اسلام آباد مارچ:سیاسی جماعتیں اور سوشل میڈیا

پاکستان تحریک انصاف اورجمعیت علماءاسلام کے مابین اسلام آباد کی جانب جانے والا آزادی مارچ عصاب شکن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے،دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچادکھانے اور عوام میں ہمدردی حاصل کرنے کےلئے سرتوڑکوششیں کررہی ہیں، جس کے لئے عام میڈیاکےساتھ بھرپورطریقے سے سوشل میڈیا کااستعمال بھی کیاجارہاہے۔

جمعیت علماءاسلام کی جانب سے رواں سال اگست کے مہینے میں اعلان ہواتھاکہ اکتوبرمیں اسلام آبادکی جانب مارچ کیاجائے گا، تاہم حکومت کی جانب سے مولانافضل الرحمن کے اس اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیاگیا ،اکتوبرکے مہینے میں جب جے یوآئی کی جانب سے مارچ کے متعلق حتمی فیصلوں کاآغازہواتو وفاق کے ساتھ خیبرپختونخواحکومت بھی جے یوآئی کے خلاف میدان میں نکل آئی ۔

شانگلہ میں ایک شمولیتی تقریب کے دوران وزیراعلیٰ محمودخان نے واضح کیاتھاکہ وہ کسی بھی صورت مولانا فضل الرحمن کو خیبرپختونخواسے آزادی مارچ نہیں گزرنے دیں گے، تین روزبعد وزیراعلیٰ ہاﺅس پشاورمیں ایک تقریب کے دوران محمودخان نے ایک مرتبہ پھر اس بات کااعادہ کیاجس کے بعد جمعیت نے بھی بیان داغنے شروع کردئیے، مولانافضل الرحمن نے پشاور،اسلام آباد اور دیگرمختلف مقامات پر عوامی اجتماعات اور صحافیوں کےساتھ نشستوں میں واضح کیاکہ وہ ہر صورت اسلام آبادکی جانب 27اکتوبر کو مارچ کریں گے اوریہ مارچ حکومت کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔

جمعیت علماءاسلام کاموقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو 2018میں بزوربندوق مینڈیٹ دلایاگیا اوردوسری سیاسی جماعتوں کا حق ان انتخابات کے دوران ماراگیا، اس لئے گزشتہ ایک سال کے دوران اس حکومت کے ناکام فیصلوں نے ملک کوتباہی سے دوچارکیاہے۔جمعیت علماءاسلام کے رہنما حکومتی ناکامیوں کے متعلق مختلف اعدادوشمارپیش کررہے ہیں کہ مہنگائی کے علاوہ افراط زر اور دیگر کئی چیزوں کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ ہوا ،مسئلہ کشمیرسے متعلق حکومت کی جانب سے پہلے چپ کا روزہ اوربعدازاں جاری کئے گئے بیانات کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایاگیا ۔

جے یوآئی کے اہم رہنماﺅں کے مطابق اسلام آباد مارچ پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کاآغاز ہوگا، آزادی مارچ سے متعلق جے یوآئی نے عام میڈیاکے علاوہ سوشل میڈیا کوبھی کافی حد تک متحرک کئے رکھا، اتوارکے روز مولانا فضل الرحمن نے پشاورمیں اپنے کارکنوں کو مخصوص خاکی وردی پہناکر ان سے مارچ پاسٹ کیاگیا، اس دوران مولانانے کسی فوجی سربراہ کی طرح باقاعدہ اپنے لشکر سے سلامی لی ،سوشل میڈیا پر اس تقریب کا خوب واویلاہوا، دوسری جانب حکومت بھی خاموش بیٹھنے والی نہیں تھی، وزیراعلیٰ محمودخان نے ایک تقریب کے دوران مولانافضل الرحمن کی جماعت کو فسادیوں سے تشبیہ دی اور واضح کیاکہ کسی کو خیبرپختونخوامیں فسادنہیں کرنے دیں گے وزیراعلیٰ نے تقریب کے دوران کہاکہ بحیثیت وزیراعلیٰ جے یوآئی خیبرپختونخوامیں اسلام آباد تک مارچ نہیں کرسکے گی ۔

صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈراکرم درانی بھی حکومت کے خلاف بول پڑے اورکہاکہ محمودخان موجودہ اورمیں سابق وزیراعلیٰ ہوں اسلام آباد کی جانب مارچ نہ کیا تومیرانام بھی اکرم درانی نہیں کچھ اورہوگا۔سوشل میڈیا پر جمعیت کے کارکنوں خصوصاًمختلف دریاﺅں میں کشتی کے ذریعے سفرکرنے کے عمل کوبھی بتایاگیا کہ اگر سڑکیں بندرہتی ہیں تو وہ دریاﺅں کے ذریعے اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کریں گے ،ساتھ ہی ساتھ مولاناکے کارکنوں نے ڈنڈوں کی تصاویردکھائیں، بعض ڈنڈوں کے اردگرد خاردارتاریں تک لگائی گئی تھیں اورانکے نیچے پیغامات لکھے گئے تھے کہ ہم تحریک انصاف کے ممی ڈیڈی کی طرح نہیں ۔

جے یوآئی نے ایک قدم آگے بڑھ کر عمران خان کی دھرنے کے دوران کئے گئے تقاریر کے کلپس نکالناشروع کردئیے ،پی ٹی وی پرحملے اورپارلیمنٹ کی دیواروں پر آویزاں شلوارقمیص کی تصاویریں ٹیوٹراورفیس بک کے ذریعے دکھائی گئیں توساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کے کارکن جوسوشل میڈیاکے ماہرہیں ،انہوں نے مولانافضل الرحمن کی ماضی کی وہ تقاریں جس میں انہوں نے زرداری اور نوازشریف کی مخالفت کی تھی ، جواب ان کے مارچ کی حمایت کررہے ہیں ،کلپس دکھاناشروع کردئیے اوربتاتے رہتے ہیں کہ مولانافضل الرحمن کا حقیقی چہرہ یہ ہے۔

بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر قادیانیوں کی جانب سے مولانافضل الرحمن کی حمایت میں جعلی دستاویزات سوشل میڈیاکی زینت بنائے جس کو شدید تنقید کانشانہ بنایاگیا جے یوآئی کے ایک اہم رہنما نے بتایاکہ اسلام آبادمارچ 27اکتوبرسے زیادہ عام میڈیا بالخصوص سوشل میڈیاکے ذریعے لڑاجارہاہے ،پاکستان تحریک انصاف جوپہلے کنٹینردینے کاوعدہ کررہی تھی اب ان کی راہ میں روڑے اٹکارہی ہے ،ان کے مطابق کئی اہم غیرسیاسی اوراہم منصب پرفائز لوگوں نے مولانافضل الرحمن سے رابطے کئے ہیں ،مولاناایسی شخصیت کے مالک ہیں کہ اگرانہیں بارہ بجے فیصلہ کرناہو توکسی کو گیارہ بج کر 59منٹ پربھی ان کے فیصلے کاپتہ نہیں ہوتا، مولاناکااُونٹ کسی بھی وقت کسی کی جانب کروٹ لے سکتاہے .

تاہم تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر نے بتایاکہ مولانافضل الرحمن سے درپردہ رابطے ہوئے ہیں توقع ہے کہ 27اکتوبرسے پہلے ڈیل کے بعد ان کو ڈھیل دی جائے گی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانافضل الرحمن کے باعث پاکستان تحریک انصاف بالخصوص وفاق کے ایوانوں میں لرزاطاری ہے، لیکن تحریک انصاف کے علاوہ کچھ اہم لوگوں نے مولاناسے رابطے استوارکئے ہیں اب مولانا کوکتنے پراورکیسے راضی کیاجاتاہے یہ27اکتوبرتک پتہ چل جائے گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی عدالتی کیسزکے باعث ڈیل کے موڑمیں نہیں ہے اس لئے مولاناہی سیاسی بساط کے واحدکھلاڑی ہیں جن کے ساتھ ڈیل ہوسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے