’’ثالثی‘‘ کے کردار سے جی کو خوش رکھنے کا اہتمام

انتہائی توجہ سے بہت غور کے باوجود میں ابھی تک یہ دریافت نہیں کرپایاکہ پاکستان کا ایران کے ساتھ وہ کونسا اثر(Leverage)ہے جسے بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ہم اسے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات دوستانہ بنانے کو مائل کرسکیں۔وزیر اعظم عمران خان صاحب کی اس ضمن میں کاوشیں البتہ جاری ہیں۔ان کی نیک نیتی پر سوال اٹھانے کی گنجائش موجود نہیں۔ نیک نیتی مگر سفارت کاری کے معاملات میں کام نہیں آتی۔ مفادات وترجیحات ہوتی ہیں۔ عرب وعجم کا قضیہ ویسے بھی بہت تاریخی ہے۔صدیوں سے موجود تعصبات کو ہماری نیک نیتی کے ذریعے کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ہر صورت خود کو غیر جانبدار بنائے رکھیں۔ غیرجانب داری برقرار رکھنااپنے تئیں ایک دشوار ترین ہدف ہے۔اسے نبھالینا ہی کافی ہوگا۔

ایران کا اصل مسئلہ مگر سعودی عرب کے ساتھ اختلافات ہی نہیں ہیں۔اس کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے ہر طرح کی پابندیاں لگارکھی ہیں۔اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا جارہا ہے کہ ایران کے تیل کی ایک بوند کا بھی عالمی منڈی میں کوئی خریدار نہ ہو۔بھارت اپنے تیل کی ضروریات کا دس فی صد ایران سے حاصل کرتا رہا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس بندوبست کو ختم کروایا۔ معاشی اعتبار سے چین امریکہ کا تقریباََ ہم پلہ ہے۔یورپ اور امریکہ کے ساتھ اپنی تجارت کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے وہ بھی ایران سے اب تیل نہیں خریدتا۔ وہ معاہدے بھی منسوخ کردئیے گئے ہیں جن کے ذریعے چینی کمپنیوں نے ایرانی سرزمین سے تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کرکے ان کی پیداوار کو عالمی منڈی میں لانا تھا۔ بھارت اور چین جیسے بڑے کھلاڑیوں نے جس معاملہ سے ہاتھ اٹھالئے اس میں دخل دینے کی ہمارے پاس گنجائش ہی موجود نہیں۔بہرحال ایران کا دورہ ہوگیا ہے۔عمران خان صاحب کے متوالے اس کی بدولت انہیں مسلم اُمہ کا مؤثر اور متحرک رہ نما بناکردکھارہے ہیں۔

ربّ کریم انہیں مزید خوشیوں سے نوازے۔سفارت کاری میں ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے میں یاد کرنے کو مجبور ہوں کہ FATFکا اہم اجلاس پیرس میں شروع ہوچکا ہے۔ہمیں جون 2018سے اس تنظیم نے گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ IMFکا تقاضہ ہے کہ اگر ہم اس کے ساتھ ہوئے معاہدے پر بھرپور عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہ رہے ہیں تو FATFکو مطمئن کرنا ہوگا۔ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے FATFبھارت کی تمام تر کاوشوں کے باوجود ہمیں Blackمیں نہیں دھکیلے گا۔ ابھی تک یہ ’’اعزاز‘‘ فقط دو ملکوں یعنی ایران اور شمالی کوریا کا مقدر ہوا ہے۔

اس امر کی لیکن امید نظر نہیں آرہی کہ ہمیں ’’گرے‘‘ سے باہر نکال دیا جائے گا۔ ہمیں ہر پل خبردینے کا دعوے دار میڈیا کئی ماہ گزرجانے کے باوجود ہمیں سمجھا نہیں پایا کہ FATFکی گرے لسٹ میں اٹکے رہنے سے ہماری معیشت کو ٹھوس اعتبار سے کیا نقصان ہورہا ہے۔حکومتی ترجمانوں کی اکثریت کو بھی اس کا احساس نہیں ہے۔ اگر احساس ہوتا تو ہماری سفارت کاری کی ترجیحات میں گرے لسٹ سے باہر آنا نمایاں نظر آتا۔پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد سے ہمارے ہاں بینکاری کا نظام شدید متاثر ہوا۔ اس کی وجہ سے درمیانی درجے کے تاجراپنے دھندے بند کرنے کو مجبور ہوئے۔

ایف بی آر کی متعارف کردہ Documentationسے کئی ماہ قبل ہی مجھے اور آپ کو اپنے بینک اکائونٹس کی بائیو میٹرک تصدیق FATFکی گرے لسٹ کی وجہ سے کروانا ضروری ہوئی۔ آپ کوئی چیک لے کر اسے بینک میں جمع کروانے جاتے ہیں تو دستاویزی طورپر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ چیک میں لکھی رقم کہاں سے کیوں مل رہی ہے۔اخبارات اور ٹی وی چینل اقتصادی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فقط صنعتوں اور بڑے کاروباری اداروں پر توجہ مبذول رکھتے ہیں۔ہمارے ہاں کسادبازاری زرعی شعبے کو جس انداز میں تباہ کررہی ہے اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوتیں۔ پراپرٹی کا دھندا تباہ کرنے میں بھی FATFکی گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔

گزشتہ برس مثال کے طورپر ہمارے ہاں آلو پیدا کرنے اور اسے عالمی مارکیٹ تک پہنچانے والوں کی اکثریت دیوالیہ ہوگئی۔ قصبات میں مقیم تھوڑے ذہین افراد نے گھروں میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کی بدولت روس اور افغانستان وغیرہ میں آلو کے خریدار ڈھونڈے۔ اپنی بچت اور لوگوں سے اُدھارلے کر وہاں کے خریداروں کو آلو بھیج دئیے۔آلو کی فروخت سے جو رقوم وصول ہونا تھیں وہ اکثر دبئی کے ایسے اکائونٹس سے ملنا تھیں جنہیں ’’مشکوک‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔وہاں سے نکالے ڈالروں کے بارے میں ہزاروں سوالات اٹھائے گئے۔ بالآخر ثابت ہوگیا کہ ایسے ’’مشکوک‘‘ اکائونٹس کا’’دہشت گردی‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ روس جیسے ملکوں کے ’’کرپٹ‘‘ لوگوں نے ان میں رشوت کی کمائی جمع کررکھی ہے۔نظر بظاہر یہ ’’آف شور‘‘ والا قصہ ہےTax Evasionکے بجائے Tax Avoidanceوالی کہانی۔

آلو برآمد کرنے والے کو بالآخر قیمت تو مل گئی۔ انتظار کی اذیت نے مگر اسے رلادیا۔ تھوڑی ذہانت استعمال کرتے ہوئے متوسط طبقے کے جس شخص نے برآمدات کی نئی راہیں نکالنے کی جو کوشش کی تھی اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔دُنیا بھر میں معیشت کو روارکھنے اور اسے مزید جاندار بنانے کے لئے Startups اور چھوٹے ودرمیانی تاجر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔یہ حوصلہ ا فزائی کاروباری دنیا پر چھائے مگر مچھ اجارہ داروں سے نجات کی راہ دکھاتی ہے۔ FATFکی گرے لسٹ نے ایف بی آر کی Documentation Driveکے ساتھ مل کر چھوٹے اور درمیانی طبقات کا کاروباری دھندوں میں شامل ہوکر اپنی آمدنی بڑھانے کی لگن کا قلع قمع کردیا۔

کینو اُگاکر عالمی منڈی میں نئے خریدار ڈھونڈ کر انہیں پہنچانے کی تگ ودو کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی۔ پنجاب کے نقشے کو ذہن میں رکھیں۔ آلو اور کینو وغیرہ کی کاشت سے جڑے علاقوں کی نشاندہی کریں تو ادراک ہوگا کہ فقط ان دو مدوں کے ضمن میں ہزار ہا افراد Upward Mobilityکے امکانات سے محروم ہوگئے ہیں۔’’فیک اکائونٹس‘‘ اور ’’منی لانڈرنگ‘‘ کا ہماری ٹی وی سکرینوں پر مسلسل چرچہ رہتا ہے۔اس چرچے کی بدولت مگر سوچ یہ بھی پروان چڑھتی ہے کہ جیسے آصف علی زرداری اور شریف خاندان سے متعلق سیاست دان ہی ایسے ’’سنگین جرائم‘‘ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آج تک کوئی ایسا کیس ہمارے سامنے نہیں آیا جو تفصیل سے یہ بیان کرے کہ مثال کے طورپر کونسی ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم نے کتنی رقوم فیک اکائونٹس یا منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل کیں۔ FATFکو درحقیقت ایسے کیسوں کی تلاش ہے۔وہ اس پر ’’ٹھوس پراگرس‘‘ کا تقاضہ کرتا ہے۔اس کی دانست میں ایسی ’’پراگرس‘‘ ہو نہیں رہی۔ پاکستان لہذا گرے لسٹ میں اٹکا ہوا ہے۔

گرے لسٹ میں ہماری موجودگی نے مگر ٹھوس اعتبار سے ان چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروباری افراد کو تباہ کردیا ہے جو انتہائی دیانت اور تھوڑی ذہانت کے استعمال سے اپنی آمدنی بڑھانے کی جدوجہد میں مبتلا تھے۔ہماری سفارت کاری اور دیگر پالیسیوں کی ترجیح ایسے افراد کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔ہماری ریاست مگر چند اجارہ دار سیٹھوں کی چاپلوسی اور دلجوئی میں مصروف رہتی ہے۔ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کوبہتر بنانے کے لئے ’’ثالثی‘‘ کے کردار سے جی کو خوش رکھا جاتا ہے۔ٹھوس حقائق سے سفاکانہ غفلت اختیار کرتے ہوئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے