خبر سے حذف شُدہ واقعات ہیں ہم لوگ

میں موصوف کو نہیں جانتا۔ میرے سوشل میڈیا اکائونٹ پر لاکھوں میں سے ایک فالوور‘ مگر شفیق اور مہربان، نام ذاکر خان۔ بنگلہ دیش ڈھاکہ کے کاکس بازار سے تعلق۔ ذاکر خان نے پاکستان کا کھا کر مودی سے یاری نبھانے والوں اور امن کی آشا والوں پر تبصرہ کیا۔ ساتھ کہا: ان بد بختوں کو جا کر کون بتائے کہ عمران خان صرف پاکستانی وزیر اعظم ہی نہیں‘ بلکہ مسلم اُمہ کا اثاثہ ہیں۔

ذاکر خان کی پوسٹ کا آج تیسرا دن ہے۔ وکالت نامہ آپ کے پاس چوتھی صبح طلوعِ آفتاب کے ساتھ پہنچے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلم اُمہ کا وکیل خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں دیواریں توڑ کر امن کا پُل تعمیر کرنے کے مشن مڈل ایسٹ پہ جا چکا ہے۔ یہ ابھی ابھی کی بات ہے کہ امریکی طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے آبنائے ہرمز سے ایران پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار تھے۔ دوسری جانب بیلسٹک میزائل خلیج عرب کے اہم ترین ملک سعودی عرب پہ برس رہے تھے۔

50 عدد مسلم ممالک میں سے کسی ایک ملک کا سربراہ بھی ایسا نہیں، جس سے اللہ رب العزت نے دو اہم ترین کام لیے ہوں۔ پہلا، غصے سے بھرپور امریکی صدر کو یہ سمجھانا کہ ایران پہ حملہ کرنا دُرست نہیں ہو گا۔ دوسرے یہ کہ میری دو سرحدیں پہلے ہی سے حملوں کی زد میں ہیں۔ آپ ہمارے دوست ہیں۔ پلیز، یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان حالات میں ہم تیسری سرحد پہ Escalation اور War یعنی جنونی کیفیت اور جنگ برداشت نہیں کر سکتے۔

عمران خان کے یہ دلائل نشانے پہ لگے؛ چنانچہ، امریکہ بہادر کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں کہا: چلئے پھر آپ ہی ایران سے بات کا آغاز کریں؛ چنانچہ، ابتدائی بات چیت کا راستہ امریکی سر زمین پر ہی پاکستانی وزیر اعظم نے کھول ڈالا۔ امریکہ جانے سے پہلے، عمران خان نے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کو اعتماد میں لیا۔ دونوں لیڈروں کو بتایا کہ جنگ کے بعد مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے بہتر ہے ہم پہلے ہی ڈائیلاگ کا آپشن استعمال کریں۔

وزیر اعظم کے دورۂ ایران سے قبل، پاکستان کی سر زمین پر Agent Provocato’s یعنی حربی اشتعال دلانے والے متحرک ہو گئے۔ کچھ آتش فروشوں کو پاکستانی لباس پہنا کر اور حلیہ بنا کر، انڈیا نے بھی لانچ کر دیا‘ سرحد کی دونوں جانب جن کا مقصد، مذہبی منافرت کی فضا پیدا کر کے پرشین- عرب امن مشن کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دینا تھا۔ مگر امن مشن آتش فروشوں کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ ایران شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے، ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے عمران خان کی مصالحت پسندانہ ثالثی کی قبولیت کا اعلان کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستانی وزیر اعظم کو خلیج کے ممالک میں کشیدگی کم کرنے پر تحسین کا خراج بھی پیش کی۔

ہوم گرائونڈ پر مگر، زبانی آتش بازیاں جن کو انگریزی میں Verbal-fireworks کہا جا سکتا ہے، شب و روز جاری ہیں۔ ان کے بطن سے بہت سے سوالوں نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر کیا پاکستان کی سیاست ایک بار پھر لندن سدھار گئی؟ مفرور الطاف کے بعد، مفرور حسین نواز پرچیوں پر پاکستانی جمہوریت چلائے گا؟ ایسا لگتا ہے جیسے لاہوری شریفانہ سیاست کے برادران نے برادرانِ یوسف کے چغے پہن لیے ہیں۔ پہلے چغے میں، چھوٹے بھائی شہباز شریف کا جلوس ایسا پھنسا کہ اُسے لاہور ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا۔ بڑے بھائی نواز شریف اور اُن کی بیٹی دھر لیے گئے۔ اور پہلی لائن کٹ گئی۔

دوسرا چغہ، جواب آں غزل کے طور پر مریم صاحبہ کی نائب صدارت کی شکل میں برآمد ہوا اور دوسری لائن بھی کٹ گئی۔ جی ہاں آپ درست سمجھے حمزہ شہباز والی لائن۔ آخری چغہ، کیپٹن صفدر برانڈ خط کے ذریعے لندن پہنچا اور تیسری لائن بھی کٹ گئی‘ جس کا فوری نتیجہ جاتی امرا میں سمال شریف میٹنگ تھی‘ جس میں سے شہباز شریف کو مسلم لیگ نون کا صدر کہنے والے بڑے بڑے جغادری غائب پائے گئے۔ اور تیسرے درجے کی بُھولی بسری قیادت نے اس فوٹو شوٹ میں حصہ لیا۔ یوں ایک کہانی کی تکمیل ہو گئی۔ نواز شریف اپنی سیاسی empire میں کسی بھائی بھتیجے یا مُنشی مشدّی کو اُتنا ہی حصہ دیں گے جتنا شہنشاہِ ہندوستان حضرتِ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو دیا تھا۔

پاور پالیٹکس کے لئے کمال کا منظر نامہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کی آخری اُمید مولوی صاحب ہیں۔ بلکہ نجات دہندہ بھی۔ شہرِ اقتدار میں خبر یوں ہے کہ سیاسی مولوی صاحب کو جادو کا آئینہ نظر آنا بند ہو گیا ہے۔ اسی لئے موصوف نے کل ہی کہا: مجھ سے مذاکرات کے لئے کسی نے بھی ابھی تک رابطہ نہیں کیا۔ مذاکرات اور مردانہ مارچ کا ایجنڈا 3 نکاتی ہے۔ اس کا اوّلین نُکتہ یہ ہے کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لیا جائے۔ اس کارِ خیر کا آغاز مولوی صاحب زور لگائے بغیر خود بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ سمیت، قومی اسمبلی، خیبر پختون خوا اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی سے اپنے ارکان سے استعفے دلوا کر۔ یہ استعفے منظور ہونے کے بعد اُن کی اخلاقی پوزیشن واضح ہو جائے گی کہ وہ کس سنجیدگی سے استعفوں کو مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ اُن کے روڈ میپ کا دوسرا سرا حکومت توڑنے سے جُڑا ہے۔ موصوف بسم اللہ کریں۔

سندھ میں حکومت توڑنے کے لئے پی پی پی سے ضد کریں۔ ساتھ ہی وہ بلوچستان حکومت اور خیبر پختون خوا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے چھوڑنے کا اعلان فرما دیں۔ اپنے سیاسی ایجنڈے میں سنجیدگی کا رنگ بھرنے کے لئے۔ یہ اُن کی دوسری فتح ہو گی۔ مولوی صاحب کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تیسرا مطالبہ نئے الیکشن کا ہے۔ اس کی بسم اللہ بھی وہ اپنے گھر ہی سے کر سکتے ہیں۔ بلکہ اس بابت میں ایک براہِ راست خوش خبری چل کر میرے پاس آئی ہے‘ جو میں کارِ ثواب سمجھ کر اُن سے شیئر کر دیتا ہوں۔ خوش خبری یوں ہے کہ پچھلے ہفتے اُن کے مدِ مقابل اور رننگ اسمبلی کے الیکشن میں اُنہیں شکست دینے والے میرے لاء آفس آئے تھے۔ وفاقی وزیر برائے کشمیر و سرحدی امور علی امین گنڈا پور۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں ڈی آئی خان کی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر جناب فضل الرحمن کا پھر سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔

اسی تناظر میں جو سیٹیں اُن کی جماعتکے استعفے دینے سے خالی ہوں گی اُن پر نیا الیکشن ہو جائے گا۔ اس الیکشن کے نتائج سیاسی مولوی صاحب کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ یہ فارمولا آزمانے کے بعد سندھ حکومت بھی اپنے حصے کا سچ ثابت کر سکتی ہے۔ ورنہ سیاست میں جمعیت علمائے ہند سے لے کر احتساب کے خلاف انقلاب کے بانی مولوی صاحب کی سیاسی طاقت اس سے مختلف کیا ہو گی۔

ہر اک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ!
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ

مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر غیر انسانی بندشوں کے ستر روز مکمل ہو گئے۔ اس عرصے میں سیاست کے ان مجاہدین نے کشمیر کی نجات کے لئے پاکستان پر دھاوا بولنے کے علاوہ کِیا ہی کیا ہے؟ ویسے آپس کی بات ہے ان کے نصیب میں قائد اعظم کے پاکستان سے اظہارِ وفا کا کوئی باب ابھی تک نہیں آیا۔
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے