اور مذاکرات ناکام ہوگئے

اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ کے قریب ایک بڑی خوبصورت جگہ ہے جو شکر پڑیاں کہلاتی ہے۔ شکر پڑیاں پر بنائے گئے پاکستان مونومنٹ کو دیکھ کر بڑے سے بڑا زیرو پاکستانی اپنے آپ کو ہیرو سمجھنے لگتا ہے۔

15؍اکتوبر کی شام برطانوی ہائی کمیشن نے اسی پاکستان مونومنٹ کے سائے میں برطانیہ کے شہزادہ ولیم اور اُن کی اہلیہ کیٹ کے اعزاز میں ایک یادگار استقبالئے کا اہتمام کیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی اہم شخصیات کو شاہی جوڑے سے ملوانا تھا۔

پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو کی دعوت پر ہم شاہی جوڑے کے اعزاز میں استقبالیے کے لئے شکر پڑیاں پہنچے تو یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمیں کار پارکنگ سے پاکستان مونومنٹ تک خوبصورت رکشے میں بیٹھ کر جانا تھا۔

جب ہم رکشے سے اُترے تو برطانوی ہائی کمیشن کا عملہ اپنی مسکراہٹوں کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھا۔ شاہی جوڑے کی سیکورٹی کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے گئے تھے لیکن کسی کو تنگ کیا جا رہا تھا نہ مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا تھا۔

ایک اور خوشگوار حیرت یہ تھی کہ شاہی جوڑا بھی رکشے میں بیٹھ کر آیا۔ دونوں میاں بیوی نے پاکستانی پرچم کے رنگ والا سبز لباس پہن رکھا تھا۔ اس سبز لباس اور رکشے کی سواری نے عام پاکستانیوں کے دلوں میں اس جوڑے کے لئے محبت اور احترام پیدا کر دیا لیکن کچھ بہت خاص پاکستانی ایسے بھی تھے جو پاکستان مونومنٹ تک رکشے میں بیٹھ کر آنے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ وہ اپنے سبز جھنڈے اور سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیوں سے وہاں اُترے۔

استقبالیے میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی بھرمار تھی۔ بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری کو مسلم لیگ(ن) کی خواتین اراکین پارلیمنٹ نے گھیر رکھا تھا اور مریم اورنگ زیب اپنی ساتھیوں کا تعارف کروا رہی تھیں۔

حکومت کے وزراء مختلف ٹولیوں میں کھڑے مسلسل مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں باتیں کر رہے تھے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ مولانا آئیں گے یا نہیں آئیں گے؟

میں بار بار یہ سوال سُن کر بار بار ہنس رہا تھا اور بار بار پوچھ رہا تھا کہ میرے عزیز وزیر صاحبان حکومت میں آپ ہیں یا میں؟ وہ جواب میں صرف مسکرا دیتے اور اس مسکراہٹ میں موجود اُن کی بےبسی اور بےخبری نے مجھے بار بار اندر سے ہلا دیا۔

ایک وزیر نے مجھے پاکستان مونومنٹ کے ہلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی جگہ ہے نا جہاں آپ نے کچھ سال قبل عمران خان کے ساتھ کیپٹل ٹاک کیا تھا؟

میں نے کہا جی ہاں یہ وہی جگہ ہے جہاں عمران خان کے ساتھ کیپٹل ٹاک میں خورشید شاہ شریک تھے۔

اس وقت دونوں اپوزیشن میں تھے اور ایک دوسرے کی تائید کر رہے تھے آج خان صاحب وزیراعظم ہیں اور خورشید شاہ نیب کے قیدی بن چکے ہیں۔ وزیر نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان مونومنٹ کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟

میں نے بتایا اسے اردو میں ’’یاد بودِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یادگار پاکستان تو لاہورمیں ہے۔ ’’یاد بودِ پاکستان‘‘ وزیر صاحب کے سر کے اوپر سے گزر گئی۔

انہوں نے کچھ سوچا اور پھر پوچھا یار یہ لانگ مارچ کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی کہا کہ لانگ مارچ کو اُردو میں ڈانگ مارچ کہتے ہیں؟

وزیر صاحب نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ میں نے بتایا کہ ہر لانگ مارچ میں ڈانگیں ضرور چلتی ہیں اس لئے اردو میں لانگ مارچ کو ڈانگ مارچ کہنا غلط نہیں۔

نجانے وہ خود پریشان تھے یا مجھے پریشان کر رہے تھے۔ پوچھنے لگے کہ یہ بتایئے لاک ڈائون کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابھی لاک ڈائون کا باقاعدہ اعلان تو نہیں ہوا لیکن جس لاک ڈائون کا اعلان 2016میں عمران خان نے کیا تھا اُس کا مطلب تھا ’چاروں شانے چت‘۔

یہ سُن کر وزیر صاحب نے نفی میں سر ہلانا شروع کر دیا اور زخمی زخمی سے اعتماد کے ساتھ کہا ’’نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا‘‘۔

اب میں نے بھی اُن کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یوٹرن کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دینے کے بجائے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔

دائیں طرف کچھ فاصلے پر وزیر داخلہ اعجاز شاہ کھڑے تھے اور بائیں طرف گورنر پنجاب چوہدری سرور بڑی گرمجوشی کے ساتھ جہانگیر ترین کو گلے لگا رہے تھے۔

میں نے پھر پوچھا کہ یوٹرن کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ وزیر صاحب تھوڑا تلخ ہو کر کہنے لگے کہ اگر آپ سڑک پر جا رہے ہوں اور آگے دیوار آ جائے تو آپ دیوار میں ٹکر نہیں ماریں گے بلکہ یوٹرن لیں گے تاکہ حادثہ نہ ہو جائے۔

میں نے مسکرا کر اُن کو داد دی اور کہا کہ آپ نے یوٹرن کا وہی مطلب بیان کیا جو عمران خان بھی بیان کر چکے ہیں تو وقت آ گیا ہے کہ آپ یہی والا یوٹرن لے لیں اور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ حکومت براہ راست مذاکرات کرے ورنہ کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جائے گا۔

وزیر صاحب نے بتایا کہ مذاکرات تو ہو رہے ہیں اور شیخ رشید احمد نے ان مذاکرات کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جن مذاکرات کی طرف شیخ صاحب نے اشارہ کیا وہ ناکام ہو چکے ہیں۔

وزیر صاحب نے کہا تو پھر کوئی بات نہیں ہم مولانا کو گرفتار کر لیں گے، جو غلطی نواز شریف نے کی تھی وہ ہم نہیں کریں گے۔ میں نے پوچھا نواز شریف نے کیا غلطی کی تھی؟

وزیر صاحب نے شان بے نیازی سے کہا کہ نواز شریف نے ہمیں ڈی چوک تک آنے کی اجازت دے دی تھی اور عمران خان کو گرفتار نہیں کیا تھا لیکن ہم مولانا کو گرفتار کر لیں گے۔

میں نے کہا آپ جو مرضی کریں مولانا کی گرفتاری اُن کی کامیابی بن جائے گی۔

گفتگو کے دوران یوسف رضا گیلانی صاحب آ گئے جنہوں نے کچھ دن پہلے پیپلز پارٹی کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اُنہوں نے مجھے اپنا موقف تفصیل سے بتایا۔

قریب کھڑی مریم اورنگزیب نے کہا ہمارے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ نواز شریف کا حکم آ چکا، اب آپ مولانا کے جلسے میں خواتین کو بھی دیکھیں گے۔

میں نے پوچھا کہ اگر پھر سے مذاکرات شروع ہو گئے؟ انہوں نے جھٹ کہا مولانا ہمیں سب بتا چکے ہیں اُن کے مذاکرات ناکام ہو چکے، اب آزادی مارچ ہو کر رہے گا۔ شکر ہے کہ شاہی جوڑا آزادی مارچ سے پہلے آیا اور پہلے ہی واپس چلا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے