مردانہ، زنانہ حقوق!

جتنا مشکل جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے اتنا ہی مشکل کسی ایسی صورتحال میں سچ بولنا ہے جو عوام یا خواص میں رواج پا چکا ہو۔ میں اِس وقت کچھ اِسی قسم کا سچ بولنے کے موڈ میں ہوں۔ ہمارے ہاں تحریکِ آزادیٔ نسواں آہستہ آہستہ دلوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے عوامی شعور کے سبب یہ بات اب کافی لوگوں کو سمجھ آنے لگی ہے کہ عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر اُن میں سے ایک پہیے کو ناکارہ بنا دیا جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔

اگر ایک طبقہ آزادیٔ نسواں کا مطلب مادر پدر آزادی لیتا ہے جو ہماری اخلاقی قدروں سے لگا نہیں کھاتی تو مستقبل قریب میں اس ’’تحریک‘‘ کی کامیابی کا کوئی چانس نہیں لیکن اگر اس سے مراد عورت کو مرد کے صدیوں پرانے غلامی کے شکنجے سے آزاد کرانا اور اسے سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہے تو کم از کم شہروں میں اس ’’تحریک‘‘ کو تھوڑی بہت کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے۔ آج کی عورت ہم سے خصوصی سلوک کا نہیں، برابری کے سلوک کا مطالبہ کرتی ہے۔ وہ مجھ سے اور آپ سے انہی حقوق کی طلب گار ہے جو ہم مردوں کو حاصل ہیں۔ گو یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا واقعی ہم مردوں کو بھی وہ حقوق حاصل ہیں جو آئین نے ہمیں دئیے ہیں؟ یہ سوچ کی ایک دوسری نہج ہے۔ فی الحال عورت اور مرد میں برابری کے اصول کی بات ہو رہی ہے۔ سو جہاں برابری کے اصول کی بات ہو رہی ہو، وہاں پر برابری ہی نظر آنا چاہئے جو نہیں نظر آ رہی!

مجھے یہ بات کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہو رہی ہے کہ کسی محفل میں دیر سے آنے والوں کے لئے سب کو ان کے ’’استقبال‘‘ میں اپنی نشست سے اٹھنا پڑتا ہے۔ محفل میں مقررہ وقت کے بجائے دیر سے آنا اور پھر لوگوں کا اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان کا استقبال کرنا، یہ دونوں رویے ہماری ’’مشرقی اقدار‘‘ کی دین ہیں مگر میں کچھ عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ کسی خاتون کی آمد پر تو سب مرد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن کسی مرد کی آمد پر خواتین اپنی نشست سے چمٹی رہتی ہیں۔ شاید یہ چیز آج کے ادب و آداب میں شامل ہے کہ خواتین کے احترام میں کھڑا ہوا جائے اور دوسری طرف عورتوں کو یہ پری ولیج (PREVILIGE) حاصل ہے کہ وہ مردوں کے آنے پر بیٹھی رہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ خواتین برابری کے مطالبے سے آہستہ آہستہ دستبردار ہو رہی ہیں چنانچہ وہ صرف اسی صورتحال میں خصوصی رویے کی خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ مردوں سے توقع رکھتی ہیں کہ بسوں وغیرہ میں سفر کے دوران اگر وہ کھڑی ہیں تو مرد ان کے لئے نشست خالی کریں اور اکثر مرد ایسا کرتے ہیں۔ ان کے لئے کار کا دروازہ کھولیں، مختلف مواقع پر ’’لیڈیز فرسٹ‘‘ کے اصول کو اپنا کر مردانہ شولری (CHIVALORY)کا مظاہرہ کریں۔ ان کے لئے ایئر پورٹس، بینکوں اور سنیما کے بکنگ آفس وغیرہ میں مردوں سے الگ قطاریں ہوں۔ میرے خیال میں یہ سب باتیں ہمارے کلچر کا حصہ ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن دوسری طرف یہ ’’برابری‘‘ کے مطالبے کے منافی ہی ہیں اور یوں حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کو اس حوالے سے ضرور سوچنا چاہئے۔

میں نے ایک بات اور بھی محسوس کی ہے اور وہ یہ کہ جب کسی محفل میں کوئی عالی مرتبت وزیراعلیٰ، وزیراعظم یا صدر اور یا کوئی اسی طرح کی ’’بم‘‘ شخصیت آتی ہے تو وہ خواتین ہی اپنی نشست سے اٹھ کر اس کا استقبال کرتی ہیں جو کسی ادیب، کسی مصور یا کسی سائنسدان کے احترام میں کھڑا ہونا اپنے وقار کے منافی سمجھتی ہیں تو گویا اس معاملے میں بھی ’’برابری‘‘ کے ’’اصول‘‘ کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ خواتین شاید مجھ سے اتفاق کریں کہ عورت اور مرد کی برابری کے مطالبے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حوالے سے ہونے والے خصوصی سلوک بھی مردانہ شائونزم ہی کی ذیل میں آتا ہے۔

عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی ایسی بہادر خواتین کو مطالبہ کرنا چاہئے کہ کوئی خاتون کسی مرد کا استقبال کھڑے ہو کر نہ کرے اور کسی مرد کو بھی یہ جرأت نہیں کرنا چاہئے کہ وہ خواتین کو بالواسطہ طور پر احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کے لئے اپنی نشست سے اٹھ کر ان کا استقبال کرے اور یا پھر برابری کے اصول کے تحت دونوں ایک دوسرے کا استقبال احتراماً کھڑے ہو کر کریں۔ عورت اور مرد دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور دونوں کے حقوق بھی برابر ہیں اور ایک دوسرے کا احترام دونوں پر واجب ہے۔

ایک اور بات اس وقت جس ظالمانہ نظام میں پاکستانی عوام پس رہے ہیں، یہ نظام اپنا نشانہ کسی ایک صنف کو نہیں بنا رہا بلکہ یہ نظام بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب و ملت ہم سب کو ناانصافی کے کٹہرے میں کھڑا کئے ہوئے ہے چنانچہ ہم میں سے جو زیادہ پسماندہ ہیں، ان کے حقوق کیلئے جنگ کے ساتھ ساتھ ہمیں اس نظام کے خلاف بھی اٹھ کھڑا ہونا ہے، جس نے ہم سب کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں۔ یہ جنگ عوام کو خود لڑنا ہوگی، سیاسی جماعتیں آئین، عدلیہ، اپوزیشن اور حکومت کے چکر میں پھنسی ہوئی ہیں اور شاید یہ بھی ایک ضروری کام ہے لیکن ہمیں اداروں کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی آزادی کیلئے بھی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس کیلئے قیادت ہمارے درمیان سے پھوٹنی چاہئے۔ دیکھتے ہیں اور کون کون شہسوار میدان میں اترتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے