ترکی کی حالیہ کارروائی کا حقیقی فائدہ بشار الاسد کو ہوگا

ترکی نے کرد فورسز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مقصد سے شمالی شام میں اپنا آپریشن ” امن بہار "شروع کیا ہے۔ امریکہ اس کے باوجود کہ کردوں نے داعش کی خلافت ختم کرنے میں اس کی مدد کی تھی اپنے ان کرد اتحادیوں سے ترک تعلق کرچکا ہے اور ترکی کی کارروائی کو آسان اور موثر بنانے کے لیے شام سے تمام امریکی فوجیوں کو باہر نکال لیا ہے –

ترکی ، ترک فوجوں اور اتحادی ملیشیاؤں کے ساتھ ہوائی و بھاری توپخانے کی بمباری اور زمینی حملوں کے ذریعے کرد فورسز پر بہت بھاری پڑ چکا ہے – ترک حملے کی شدت نے شام کے حوالے سے باخبر رہنے والے کئی تجزیہ کاروں کو تعجب میں مبتلا کر دیا ہے – ترکی نے 300 کلومیٹر لمبائی اور 50 کلومیٹر گہرائی پر محیط علاقے پر حملہ کیا ہے جس میں کردوں کے زیر کنٹرول تقریبا تمام بڑے شہر اور قصبے متاثر ہوئے ہیں – شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کےزیر اثر کرد وائی پی جی ملیشیا نے جوابی کاروائیوں میں توپ خانے اور راکٹ سے ترکی کی سرزمین پر حملے کر کے ترک فوجی کارروائی کا جواب دیا ہے ، اسکے علاوہ ترک بری افواج اور کرد جنگجوؤں کے مابین شام کے سرحدی دیہات میں بھی شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ کردوں اور ترکی کو اس فوجی محاذ آرائی کے کیا نتائج بھگتنا پڑے ہیں یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس محاذ آرائی کا جو بھی نتیجہ نکلا اور جیسے بھی حالات رہے ان تمام حالات میں صرف ایک ہی شخص فائدہ اٹھانے والا ہوگا اور وہ شام کا صدر بشار الاسد ہے –

آئیے ایک نظر ڈالیں کہ صدر بشار کو کسی بھی صورتحال میں کس طرح فائدہ پہنچے گا –

سب سے پہلے جو اہم پیشرفت ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ شمالی شام سے اپنی تمام فوجیں واپس نکال چکا ہے یہ انتہائی ممکن ہے کہ شام میں امریکی زمینی افواج کی موجودگی بلکل بھی نہ ہو – امریکہ کے اس عمل سے روس کے شام میں عمل دخل مزید بڑھ جائے گا جو شام کی مستقبل کی حکومت کی تشکیل کے لئے امریکی مقابلے میں صرف شامی حکومت کی ہی حمایت کرتا ہے۔ مزید یہ کہ ، ڈاکٹر اسد کا ایک اور اہم اتحادی ایران بھی آگے آ رہا ہے ، ایران کو اپنی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے اور امریکہ کی طرف سے اسکی معلومات اسرائیل کو فراہم کرنے کے متعلق کوئی فکر نہیں ، ایران اب اپنے جوان اور جنگی سامان کو عراق سے لبنانی سرحد میں آسانی سے منتقل کرنے کے لئے زیادہ پر اعتماد ہو گا –

کردوں کو خدشہ ہے کہ وہ شام کی خانہ جنگی کے دوران دمشق سے حاصل کردہ خود مختاری سے محروم ہوجائیں گے ، اب وہ اس جنگ کے نویں سال میں ترکی کو ان بہت سے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جو کثیر کرد آبادی کے مرکز ہیں اسی خطرے کے پیش نظر اب کردوں کو تحفظ کے لیے بشار کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑیں گے ترکی کے حملوں سے کمزور کرد بشار سے اپنی شرائط پر ہر گز مذاکرات نہیں کرسکیں گے اور اسد رجیم کردوں پر بہت سی ان شرائط کو قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے جسے کردوں نے پہلے مسترد کردیا تھا –

ایک اور ممکنہ امکان یہ بھی ہے کہ اسد کی افواج روس کی مدد سے صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوب سے کرد علاقے میں داخل ہو جائیں – جس کے لیے صدر بشارالاسد نے شام کے شمال مغرب میں کردوں اور باقی مسلح قابض گرو ہوں سے اپنے ہر ایک انچ علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے – شامی فوج کے اس اقدام سے کرد بیک وقت دو محاذوں پر لڑنے پر مجبور ہو جائیں گےجس میں ان کے سروائیول کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ شامی حکومت کے لیے یہ صحیح وقت ہے کہ کردوں کے خلاف کوئی فوجی مہم شروع کر دے –

ترکی نے کہا ہے کہ اس کی فوجی کارروائی کا ایک مقصد شام کی خانہ جنگی کے دوران ترکی میں آباد ہونے والے شامی مہاجرین کو شامی کرد فورسز سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں آباد کرنا ہے – یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی میں لاکھوں شامی مہاجرین اردگان حکومت کی ذمہ داری بن چکے ہیں ، جو اب انہیں شام واپس بھیجنے کے متعلق پلان کر رہے ہیں – اگر ان علاقوں میں ترک احکام کی طرف سے ایسی دوبارہ آباد کاری ہوتی ہے تو ، اس سے شام کی آبادیاتی آبادی میں مستقل طور پر تبدیلی آئے گی جو شام کے صدر بشار الاسد کے فرقہ وارانہ عزائم کی عملی پیش رفت میں مدد گار ثابت ہو گی ، اس سے کرد علاقوں کی نسلی تشکیل اور بہت سارے سنی عرب علاقوں کی فرقہ وارانہ تشکیل تبدیل ہو جائے گی لہذا مستقبل میں آگے کوئی بھی کرد علیحدگی پسند تحریک اقلیت ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں جڑ نہیں پکڑ سکے گی –

شام کا شمال مغربی کونہ بشمول ادلیب کےعلاقے کے آٹھ سال سے زیادہ کی جنگ کے بعد بھی حزب اختلاف کے پاس آخری علاقہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ ترکی کا ان لڑاکا گروپوں کی حمایت کرنا ہے – ترکی کے صوبہ ادلیب میں متعدد مشاہداتی پوسٹیں ہیں جس کی وجہ سے شامی حکومت مکمل طور پر زمینی مداخلت شروع کرنے سے گریزاں ہے۔ لیکن اگر ترکی کردوں سے الجھ جاتا ہے تو ترکی کو اپنی توجہ ادلیب سے کردوں کی طرف مبذول کرنی ہوگی ، اور اگر کرد اپنے ی علاقے ترکوں کے ہاتھوں کھو بھی دیں تو پھر بھی وہ گوریلا حملوں جیسے کہ ” ہٹ اینڈ رن ” ، بارودی سرنگوں ، سڑک کے کنارے نصب بموں ، اینٹی ٹینک میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مصروف رکھ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ادلب کی طرف سے ترکوں کی توجہ ہٹ جائے گی اورشامی حکومت کو باغیوں کے اس آخری گڑھ میں زمینی مداخلت شروع کرنے کا موقع مل جائے گا –

آئندہ کے حالات و نتائج اگلے چند ہفتے اور مہینے طے کریں گے کہ لیکن اس وقت دمشق کے پاس مسکرانے کی تمام وجوہات ہیں۔ چونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ ڈاکٹر بشار الاسد کو ترکی کے اس آپریشن کے کسی بھی ممکنہ نتیجے سے فائدہ ہو گا ، پچھلے نو سال سے جاری شام کے تنازعہ میں صدر اسد نے ہمیشہ اپنے کارڈ اچھے طریقے سے کھیلے ہیں اور وہ ہمیشہ فاتح کے طور پر سامنے آئے – تاہم ، اس بار یہ مختلف ہے وہ لڑے بغیر حتیٰ کہ کسی کوشش کے بھی بغیر جیت رہا ہے – اس بار اس کے دشمن اسے فتح دلا رہے ہیں –

بشکریہ: ریاض ڈیلی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے