کاش عمران خان 500 لوگوں کو جیل میں ڈال سکتے

وزیر اعظم پاکستان نے دورہ چین کے موقع پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ چین نے 400 کرپٹ وزراء کو جیل میں ڈالا ، کاش میں بھی 500 کرپٹ لوگ جیل میں ڈال سکتا ۔ اس بیان کا حاصل چند سوالات ہیں ۔

پہلا سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کو کس نے بتایا کہ چین نے 400 وزراء کو جیل میں ڈالا ؟ حقیقت یہ ہے کہ چین میں کرپشن کے خلاف جاری مہم میں اب تک صرف 2 وزراء کو سزا سنائی گئی ہے۔ لی ڈانگ شنگ ، جنہیں پندرہ سال قید ہوئی اور جیانگ جی من جنہیں سولہ سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ صوبائی سطح پر وزراء کو بھی سزائیں سنائی گئیں ہیں لیکن ان کی تعداد ملا کر بھی درجنوں میں ہے ۔ کرپشن کے خلاف اس بھر پور مہم میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں کو سزا ہوئی ہے۔ ان میں زیادہ تعداد سرکاری ملازمین ، پارٹی کے عہدہ داروں اور فوجی افسران کی ہے ۔ یہ چار سو وزراء کہاں سے آ گئے؟

دوسراسوال یہ ہے کہ وہ جب بھی بیرون ملک دورے پر تشریف لے جاتے ہیں کرپشن ہی کو کیوں موضوع بحث بناتے ہیں ۔ چین نے اتنے سارے لوگ کرپشن کے خلاف مہم چلا کر جیل میں ڈال دیے لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ چینی صدر یا وزیر اعظم نے بیرون ملک کسی دورے پر یہ رونا رویا ہو کہ میرے ملک کا تو کرپشن نے ستیا ناس کر دیا ؟ بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشور منگ یانگ پی کے مطابق چین میں سالانہ کرپشن کا حجم 86 ارب ڈالر ہے۔ کرپشن چین کا سب سے بڑا ایشو ہے لیکن چین نے اپنے گندے کپڑے کبھی بیرون ملک کھڑے ہو کر نہیں دھوئے ۔ ہم یہ تاثر دینے پر کیوں تل گئے ہیں کہ پاکستان میں تو سبھی کرپٹ ہیں اور اب پہلی بار کرپشن کے خلاف اقدامات لینے والا وزیر اعظم اللہ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ (لیکن وہ بھی بے بس ہے) .

تیسرا سوال یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے چین اور سعودی عرب کے اقدامات ہی کو مثال بنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق کرپشن سے پاک ممالک میں یا یوں کہہ لیں کہ کم تر کرپٹ ممالک میں پہلا نمبر ڈنمارک کا ہے۔ پھر نیوزی لینڈ ، فن لینڈ ، سویڈن ، سوئٹزرلینڈ ، سنگا پور ، ناروے ، نیدر لینڈ ، کینیڈا، لگسمبرگ اور جرمنی کے نام آتے ہیں ۔ ان ٹاپ ٹین تو کیا ٹاپ ففٹی میں بھی چین اور سعودی عرب کا نام نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے چین اور سعودی عرب کی مثالیں دی جاتی ہیں؟

چوتھاسوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم بیرون ملک کھڑے ہو کر بے بسی سے کہتے ہیں کہ کاش میں بھی پانچ سو لوگوں کو جیل میں ڈال سکتا تو کیا انہیں احساس ہے وہ کیا تاثر دے رہے ہوتے ہیں ؟ کیا وہ دنیا کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ یہاں بہت کرپشن ہے اور میں بھی بے بس ہوں کسی کو جیل میں بھی نہیں ڈال سکتا ؟ اس تاثر کے بعد کیا سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرے گا کہ چونکہ یہاں کرپشن بہت ہے اور وزیر اعظم بے بس ہو چکا ہے اس لیے سرمایہ کاری کے لیے اس سے سازگار ماحول دنیا میں کہیں نہیں مل سکتا ؟

پانچواں سوال یہ ہے کہ بے بسی کے اس اظہار میں کتنی صداقت ہے؟ آصف زرداری جیل میں ہیں ۔ نواز شریف جیل میں ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی جیل میں ہیں ۔ یعنی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ ، سابق صدر ، دو سابق وزرائے اعظم جیل میں ہیں ۔ ملک میں ایک نظام موجود ہے اس نظام کے تحت گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں اور سزائیں بھی سنائی جا رہی ہیں ۔ آپ اظہار بے بسی کس بنیاد پر کر رہے ہیں ؟

چین میں کرپشن کے خلاف مہم صرف تقاریر اور ٹویٹس تک محدود نہیں ۔ بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے 52 نکاتی ضابطہ اخلاق بنا رکھا ہے ۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ چھٹا سوال یہ ہے کہ ایسا ہی ایک ضابطہ اخلاق آپ بھی کیوں نہیں بنا لیتے؟ حالت تو یہ ہے کہ اکبر ایس بابر نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کیا تو تحریک انصاف نے سکروٹنی خفیہ رکھنے کی درخواست کر دی اور تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے ۔ بی آر ٹی ایک لطیفہ بن چکا ، آپ نے کسی کے خلاف جماعتی سطح پر کوئی کارروائی کی ؟ آپ اپنی کابینہ کے کسی ایک رکن کو تو جیل بھجوا کر دکھائیں ۔ جہاں کابینہ کے اختیارات آپ کو منتقل ہو سکتے ہیں وہاں کون آپ کو روک سکتا ہے؟ پھر بھی کوئی رکاوٹ ہے تو صدارتی آرڈی ننس لائیے۔ جسے آپ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے وہ تو پنجاب میں اہم منصب پر فائز ہے ۔ اور آپ کو معلوم ہے اس پر ہاتھ ڈالا تو اقتدار کا گھونسلا اجڑ جائے گا۔

ساتواں سوال یہ ہے کہ آپ کو مزید کتنے اختیارات چاہییں ۔ سنگین ترین مقدمات میں بھی جسمانی ریمانڈ کی مجموعی مدت پندرہ دن ہے لیکن نیب کے قانون کے تحت محض الزام پر کسی کو بھی 90 دن تک جسمانی ریمانڈ پررکھا جا سکتا ہے۔ نیب آرڈی ننس کی دفعہ 9(b) کے تحت نیب کے ملزم کی کوئی عدالت ضمانت نہیں لے سکتی ۔اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود یہ قانون آج تک درست نہیں کیا گیا اور آج بھی عدالتیں آرٹیکل199 کے تحت آئینی پیٹیشن میں اس مسئلے کا حل نکال رہی ہیں ۔ کمال یہ ہے کہ یہ قانون 1999ء میں آیا لیکن اس کی دفعہ 2میں لکھا ہے کہ اس قانون کو یکم جنوری 1985ء سے لاگو سمجھا جائے۔ اب بیرون ملک اپنی حسرتوں کی تصویریں آویزاں کرنے سے بہتر نہ ہوتا وزیر اعظم پارلیمان میں تشریف لاتے اور بتاتے انہیں مزید کتنے اختیارات چاہئیں اور ان کی نوعیت کیا ہے؟

آٹھواں اور آخری سوال یہ ہے کہ کرپٹ عناصر کی سرکوبی کے لیے جب نیب جیسا ادارہ موجود ہے تو لوگوں کو جیل میں ڈالنے کی ذمہ داری متعلقہ اداروں کی ہے یا وزیر اعظم کی؟ آپ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں یا اپنی ذات کو اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا نا چاہتے ہیں؟ آ پ جسے چاہیں خلعت اوڑھا دیں جسے چاہیں کفن پہنا دیں؟ آپ کی نگاہ ناز جس گستاخ کی طرف اٹھ جائے اس کا سر قلم کر کے نالہ لئی میں پھینک دیا جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے