکومت کے ایک مرکزی ماڈل کے طور پر سامنے آئی ‘تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ کئی دہائیوں کی جنگوں سے بکھری ہوئی ریاست کی تعمیر نو کیلئے یہ معاہدہ سب سے زیادہ سازگار ہوگا۔

لیکن بدعنوانی کے الزامات نے حامد کرزئی کے 13 سالہ دور اقتدار میں رکاوٹ پیدا کردی‘ جس نے طالبان کو حکومت کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم‘ سلامتی اور انصاف جیسے شعبوں میں خدمات کی فراہمی کیلئے مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ۔ امریکی فوج نے 2002ء کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے وسائل کو افغانستان سے عراق منتقل کرنا شروع کر دیا تھا‘ جس سے طالبان کو دوبارہ تشکیل نو کیلئے اور بھی گنجائش مل گئی۔اس کے نتیجے میں 2010ء میں جب تنازعات عروج پر تھے‘ امریکہ ایک لاکھ سے زیادہ فوج تعینات کرنے کے باوجود طالبان کو ختم کرنے میں ناکام رہا ۔کئی ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں‘امریکہ کے ساتھ ساتھ طالبان کی امن معاہدے کیلئے باہمی خواہش دونوں فریقوں کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لاسکتی ہے۔

فوجی فتح کے حصول کی حدود کا تجربہ کرنے کے بعد‘ واشنگٹن سیاسی تصفیے کو واحد قابل عمل آپشن کے طور پر دیکھتا ہے اور آخر کار تنازع کو ختم کرنے کیلئے تگ و دو کر رہا ہے۔امریکہ جنگ بندی کے بدلے اپنے فوجی اڈوں کی موجودگی پر بضد ہے۔ طالبان اپنی طرف سے اپنے ہی اہم مقصد‘ یعنی افغانستان میں اس وقت موجود تمام امریکی‘ نیٹو اور دیگر غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کی حمایت میں کسی معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔

ان تمام حالات میں افغانستان کے 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں فاتح جوبھی ہو‘ طالبان سے مذاکرات کو دوبارہ زندہ کرنے میں مدد کرسکتا ہے‘ لیکن فاتح ملک کی طرز ِحکمرانی کو بھی سمجھناہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے