وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر تہران روانہ

وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر ایران روانہ ہوگئے ہیں۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا دورہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے اقدامات کا حصہ ہے۔

دورے میں وزیراعظم عمران خان ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی سمیت اعلیٰ ایرانی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

ہفتے کو دفترخارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان ایرانی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران خلیج میں امن و سلامتی سے متعلق امور کے علاوہ اہم علاقائی پیشرفتوں اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

یہ وزیراعظم عمران خان کا رواں سال کے دوران ایران کا دوسرا دورہ ہوگا۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے نیویارک میں ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر بھی ایران کے صدر کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

دورہ ایران سے واپسی کے بعد وزیراعظم عمران خان منگل کو سعودی عرب بھی جائیں گے۔

دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہمارا پہلا مقصد ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ایران کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پیغام پہنچایا ہے۔

ترجمان ایرانی حکومت نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ پیغام دورے سے ایک روز پہلے تہران بھجوایا، پیغام میں سعودی ولی عہد نےایران کو بات چیت کی پیشکش کی ہے۔

ترجمان ایرانی حکومت نے مزید کہا کہ یمنی عوام کی شمولیت کے بغیر سعودی عرب سے بات چیت کو ضروری نہیں سمجھتے۔

اس کے بعد اب ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ایران اور سعودیہ کے درمیان ثالثی کیلئے کوشش کا خیر مقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے پاس ایک دوسرے سے بات چیت کے علاوہ دوسرا چارہ نہیں ہے، بات چیت براہ راست ہو یا کسی ثالث کے ذریعے، ایران اس کیلئے تیار ہے۔

جواد ظریف نے کہا کہ ہم نےکبھی ثالث کار کو انکار نہیں کیا، ہم ہمیشہ پڑوسی ملک سعودی عرب سے ثالثی یا براہ راست مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ایران سے بات چیت کا کہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے نیویارک میں ملاقات کی تھی تاہم اس حوالے سے مزید معلومات سامنے نہیں آئیں اور عمران خان نے بھی کچھ بتانے سے گریز کیا۔

بعد ازاں جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے واضح طور پر کیا تھا کہ ’وہ تمام ممالک جو ایران کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ سن لیں کہ مذاکرات کا ایک ہی طریقہ ہے، جیسا کہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، جوہری معاہدے کے بدلے کیے جانے والے وعدے پورے کیے جائیں‘۔

انہوں نے خلیجی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ’امریکا ہمارا اور آپ کا پڑوسی نہیں ہے بلکہ ایران پڑوسی ہے، مشکل حالات میں پڑوسی ہی ساتھ ہوں گے امریکا نہیں‘۔

[pullquote]ایران سعودیہ مصالحت میں وزیراعظم عمران خان کا اہم کردار[/pullquote]

گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کی اس پیشکش کو کھلے دل سے قبول کیا کہ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور میٹنگ کے دوران ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو کردار ادا کرنے کی اجازت دے دی۔

ذرائع کے مطابق اسی دوران امریکی صدر کے قریبی مشیروں نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت میں اپنا کردار ادا کریں اس سے ایران کی نیت کا بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے کتنا سنجیدہ ہے جس دوران وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے مشیر یہ مشورہ دے رہے تھے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا خصوصی طیارہ انہیں اور اُن کے ساتھیوں کو لیکر پاکستان کی طرف پرواز کرچکا تھا تاہم طیارے میں وزیر اعظم کو واپس نیویارک آنے کی درخواست کی جس کے متعلق بعد میں اس طرح کی بھی خبریں آئیں کہ سعودی ولی عہد جن کے ذاتی طیارے میں وزیر اعظم پاکستان سفر کررہے تھے انہوں نے وزیر اعظم سے ناراضی کی بنا پر انہیں فوری طور پر طیارہ چھوڑنے کا کہا یہ بات اس لیے مضحکہ خیز لگتی ہے کہ اگر سعودی ولی عہد ناراض ہوگئے تھے تو پھر وزیر اعظم نے سعودی ائیر لائن کا ہی کیوں انتخاب کیا واپسی کے سفر کے لیے۔

مستند ذرائع کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کو واپس امریکہ بلاکر انہیں پہلے سعودی عرب اور ایران کے مابین بہتر تعلق کی راہ ہموار کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا گیا اور اُس کے بعد اگر ایران کی نیت پر امریکہ کو شک نہیں ہوتا اور سعودی عرب ایران کے تعلقات حقیقی بہتری کی طرف چلتے ہیں تو وزیر اعظم پاکستان ایران اور امریکہ کے درمیان بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

وزیراعظم سے امریکی اعلیٰ حکام کی نیویارک میں ملاقات ہوئی اور اُس کے فوری بعد وہ سعودی ائیرلائن کی کمرشل پرواز سے جدہ پہنچے جہاں اُن کی شاہی لاؤنج میں انتہائی اہم سعودی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس میں سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کو باضابطہ درخواست کی گئی کہ وہ فوری طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں سعودی عرب کی مدد کریں۔

وزیر اعظم نے پاکستان واپس پہنچتے ہی چین کے اچانک دورے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اس معاملے میں چینی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔

پاکستان مسلم اُمہ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل کرتا جارہا ہے اسی لیے وزیر اعظم پاکستان کو اہمیت دی جارہی ہے ۔

امریکہ مشرق وسطیٰ سے کم از کم اگلے صدارتی انتخابات تک اپنا ناطہ اس طرح توڑنا چاہتا ہے جس سے امریکی عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے متعلق امریکی پالیسیوں کو بدلنا چاہتے ہیں اور امریکی افواج کو مشرق وسطیٰ کے جنگی میدانوں سے نکال کر امن کے میدان میں لانا چاہتے ہیں ۔

امریکی قوم مشرق وسطیٰ کے مسلسل جنگی ماحول اور اس میں پھنسی امریکی افواج کی پریشانیوں سے اب جان چھڑانا چاہتی ہے اسی لیے دو دن قبل صدر ٹرمپ نے واضح لفظوں میں کہا کہ مشرق وسطیٰ کی جنگوں کا حصہ بننا امریکہ کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔

دوسرے امریکہ چین اور ایران کے درمیان ہونے والے تیل کی فروخت اور تنصیبات کی دیکھ بھال کے لیے ہونے والے 280 بلین ڈالر کے معاہدے سے بھی پریشان ہے کیونکہ اس ڈیل کے بعد امریکی ڈالر کی حیثیت میں بہت فرق آئے گا کیونکہ خریدوفروخت چینی کرنسی میں ہوگی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک بھی چین کے ساتھ اس طرح کی فروخت کے معاہدے کرسکتے ہیں گو کہ ابھی پانچ دن قبل ایک چینی کمپنی نے ایران کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کا ایک سودا منسوخ کیا ہے ۔

لہذا امریکہ اب خطے کے متعلق اپنی پالیسی بدل رہا ہے اور وہ افغانستان عراق شام اور یمن کی جنگوں کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتا ہے یا کچھ عرصے کے لیے ایسا چاہتا ہے اور اسرائیل پر بھی زور ڈالے گا کہ وہ دیگر مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائے۔

اگر اس امریکی پالیسی کا مکمل طور پر اطلاق ہوجاتا ہے تو بھارت خطے میں تنہا رہ جائے گا کیونکہ امریکہ کو سعودی عرب اور اپنے لیے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اور امریکہ نے اس سلسلے میں پاکستان کی یہ درخواست بھی مانی کہ وہ طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرے کیونکہ اس سے پاکستان کو اپنے ملک میں امن قائم کرنے میں بڑی مدد ملے گی ۔

دوسری بڑی طاقت چین پہلے ہی پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔

بھارت اب پوری دنیا کو کاروباری لالچ دے رہا ہے کیونکہ ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی مارکیٹ ہے مگر روس چین اور پاکستان جیسی بڑی مارکیٹ اگر ایک ساتھ ہوجاتی ہیں تو یہ بھارت کے ساتھ امریکہ کی بھی شکست ہے جس کو بچانے کے لیے امریکہ ہر حد تک جاسکتا ہے چاہے اُس کی قیمت بھارت کے ساتھ تعلقات خراب کرنے ہی کی صورت میں دینا پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے