خدمتِ خلق

پچھلے دنوں ٹی وی پر کراچی کے مشہور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین محمد بشیر فاروقی، وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ خبروں میں بتلایا گیا کہ بشیر بھائی نے وزیر اعظم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ تقریباً 112 لنگر خانے کھولے جائینگے اور غریب عوام کو مفت کھانا دیا جائیگا، یہ بہت ہی احسن اقدام ہے۔ میرا سیلانی ٹرسٹ کے کارکنوں اور بشیر بھائی سے قریبی تعلق رہا ہے اور کئی مرتبہ میں ان سے ملنے گیا ہوںاور ان کی اعلیٰ خدماتِ خلق کا مشاہدہ کیا ہے۔ بشیر بھائی کے ساتھ ان کے رفقائے کارسےبھی ملا ہوں اور دوستی ہے۔سیلانی ٹرسٹ والے روزانہ ایک لاکھ کے قریب ضرورت مندوں کو لنچ کراتے ہیں۔ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں تربیت دیتے ہیں، غریب بچیوں کی شادی کراتے ہیں اور جہیز دیتے ہیں۔ غریبوں کی روزگارمہیا کرنے میںمددکرتے ہیں۔ غریب علاقوں میں ہفتہ میں ایک روز تازہ گوشت مہیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور کلینکس کی سہولتیں ہیں جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ بشیر بھائی اور انکے رفقائے کارنہایت اعلیٰ طریقے سے خدمت ِخلق کررہے ہیں۔

مولانا جلال الدین رومیؒ نے خدمت ِخلق و رزق حلال کے بارے میں فرمایا ہے۔’’ایک درویش کا بزرگوں کے گروہ کو خواب میں دیکھنا اور ان سے بغیر کمائی میں مشغول رہنے کے حلال روزی کی درخواست کرناکہ میں کمائی کی وجہ سے عبادت سے رہ جاتا ہوں۔ اور ان کی اس کو کڑوے اور کھٹے پہاڑی پھلوں کی جانب رہنمائی کرنا۔ اور ان کی رہنمائی سے اس شخص کیلئے ان پھلوں کا میٹھا بن جانا۔ جو بزرگ لوگ غیرت مند اورشہرت سے بھاگنے والے ہوتے ہیں وہ محنت کی کمائی کو افضل سمجھتے ہیں۔ ایسے صدیقوں کی صحبت کی توفیق بہت غنیمت ہوتی ہے۔پھر جب ایسے شاہ کا قرب حاصل ہوجائے تو راہ نہ بھٹکے۔

(عارفوں کی کیمیا گری کا واقعہ ہے کہ) ایک درویش نے یہ قصہ سنایا کہ میں نے خواب میں خضریوں کو دیکھا تو ان سے میں نے کہا کہ وہ (بے کمائی کے) حلال روزی جو وبال نہ بنے کہاں سے لائوں۔ وہ لوگ مجھے پہاڑ کی جانب لے گئے اور اس جنگل سے انہوں نے پھل جھاڑے کہ لے۔ ہماری توجہات سے وہ پھل خدا نے تیرے منہ کے اندر میٹھے کردیئے ہیں۔ ہاں ان میں سے بے حساب کھا یہ پاک اور حلال ہیں۔ یہ بغیر درد سری کے اور اوپر نیچے آنے جانے کے تجھے نصیب ہیں۔پھر اس رزق سے مجھ سے ایسی قوت گویائی ظاہر ہوئی کہ میری زوردار باتوں سے عقلیں حیران ہوجاتی تھیں۔ میں نے کہا اے دنیا کے رب یہ (خلقت میں شہرت) تو میرے لئے فتنہ ہے، لہٰذا وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا سے میری قوت گویائی جاتی رہی اور میں نے مطمئن دل پالیا۔ اس کے ذوق سے میں (اندر ہی اندر) انار کی طرح کھلتا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر جنت میں اس مسرت کے علاوہ جو میری سرشت (مزاج) میں آگئی ہے۔ اور کوئی چیز نہ ہو تو بھی مجھے کسی دوسری نعمت کی تمنا نہ ہوگی۔ اس لطف کو چھوڑ کر میں اخروٹ اور گنے کی طرف توجہ نہ کروں گا۔میری پچھلی کمائی سے ایک دو حبہ (رقم) باقی تھی جو میرے چوغے کی آستین میں سلی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک درویش تھکاماندہ جنگل سے لکڑیاں لارہا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ میں تو اب روزی کمانے سے فارغ ہوں۔ اور اب کے بعد رزق کیلئے کوئی غم نہیں۔ اب تو مجھے خاص رزق (روحانی) جسم اس کی غذا کیلئے ہاتھ آگیا ہے۔ وہ بے مزہ میوہ (صفات سے پاک) میرے لئے خوشگوار بن گیا ہے۔

چونکہ میں حلق کے معاملے میں فارغ ہوگیا ہوں۔ اسلئے یہ چند حبہ رقم جو ہے یہ میں اس کو دے دوں۔ اس محنت کش کو یہ سونا دے دوں تاکہ دو تین دن کیلئے وہ خوراک سے مطمئن ہوجائے۔ مگر اس نے خود میرے دل کی بات جان لی۔ کیونکہ اس کی شمع اس شمع (حق) کا نور تھا۔ اس کیلئے ہر خیال آئینہ کے اندر چراغ کی طرح نظر آجاتا تھا۔ وہ دلوں کے مضمون سے واقف تھا۔ اور دل کی کوئی بات اس سے نہ چھپتی تھی۔ تو وہ عجب احوال والا میرے خیال کے جواب میں خودبخود بڑبڑایا کہ تو شاہوں کے بارے میں ایسا سوچتا ہے۔ اگر وہ ہی تجھے رزق نہ دیں تو تجھے رزق کیسے ملے۔ اس کی بات تو اچھی طرح نہ سمجھ سکا۔ لیکن اس کے غصے کا اثر میرے دل پر بہت ہوا۔ وہ شیر کی طرح ہیبت سے میری سمت آیا اور ایندھن کابوجھ کمر سے نیچے رکھ دیا۔

جس انداز سے کہ اس نے ایندھن نیچے رکھا مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا اگر تیرے وہ مخصوص بندے زندہ ہیں جو بابرکت اور دعا والے ہیں، مبارک قدم ہیں تو تیری وہ مہربانی چاہتا ہوں، جو کیمیا گر بن جائے۔ اسی وقت یہ ایندھن سونا بن جائے۔ میں نے اسی وقت دیکھا کہ ایندھن سونا ہوگیا اور عمدگی سے زمین پر آگ کی طرح چمکنے لگا۔ میں اسی اثنا میں دیر تک (حیرت سے) بے ہوش رہا۔ جب میں حیرانی کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے کہا کہ اے خدا اگر وہ بزرگ لوگ بہت غیرت مند اور شہرت سے بھاگنے والے ہیں تو اس کو پھر جلد بلا تاخیر اسی حالت میں جیسا کہ تھا، ایندھن کا بوجھ بنادے۔ اسی وقت وہ سونے کی شاخیں ایندھن کا بوجھ بن گئیں۔ جس کے معاملے میں عقل وہنر مست ہوگئی۔اسکے بعد اس نے ایندھن اٹھایا اور میرے سامنے سے تیز اور گرم رفتاری سے شہر کی جانب چل دیا۔ میں نے چاہا کہ اس شاہ کے پیچھے جائوں اور اس سے مشکل باتیںپوچھوں اور سنوں۔ لیکن اس کی اس ہیبت نے مجھے باندھ دیا۔ کیونکہ خواص کے سامنے عوام کیلئے کوئی راستہ نہیں رہتا اور اگر کسی کیلئے راستہ ہو تو اس سے کہہ دو کہ سر قربان کرے۔ کیونکہ (یہ راستہ) ان کی رحمت اور کشش سے ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تو کسی صدیق کی صحبت حاصل کرے تو اس توفیق کو بہت غنیمت سمجھ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے