نم کا غم اور ہم پاکستانی

صرف ہم ہی کیا، صدیوں سے پورے عالم اسلام کو نم کا غم کھائے جارہا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی دراصل صرف اپنی ہی نہیں پوری مسلم امّہ کی بات کی تھی

؎’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘

مجھے’’ذرا‘‘ پر اعتراض ہے کیونکہ ’’نم‘‘ کا تعلق زمینوں اور فصلوں کی قسموں کے ساتھ ہے۔

مٹی اور بیجوں کی کچھ قسموں کے لئے’’ذرا‘‘ سا نم ہی کافی ہوتا ہے لیکن زمینوںاور فصلوں کی کچھ اقسام زیادہ اور کچھ بہت زیادہ ’’نم‘‘ مانگتی ہیں

مثلا مونجی کی پیاس ہی نہیں بجھتی جبکہ بنجر، کلر اٹھی، شورزدہ زمینوں کا کیس ہی بالکل علیحدہ ہے اور ’’انسانی فصلوں‘‘میں’’ ڈی این اے‘‘ نام کی اک شے بھی ہوتی ہے لیکن بندہ جب ہاری ہوئی، درندہ صفت یا جرائم پیشہ، یہاں تک کہ نشوں کی ماری ہوئی قوموں کو بھی سنبھلتے، اٹھتے اور ٹیک آف کرتے دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہو کر سوچتا ہے کہ ان کے DNA پر کیا گزری۔

تب دھیان حیوانوں کی طرف جاتا ہے کہ اگر انہیں بھی کوئی سکھانے، سدھانے والا ہو تو وہ سرکس میں کیسے کیسے کام، کرتب، کارنامے نہیں دکھاسکتے۔ مغلیہ سلطنت کا زوال جتنا دردناک ہے، اتنا ہی دلچسپ بھی کہ آخری عشروں میں جس نے چاہا چپت یا جھانپڑ رسید کردیا۔

فرنگی نے تو جھاڑو ہی پھیر دیا اور جب اس ’’حادثہ‘‘ کا ڈراپ سین ہوا تو انگلینڈ کا رقبہ صرف 50ہزار 385مربع میل تھا جبکہ 565پر نسلی سٹیٹس کے علاوہ ہندوستان کا رقبہ 9لاکھ 74ہزار مربع میل، گورا یہاں کبھی ایک لاکھ سے زیادہ نہ رہا لیکن ہم اتنی بڑی واردات کو ’’سازش‘‘ کہہ کر گز ر گئے، پھر بھلا ہو ہٹلر کا جس نے ’’غاصبوں‘‘ کو دوسری جنگ عظیم میں اس بری طرح بلیڈ کردیا کہ قبضہ قائم رکھنا ممکن نہ رہا اور چودہ اگست 1947 ہوگیا۔

اب اس معجزہ کو بھی 72برس بیت گئے جس پر کچھ نابغے کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں70، 80سال کوئی معنی ہی نہیں رکھتے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن میں جان ہو، ان کے لئے پہلے چند عشرے ہی کافی ہوتے ہیں۔

خود ہماری تاریخ بھی گواہ ہے اور گزشتہ چند عشروں میں بھی خاصی گواہیاں موجود ہیں۔واقعی’’نم‘‘ بہت ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ’’ہم‘‘ کون ہیں یعنی’’مٹی‘‘ کیسی ہے اور یہی میرا موضوع بھی ہے اور اصل مسئلہ بھی۔ اسی لئے’’انسان سازی‘‘ کی بات ضرورت سے زیادہ کر جاتا ہوں۔

بغیر کسی شرمناک تفصیل میں جائے جب اپنا’’اجتماعی کردار‘‘ دیکھتا ہوں تو باقی چھوڑیں، اپنے آپ سے گھن آتی ہے۔ برادر محترم اظہار الحق نے کمال لکھا کہ ہم خود اپنے آپ کو سرعام لکھ کر دھوکہ دیتے ہیں۔ ہم تقریبات کے لئے جو دعوت نامے چھپواتے ہیں، اس میں جو بھی وقت لکھا ہوتا ہے، نہ میزبان خود اس پر تھوکتا ہےنہ مہمان اس کی پروا کرتے ہیں۔ پوری ’’دیگ‘‘ کو جاننے کے لئے اس مثال کا ایک دانہ ہی کافی ہے۔

نتیجہ یہ کہ اس ساری نوٹنکی سے ہی نفرت ہوجاتی ہے لیکن پھر ’’نم ا ور غم اور ہم‘‘ کی اس برمودہ ٹرائی اینگل میں جب کچھ روشن پہلو سامنے آتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ کوئی ہے اس زبوں حال اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو ہمارے بچوں کی اکثریت کو ایسا کردے؟کیساکردے؟

چشم بددورAاورO لیول کےCambirdge Examsمیں پاکستانی طلبہ نے جو ٹاپ کیا، ایک ریکارڈ ہے تو ہماری سیاسی و دیگر اشرافیہ اگر تھوڑی سی بھی سنبھل جائے تو ان بچوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ اگر یہ بچے نامساعد ترین اجتماعی ماحول میں اس طرح پرفارم کرسکتے ہیں تو جن کروڑوں بچوں کو ٹاٹ سکول بھی نصیب نہیں ہوتا۔

اگر وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوجائیں تو کیا نہیں ہوسکتا؟’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق پاکستان ان گیارہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو 21ویں صدی میں دنیا کی بڑی معیشتیں بننے کی ’’ممکنہ صلاحیت‘‘ رکھتا ہے یعنی …….

’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ لیکن اس’’ممکنہ صلاحیت‘‘ کو یقینی کون بنائے گا؟ بیج اچھا، زمین زرخیز لیکن یہ’’نم‘‘ کہاں سے آگے گا کہ جہاں چوکیدار ہی چور ہوں، باڑ ہی کھیت کو کھارہی ہو وہاں صرف Potentialکون سا ہیپل یا برگد اکھاڑ لے گا؟

سونے کو زیور، لکڑی کو فرنیچر، کینوس اور رنگوں کو مہنگی ترین پینٹنگ ، پتھر کو فصیل، ایٹم کو ایٹمی قوت(تعمیری)، لوہے کو ڈھال میں ڈھالنے کے لئے مخلص لوگ کہاں سے آئیں گے؟

پاکستانیوں کو دنیا کے چوتھے ذہین لوگ قرار دیا گیا ہے۔ یہ درست کہ وکٹری سٹینڈ پر ون، ٹو، تھری یعنی صرف تین پوزیشنز ہی ہوتی ہیں لیکن اگر بھوک، ننگ، کم خوراکی، ملاوٹ وغیرہ پر قابو پالیا جائے اور تعلیم+ہیلتھ کنڈیشنز امپروو کرلی جائیں تو شاید پاکستانی تیسری پوزیشن حاصل کرلیں جو بہت بڑی بات ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دو نمبر کاموں میں ایک نمبر لوگوں کو سازگار صحتمند ماحول کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت مل جائے تو یہی لوگ دونمبری میں ایک نمبر ہونے کی بجائے ایک نمبر کاموں میں دوسری یا تیسری پوزیشن بھی حاصل کرسکتے ہیں۔پاکستان ابھی تک وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے نامساعد ترین حالات اور دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی قوت ہونے کا سٹیٹس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین میزائل ٹیکنالوجی سے خود کو لیس کیا۔

اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور بیحد پروفیشنل ائیر فورس اس کے علاوہ۔’’گلف نیوز‘‘ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ دنیا میں سائنسدانوں اور انجینئرز کے پول میں بھی پاکستان کی 7ویں پوزیشن ہے جو ظاہر ہے کرپٹ ترین اشرافیہ کی موجودگی میں ایک غیر معمولی اچیومنٹ ہے۔ یہی عوام دشمن اشرافیہ اگر عوام فرینڈلی اشرافیہ کے ساتھ ری پلیس کردی جائے تو اندازہ لگائیں یہ راندہ درگاہ ہجوم قوم بن کر کہاں پہنچ سکتا ہے۔

اور یاد رہے دنیا کا چوتھا بڑاInternet Brod Band System بھی پاکستان میں ہے۔ٹورازم کے حوالہ سے دنیا کی بلند ترین Mountain ranges بھی پاکستان میں ہیں اور یہ ملک تھوڑی توجہ ملنے پر سرجیکل انسٹرومنٹس بنانے میں بھی کوئی ٹاپ پوزیشن حاصل کرسکتا ہے اور دنیا کے50فیصد فٹ بال تو پاکستان بنتا ہی ہے تو یہ ملک خود کیوں مخصوص مافیاز کے لئے فٹ بال بنا ہوا ہے؟

مٹی بھی ٹھیک………..بیج بھی اچھا……….. موسم بھی سازگار اور اگر ان سب کے مطابق ضروری’’نم‘‘ بھی مل جائے تو کیا نہیں ہوسکتا ؟
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے