ریاست مدینہ

رسول اللہ ﷺ سے عشق ہمارا ایمان بھی ہے اور دنیا اور آخرت میں ہماری اصل متاع بھی لیکن ہم میں کون کتنا عاشق رسولؐ ہے یہ خالصتاً پرائیویٹ افیئر ہے اور یہ افیئرہمیشہ اللہ‘ رسولؐ اور عاشق کے درمیان رہتا ہے چناں چہ میں کتنا بڑا عاشق رسولؐ ہوں یا مجھے خاک مدینہ سے کیا نسبت ہے یہ فیصلہ بہرحال اللہ اور رسولؐ کریں گے تاہم یہ حقیقت ہے میں ٹیلی ویژن چینلز کے127 اینکرز میں واحد اینکر ہوں جو اپنے پروگرام کا آغاز درود شریف سے کرتا ہے۔

میں روز درود شریف کی ایک تسبیح بھی کرتا ہوں‘مجھے مدینہ منورہ کی گلیوں میں بارہا اپنی ذات کی تلاش میں گم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور عاشقان رسولؐ کے مزارات پر حاضر ی ‘ ملاقات اور ساتھ سفر کے بے شمار مواقع بھی ملے‘ میں نے ان سے کیا سیکھا یہ بھی ایک پرائیویٹ افیئر ہے لیکن نسبت رسولؐ اور عشق رسولؐ کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم ریاست مدینہ کا علمی‘ عقلی اور سماجی جائزہ نہیں لے سکتے اور ہم اس جائزے کی بنیاد پر اپنے فکری مغالطوں کی تصحیح نہیں کر سکتے مثلا آپ مدینہ شہر کو لے لیجیے‘ مدینہ کیا تھا؟ مدینہ یثرب تھا‘ ایک چھوٹی سی بستی تھی جس میں غربت اور بیماری کے سوا کچھ نہیں تھا۔

یہ میرے رسولؐ تھے جنہوں نے اس بستی میں قدم رکھا اور یثرب کو مدینہ بنا دیا‘ ہمارے رسول اکرم ؐ اگر یہاں تشریف نہ لاتے تو آج لوگ مدینہ کے نام تک سے واقف نہ ہوتے اور یہ اگر یمن تشریف لے جاتے تو آج یمن مدینہ ہوتا پھر اہم ترین کون ہیں؟ میرے رسولؐ ہیں‘ وہ رسولؐ جن کی انگلی کے اشارے سے چاند مقدس ہو گیا اور یثرب کی ریت سرمہ بن گئی لہٰذا اہم بلکہ اہم ترین صرف اور صرف رسول اللہﷺ ہیں چناں چہ میں آج اس نسبت سے وزیراعظم عمران خان کے سامنے چند سوال رکھنا چاہتا ہوں‘ میں اسلام اور سیرت کے طالب کی حیثیت سے صرف جاننے کے لیے ان سے پوچھنا چاہتا ہوں‘آپ فرمائیے کیا رسول اکرمؐ نے واقعی کسی ریاست کی بنیاد رکھی تھی؟

میں نے جتنی تاریخ پڑھی اللہ تعالیٰ نے اس میں صرف دو انبیاء کو ریاست عنایت کی تھی‘ حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ یہ دونوں نبی بھی تھے اور حکمران بھی‘ میرے ناقص علم کے مطابق باقی تمام انبیاء صرف بنی تھے اور لوگ ان کی امت‘ دو‘ کیا ریاست مدینہ صرف مدینہ کی ریاست تھی یا پھر یہ اسلامی ریاست تھی اور کیا یہ پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے شروع نہیں ہوئی تھی اور کیا یہ حضرت علیؓ پر جا کر ختم نہیں ہوگئی تھی اور کیا اس کے بعد ملوکیت کا آغاز نہیں ہو گیا تھا اور کیا ملوکیت کا دور آج تک جاری اور ساری نہیں ؟ تین‘ آپ جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں توکیا آپ نبی اکرمؐ کی 10سالہ مدنی زندگی کی بات کرتے ہیں یا پھر آپ چار خلفاء راشدین کے زمانے کو یاد کرتے ہیں‘ آپ کی نظر میں کون سے ادوار ریاست مدینہ ہیں؟ چار‘ کیا آپ پاکستان کو نبی اکرمؐ کے دس سالہ مدنی دور کے مطابق ریاست بنانا چاہتے ہیں یا پھر آپ چار خلفاء راشد کے ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں‘ پانچ‘ آپ اگر ریاست کو نبی اکرم ؐ کے دس سالہ مدنی دور کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے؟کیوں؟

کیوں کہ ہمارا ایمان ہے وہ دور صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کا دور تھا‘ دنیا میں وہ دور آپؐ سے پہلے آیا اور نہ آپؐ کے بعد آئے گا‘ ہم حقیر خاکی لوگوں میں کس میں جرات ہے یہ رسول اللہ ﷺ کا مدینہ بنا سکے‘ اللہ نے یہ اعزاز صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کو بخشا تھا اور یہ نعمت ان کی ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی سو گئی تھی اور آپ اگر خلفاء راشدین کے دور کو ریاست مدینہ سمجھ رہے ہیں تو کیا آپ نے ان ادوار کا پوری طرح مطالعہ کیا؟ کیا آپ جانتے ہیں ان ادوار میں وہ اختلافات پیدا ہوئے تھے جن کے اثرات 14سو سال سے جاری ہیں اور شاید اگلے 14 سو سال بھی جاری رہیں‘ اس دور میں حضرت عمر فاروق ؓ مسجد نبوی میں شہید کر دیے گئے تھے‘ حضرت عثمان غنیؓ کو مدینہ منورہ میں ان کے گھرمیں شہید کر دیا گیا تھا اور آپؓ کا جسد انور تین دن قرآن مجید پر پڑا رہا تھا۔

اس دور میں حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگ جمل اور حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگ صفین ہوئی تھی اور حضرت علیؓ اپنا دارالحکومت مدینہ سے کوفہ منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ اس دور میں چار خلفاء راشدین میں سے تین خلفاء خلافت کے دوران شہید کر دیے گئے تھے اور آخر میں کربلا کا ایسا خوف ناک واقعہ پیش آگیا تھا جس پرآج بھی تاریخ ماتم کرتی ہے چناں چہ آپ کے لیے یہ فیصلہ بہت ضروری ہے آپ اپنی قیادت میں قوم کو کس ریاست مدینہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں‘ کیوں کہ مسلمان14 سو سال بعد بھی خلفاء راشدین کی خلافت پر متفق نہیں ہیں‘ امت میں آج بھی درجنوں فرقے موجود ہیں اور ان فرقوں کی شروعات ان ادوار میں ہوئی تھی اورچھٹا اور آخری سوال ‘کیا خلفاء راشدین کے بعد اسلامی تاریخ میں آج تک کوئی اسلامی ریاست قائم ہو سکی اور اگر ہوئی تو کیا پوری امت اس پر متفق تھی؟۔

ہم وزیراعظم کو حسن ظن کے نمبر دے دیتے ہیں اور یہ سوچ لیتے ہیں یہ نبی اکرمؐ کے دس سالہ مدنی دور کو ریاست مدینہ سمجھتے ہیں اور یہ ویسی ہی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں‘ یہ بہت ہی اچھی بات ہے اگر عمران خان یہ کر گئے تو یہ14 سو سال کا فکری اور تہذیبی مسئلہ حل کر نے والے پہلے مسلمان حکمران ہوں گے اور تاریخ انھیں ہمیشہ سنہری لفظوں میں یاد کرے گی تاہم وزیراعظم کو یہ ضرور یاد رکھنا ہو گا نبی اکرمؐ کے دس سالہ مدنی دور میں مدینہ میں کوئی اسٹیٹ بینک‘ کوئی شیڈولڈ بینک‘ کوئی انشورنس کارپوریشن‘ کوئی آئی ایم ایف‘ کوئی ورلڈ بینک‘ فیملی پلاننگ کا کوئی ادارہ‘ کوئی ہائی وے‘ کوئی پی آئی اے‘ کوئی اسٹیل مل‘ کوئی ایف بی آر‘ بجلی‘ گیس اور پانی کا کوئی ادارہ‘کوئی انڈسٹری‘ کوئی ریگولر آرمی‘ کوئی پولیس‘ کوئی ایف سی‘ کوئی وزیراعظم آفس‘ کوئی ایوان صدر‘ کوئی کابینہ‘ کوئی اخبار‘کوئی ٹیلی ویژن‘ ٹویٹر اور فیس بک‘کوئی ٹیلی فون‘ موبائل اور ای میل‘ کوئی اقوام متحدہ اور کوئی جنرل اسمبلی اور جنرل اسمبلی کی کوئی تقریر نہیں تھی۔

لوگ نبی اکرمؐ کی ریاست مدینہ میں صرف زکوٰۃ(اڑھائی فیصد) اور (اگرزمین چاہی ہے تو بیسواں حصہ اور اگر بارانی ہے تودسواں حصہ) عشر دیتے تھے‘ مدینہ کے شہریوں سے کوئی شبرزیدی سیلز ٹیکس‘ جی ایس ٹی‘ کسٹم ڈیوٹی اور انکم ٹیکس وصول نہیں کرتا تھا‘ حکومت کسی کو کوئی پلاٹ‘ کوئی ٹھیکہ اور کوئی پرمٹ جاری نہیں کرتی تھی‘ نبی اکرمؐ کی ریاست مدینہ میں کوئی اسکول‘ کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی‘ کوئی اسپتال‘ صاف پانی کی کوئی اسکیم اور کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں تھی‘ ریاست مدینہ کی کوئی پارلیمنٹ‘ کوئی 1973 کا آئین اور کوئی الیکشن کمیشن نہیں تھا۔

مدینہ کی ریاست میں کوئی ٹرانسپورٹ اور کوئی ٹریفک بھی نہیں تھی اور وہاں کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں تھی لہٰذا آپ اگر واقعی پاکستان میں ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو یہ تمام ’’خرافات‘‘ یہ تمام ’’بدعتیں‘‘ ختم کرنا پڑیں گی اور کیا آپ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے مولانا خادم حسین رضوی کی زبان میں اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو ’’چل اوئے نہیں تے آیا جے غوری‘‘ کہہ سکتے ہیں اور کیا آپ ملک کے اندر اور باہر ریاست مدینہ قائم کر سکتے ہیں؟آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر آپ لوگوں کو بے وقوف کیوں بنا رہے ہیں؟ ہم وزیراعظم کو حسن ظن کے مزید نمبر دے دیتے ہیں اور ہم یہ سوچ لیتے ہیں وزیراعظم کا تصور مدینہ عملی نہیں اخلاقی ہے‘ یہ ایک اخلاقی ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی بہت اچھا ہے لیکن پھر اس اخلاقی ریاست مدینہ کا خلیفہ تو آٹھ بائی آٹھ فٹ کے کمرے میں رہتا تھا‘ یہ پوری کائنات نبی اکرمؐ کی تھی مگر آپؐؐ نے اس پوری کائنات میں کوئی گھر نہیں بنایا تھا‘ آپؐ کا دن مسجد نبوی میں گزرتا تھا اور رات ازواج مطہرات کے گھروں میں‘ آپؐ دفن بھی حضرت عائشہؓ کے گھر میں ہوئے تھے‘ خلفاء راشدین خزانے سے اپنے لیے صرف اتنا نان نفقہ لیتے تھے جس سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو سکتاتھا‘ سویٹ ڈش تک کی گنجائش نہیں ہوتی تھی‘ خلفاء کا پورا خاندان آس پاس رہتا تھا‘ ان کا کوئی بچہ لندن میں نہیں تھا‘ ان کا کوئی صدارتی ایوان یا کوئی دفتر بھی نہیں تھا۔

کوئی خلیفہ شاہی سواری استعمال نہیں کرتا تھا اور وہ کسی حکمران سے ملنے بھی نہیں جاتا تھا‘ پورے مدینہ میں کوئی نیب‘ جیل اور کوئی کچہری نہیں تھی‘ پورے مدینہ کے لوگ داڑھیاں رکھتے تھے‘ جبہ پہنتے تھے‘ فرش پر سوتے تھے‘ اونٹ پر سفر کرتے تھے‘ بھیڑوں کا دودھ پیتے تھے‘ کھجوریں کھاتے تھے اور وہ جب انتقال کر جاتے تھے تو لواحقین ان کی تلواریں اور زرہ بکتر گروی رکھ کر ان کی تدفین کر دیتے تھے‘خلفاء کے اکائونٹ بھی نہیں ہوتے تھے اور ان کو فارن فنڈنگ بھی نہیں ہوتی تھی چناں چہ آپ اگر اخلاقی ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو پھرآپ کو یہ اخلاقی ریاست مدینہ اپنے چھ فٹ کے قد سے اسٹارٹ کرنا پڑے گی۔

آپ پہلے اپنا حلیہ اور رہن سہن نبی اکرمؐ جیسا کرلیں‘ پھر جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کریں اور پھر علیمہ خان صاحبہ کا احتساب کریں‘ ریاست مدینہ صرف زبان سے کہنے سے نہیں بنے گی‘ یہ پہلے ہمارے حلیے‘ لیونگ اسٹینڈر اور ہمارے دائیں بائیں آئے گی اور یہ پھر پورے ملک میں نافذ ہو گی اور آپ کسی دن ریاست مدینہ کے گورنرز کی فہرست بھی نکال کر دیکھ لیں اور پھر اپنے وزراء اعلیٰ‘ گورنرز‘ وزراء اور مشیروں کے چہرے دیکھ لیں آپ ریاست مدینہ کے لیے کتنے سیریس ہیں‘ آپ کو چند لمحوں میں علم ہو جائے گا۔

میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر قوم کو اپنے تصور مدینہ سے ضرور مطلع کریں تاکہ قوم یہ جان سکے ہم کس ریاست اور کس مدینہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہمیں وہاں پہنچنے میں کتنا وقت لگ جائے گا اور اگر یہ ممکن نہیں تو پلیز‘ پلیز آپ ریاست مدینہ کا سیاسی استعمال بند کر دیں‘ ہم گناہ گاروں کے پاس مدینہ کے سوا کچھ نہیں‘ آپ مہربانی فرما کر ہم سے ہمارا مدینہ تو نہ چھینیں‘ آپ ہمارے رسولؐ کو تو سیاست میں نہ لائیں؟ یہ آپ کا اس قوم پر عظیم احسان ہو گا‘ ہم نسلوں تک آپ کے شکر گزار رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے