’’فن جو نادار تک نہیں پہنچا‘‘

عام طور پر معرفت اور عسرت، گیانی اور بے سروسامانی،تپسیا اور تنہائی وغیرہ لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں لیکن شاید تصویر کا اک دوسرا رخ بھی ہے۔ اس حکایت کا پیغام بظاہر عجیب سا ہے لیکن شاید یہی بہت بڑا چیلنج ہو، ویسے کہانی سچی ہے۔

سکھدیو سچ کی تلاش میں قریہ قریہ گھوما، نامی گرامی جوگیوں سے ملا، چلے کاٹے، تپسیائیں کیں لیکن قرار نصیب نہ ہوا۔ بے چینی، بے سکونی اور ادھورا پن اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔

تھک ہار کر اس نے اپنے باپ بیدبیاس سے کہا ’’میں چاہتا ہوں مجھے گیان حاصل ہو، جیون مکت کا مرتبہ ملے لیکن کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا‘‘ باپ نے کہا ’’بہتر ہوگا تم راجہ جنک جی کے پاس جائو کیونکہ طالب صادق ہے، ممکن ہے تمہاری مشکل آسان ہو جائے۔‘‘

سکھدیو اک طویل تھکا دینے والے سفر کے بعد راجہ کی اٹاری پہنچا۔ کروفر، طمطراق، شان و شوکت دیکھ کر حیران پریشان سکھدیو نے سوچا ،’’باپ نے شانتی کی تلاش میں مجھے کس نگر میں کس شخص کے پاس بھیج دیا۔‘‘ واپس لوٹ جانے کا سوچا لیکن پھر خیال آیا کہ پُرصعوبت سفر کا حتمی نتیجہ دیکھے بغیر پلٹ جانا مناسب نہ ہوگا سو دربانوں سے درخواست کی کہ جنک جی کو میری حاضری کی اطلاع دو اور بتائو بید بیاس جی کا پتر سکھدیو آیا ہے۔

جنک جی کو اطلاع دی گئی۔ راجہ نے کہا ’’ٹھیک ہے کھڑا رہنے دو‘‘ سکھدیو بھوکا پیاسا کھڑا رہا تو پیغام ملا ’’پچھلے دروازے پر آئو‘‘ تیسرے دن تیسرے دروازے پر حاضر ہونے کا حکم ملا اور طویل انتظار کے بعد اندر بلا لیا گیا۔ سکھدیو نے دنیا داری کے سارے سامان، ٹھاٹھ باٹھ، کنیزیں، غلام دیکھے، تزئین وآرائش پر نظر ڈالی تو خیال آیا ……’’ یہ خود تو جگت بیوپاری ہے، مجھے کیا خاک تعلیم دے گا۔‘‘

ادھر دور تخت پر براجمان جنک جی پر اس کے تمام خیالات اور وسوسے منکشف ہو رہے تھے۔ آمد کا مقصد پوچھا اور مہمان خانہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ چند روز بعد پوری جاگیر میں کھیل تماشے، رقص وسرود، ناچ رنگ شروع ہو چکے تو سکھدیو کو طلب کیا اور دودھ کا اک بڑا پیالہ اسے تھماتے ہوئے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ’’اس نوجوان کو پوری جاگیر کی پوری سیر کرائو، کھیل تماشے، بازی گری، نٹ، بھانڈ، رقص سب کچھ دکھائو لیکن اگر اس پیالے سے ایک قطرہ دودھ بھی گرے تو چابک مار مار کر اس کی کھال ادھیڑ دو۔ زندہ نہ بچے۔‘‘

حکم کے مطابق چاجک سوار صبح سے لے کر شام تک سکھدیو کو اپنے نرغہ میں لئے پوری جاگیر گھماتے رہے لیکن ہر چاسک سوار کی نظریں دودھ کے پیالے پر تھیں کہ ایک قطرہ بھی گرے تو اس کی چمڑی ادھیڑدیں۔شام ڈھلے جنک جی کے حضور پیش ہوئے تو سپاہیوں سے پوچھا ’’دودھ تو نہیں چھلکا‘‘ جواب عرض کیا ’’اگر ایسا ہوتا تو سکھدیو کے جسم پر کھال باقی نہ ہوتی‘‘۔

پھر راجہ نے سکھدیو کے زرد چہرے ، لرزتے ہوئے بدن کو دیکھا اور دریافت کیا کہ ’’آج تو تم جی بھر کے لطف اندوز ہوئے ہوگے، ناچ گانے و دیگر مشاغل سے خوب دل بہلایا ہوگا؟‘‘ سکھدیو نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

’’راجہ جی! مجھے تو دودھ سے بھرے اس کٹورے کے خیال نے ادھر ادھر دیکھنے کا ایک لمحہ نہیں دیا۔ ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہا کہ اگر دودھ کا قطرہ بھی گر گیا تو آپ کے یہ چابک سوار مار مار کر میری چمڑی ادھیڑ دیں گے۔

تماشے کیا دیکھتا مجھ کو تو بجز دودھ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا، میں کھیل تماشوں کے بیچ سے گزرا تو ضرور ہوں لیکن ادھر ادھر دیکھنے کا تو ہوش ہی نہ تھا۔‘‘راجہ جنک نے پہلی بار سکھدیو کو محبت اور مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا، اپنے قریب بلایا، سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا، ماتھا چوما اور اپنے ساتھ بٹھا کر کہا…….

’’پتر! جس طرح تم پر یہ ایک دن گزرا، میری پوری زندگی بالکل اسی طرح گزری ہے اور تمہارے پتا اس بات سے بخوبی واقف ہیں ورنہ تمہیں تربیت کے لئے میرے پاس کبھی نہ بھیجتے۔ اس دولت، حشمت، شان و شوکت و ثروت و ظاہر کو دیکھ کر جو تم نے سوچا، قیاس کیا، سب دراصل اس کے الٹ اور برعکس ہے‘‘…….

سمجھ لو کہ سپاہی ملک الموت تھے، تن پیالہ، من دودھ اور راگ رنگ کھیل تماشے اس فانی زندگی کا فریب، سراب اور دھوکہ۔‘‘واقعی جس کے پاس ہے ہی کچھ نہیں، اس کے لئے نہ کوئی چیلنج نہ امتحان، اسی لئے کہتے ہیں کہ قدرت کا ہر انعام دراصل اک پوشیدہ امتحان ہوتا ہے جس پر کوئی نادان ہی فخر کرسکتا ہے۔

جس کے پاس جتنا ہو، اسے اتنا ہی ڈرنا اور محتاط رہنا چاہیے کہ اگر ’’نہ ہونا‘‘ امتحان ہے تو ’’ہونا‘‘ اس سے بھی کہیں کڑا اور بڑا امتحان ہے۔یہاں اک سوال جنم لیتا ہے کہ ’’ہونے‘‘ کی طویل فہرست میں سب سے اوپر، سر فہرست کیا ہے؟ تو یہ ہے حکمرانی۔ کسی فانی انسان کو لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی وقتی طورپر مالکی، مختاری، نگہبانی کا مل جانا انگاروں یا کئی تلواروں کی دھاروں پر ننگے پائوں چلنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟

ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا:فن جو نادار تک نہیں پہنچا اپنے معیار تک نہیں پہنچا اس شعر کو عموماً بہت ہی محدود معنوں میں سمجھا اور بیان کیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر کے سب سیانے اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کا عظیم اور اتم ترین ’’فن‘‘ دراصل ’’حکمرانی‘‘ ہے جسے آج کل ’’گورننس‘‘ کہا جاتا ہے اور ’’گورننس‘‘ کی انتہا کیا ہے؟

صرف اور صرف اتنی کہ اس کا ’’پھل‘‘ نادار تک بھی پہنچے، محروموں تک بھی پہنچے اور اگر ایسا نہیں تو الامان الحفیظ ، یہ گورِ عذاب سے کم نہیں جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے …….’’آئندہ 5 سال تک خیر کی کوئی خبر نہیں۔‘‘ مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ میرے اندازہ کے مطابق ’’کہانی‘‘ 5 سال سے بھی 5 ہاتھ آگے کی ہے اور یہ بات میں بڑی دیر سے بول بھی رہا ہوں، لکھ بھی رہا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے