ہم غریب کیسے ہوئے؟

آج بارہ اکتوبر ہے۔ ٹھیک بیس برس پہلے آج ہی کے دن نواز شریف کو ایوانِ وزیر اعظم سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کل 11اکتوبر 2019کو نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور احتساب عدالت نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر نیب حکام کے سپرد کر دیا۔ روز بدلی جاتی ہیں کڑیاں مری زنجیر کی۔ 20برس کے اس سفر میں 10ستمبر 2007کا ایک پڑاؤ بھی ہے جب نواز شریف کو جلا وطنی سے واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر حراست میں لیا گیا تھا۔ ٹھیک سو برس پہلے 1919میں علی برادران رہا ہوئے تو استقبالیہ جلسے میں اقبال نے خراج تحسین پیش کیا تھا، ’’ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند‘‘۔ 1955میں فیض صاحب پنڈی سازش کیس سے رہا ہوئے تو احمد ندیم قاسمی نے خیرمقدم کرتے ہوئے فیض کا جرم بھی بیان کیا تھا، کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام/ ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں۔ یہ بے ساختگی عروج آدم خاکی کا استعارہ ہے۔ کلام کی آزادی قوم کے امکان کی بازیابی ہے۔ جمہور کے حقِ حکمرانی کی لڑائی ہے۔

ایک مظلوم کی یاد آتی ہے۔ 1977میں آج ہی طرح خزان رت اتر رہی تھی۔ بھٹو صاحب 3ستمبر کو گرفتار ہوئے، 10ستمبر کو جسٹس صمدانی نے ضمانت منظور کی، 13ستمبر کو پھر گرفتار ہوئے اور پھر قیدِ حیات سے چھوٹنے تک رہائی نصیب نہیں ہوئی لیکن ہماری تاریخ میں ایسا آزاد کوئی کیا ہو گا کہ 40برس بعد بھی روشناس خلق چلا آتا ہے۔ طاقت کے خمار میں ناانصافی کرنے والوں کا غبار تک باقی نہیں۔ کسی کو مولوی مشتاق کی میراث پر دعویٰ ہے اور نہ امریکہ میں مسعود محمود کی گمنام موت یاد ہے۔ اسلام آباد کی معروف مسجد میں آمریت کی تربت تاریخ کے ملبے تلے دب چکی۔

سیاست دان ایک عجیب مخلوق ہے۔ عامی نظر اقتدار کا تام جھام دیکھتی ہے، اس لاؤ لشکر کے ہنگام میں وہ جوہر کہیں سات پردوں میں پوشیدہ ہوتا ہے جس کی خبر وقائع نگار صحافی کو ہوتی ہے اور نہ منظور شدہ تاریخ لکھنے والا یہ راز جانتا ہے۔ لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی حریف سمجھے جاتے تھے۔ ایک متحدہ بنگال کا وزیر اعظم، اگست 46کے کلکتہ فسادات کا مصنف، پھر فسادات روکنے کے لئے گاندھی جی کی معیت میں گاؤں گاؤں پھرنے والا، پھر اپنے ہاتھوں بنائے ملک میں غدار قرار پانے والا، کل ملا کے ایک برس کی وزارت عظمیٰ اور کرپشن کے الزام میں چھ برس قید، ایوب خان کے نام بے بسی میں لکھا مکتوب اور دیارِ بیروت میں پراسرار موت۔ ادھر لیاقت علی خان، کرنال کا تعلقہ دار، آکسفورڈ میں تعلیم، قائداعظم کا دست راست، پاکستان کا پہلا وزیراعظم اور شاید واحد بااختیار وزیراعظم، سید اکبر کی گولی کا نشانہ بنتے وقت مکمل سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ پاکستان کا پہلا قتل تھا جس میں سارے شہر کے ہاتھ خون آلود تھے۔ سیزر کو اکیلے بروٹس نے قتل نہیں کیا، اس جرم میں روم کا ہر سینیٹر شریک تھا۔

لیاقت علی خان کی کل پونجی موازی 106روپے، دہلی کا بنگلہ گل رعنا وہ پاکستان کی نذر کر چکے تھے۔ ایک تقریر میں لہو دینے کا وعدہ کیا تھا، پورا کر دیا۔ سیاست دان لہو کی اس بوند سے جنم لیتا ہے جو ایک حرارت بھرے دل میں ہنگامہ آرا ہوتی ہے۔ بدقسمت ہے وہ قوم جو سرکاری اہلکاروں سے قومی نصب العین کے تعین، قومی مفاد کے تحفظ اور قومی تعمیر کی امید باندھتی ہے۔ سیاست دان بظاہر سرلشکر رونق دیتا ہے، دراصل بحران کی کٹھنائیوں میں بے چہرہ انسانوں کو ساتھ لے کر اس وادی تک لے آتا ہے جہاں قوم کا ہر فرد علم، ادارے، ضابطے اور پیداوار کے اثاثوں سے بہرہ مند ہو سکے۔ سیاست دان اپنی زندگی کو بامعنی کرتا ہے اور اپنی قوم کو ثروت مند۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری امیر لوگ ہیں۔ انہوں نے پیسے کی ہوس میں اس ملک کو لوٹ کے کنگال کر دیا۔ کرپشن کے نت نئے ڈھنگ ایجاد کرتے ہیں۔ درویش تصدیق یا تردید کا یارا نہیں رکھتا۔ البتہ جانتا ہے کہ پاکستان کے امیر ترین افراد کی فہرست میں ان دونوں کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ امیر لوگ تو اقتدار کے اعلیٰ ترین سرچشموں تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ انہیں دولت کے انبار بڑھانے کے لئے جلسے جلوس کرنا پڑتے ہیں اور نہ ووٹ کی بھیک مانگنا ہوتی ہے۔ قوم نے پچھلے دنوں ایسے امیر لوگوں کی بلند آشیانی بچشم خود ملاحظہ کی۔ سیاست دان تو غریب شہر ہے جو اپنی قوم کی غربت سے سانجھ بناتا ہے۔

غربت کیا ہے؟ تعلیم، دوا، روزگار اور احترام سے محرومی غربت ہے۔ انصاف سے محرومی غربت ہے اور اس محرومی سے نجات کا اختیار نہ ہونا غربت ہے۔ اس غریب کو یاد کیجئے جس نے کہا تھا، میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں جہاں بارش میں چھت ٹپکتی ہے۔ غریب کے بے چراغ گھر اور سیاست دان کی اندھیری قید کوٹھڑی میں براہ راست تعلق ہے۔ راولپنڈی باغ کے اندر اور دروازے پر شہادت نصیب ہو، پنڈی جیل میں بھٹو کو پھانسی ملے یا اٹک قلعے میں نواز شریف کو محبوس کیا جائے، آصف زردای پر منشیات کا مقدمہ ہو یا رانا ثناءاللہ سے ہیروئن برآمد کی جائے، عطا اللہ مینگل سے اختر مینگل تک، نواز شریف سے مریم نواز تک، خواجہ رفیق سے سعد رفیق تک، یہ ان اڑھائی کروڑ بچوں کی غربت ہے جو اسکول سے محروم ہیں، اس صحافی کی غربت ہے جس کا قلم نادیدہ اور ناشنیدہ کے ہاتھوں رہن ہے، اس ماں کی غربت ہے جس کے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

پاکستان کے رہنے والے غریب ہیں کیونکہ ان کے نمائندے غریب ہیں۔ یہ جسے ووٹ دے دیں، وہ غریب ٹھہرتا ہے۔ روپے پیسے کی کرپشن کا کماحقہ حساب لینے کے لئے اختیار کی کرپشن کا احتساب ضروری ہے۔ اس احتساب سے ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع ہو سکے گا۔ ہمارے 22کروڑ ہمسائے کے ایک ارب 22کروڑ کی طرح استحقاق کی بنیاد پر اپنا حصہ لے سکیں گے تو آصف زرداری کی ہتھکڑی کھل جائے گی، ہمارے بچوں کی محرومی سے خجل ماں کی افسردگی دور ہو سکے گی تو نواز شریف بھی غریب نہیں رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے