حکیم سعیدکو سلیبس میں شامل کریں

حکیم سعید شہید میں تین حیران کن خوبیاں تھیں۔

یہ17 اکتوبر 1998 کو شہید ہوئے‘ آج انھیں دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال ہو چکے ہیں لیکن میں نے ان21 برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزارا جب میں نے حکیم صاحب اور ان کی تینوں خوبیوں کو یاد نہ کیا ہو‘ یہ مجھ سمیت ان ہزاروں لوگوں کے محسن ہیں جن تک یہ خوبیاں پہنچیں اور ان کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں‘ان کی لائف اور مائینڈ دونوں چینج ہو گئے‘ 17 اکتوبر کو حکیم صاحب کی برسی تھی۔

میں ہر سال خاموشی کے ساتھ ان کی برسی مناتا ہوں‘ دعا کرتا ہوں‘ سارا دن ان کی کتابیں پڑھتا ہوں‘ پرانے نوٹس نکال کر دیکھتا ہوں اور حکیم صاحب کو ان کی طلسماتی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھا دیکھتا ہوں اور اپنے آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں ان شاء اللہ اگلے سال بھی حکیم صاحب کی ہدایات پر عمل کی کوشش کروں گا تاہم میں یہ اعتراف بھی کرتا چلوں میں کوشش کے باوجود حکیم صاحب کی ایک بھی خوبی پیدا نہیں کر سکا۔

حکیم سعید واقعی حکیم سعید تھے‘ ہم میں سے کوئی ان جیسا نہیں بن سکتا اور شاید ہمارے ملک کو ان جیسا کوئی دوسرا شخص بھی نصیب نہ ہو سکے‘ حکیم صاحب میں لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے اور تعلق کو نبھانے کی غیر معمولی صلاحیت تھی‘ وہ نکمے ترین لوگوں کو بھی اپنے ساتھ چلا لیتے تھے‘ میں نے ان سے ایک دن پوچھا ’’حکیم صاحب آپ کے اردگرد پرانے لوگ زیادہ ہیں‘ آپ نئے لوگوں کو ٹرائی کیوں نہیں کرتے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں اپنے ادارے کے لوگوں کو اپنا خاندان سمجھتا ہوں اور خاندان کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ رشتے عمر بھر کے ہوتے ہیں‘ آپ آتے جاتے‘ چلتے پھرتے چچا‘ ماموں یا پھوپھی تبدیل نہیں کر سکتے‘ میری زندگی میں بھی جو آ گیا وہ بس آ گیا اور وہ میرے بعد بھی میرے ساتھ رہے گا‘‘۔

مجھے یہ بات اس وقت سمجھ نہیں آئی لیکن آہستہ آہستہ پتا چلا آپ کتنے اچھے ہیں یہ فیصلہ آپ کے ساتھی‘ آپ کے ملازمین کرتے ہیں‘ میں بیس برسوں سے سیلف ڈویلپمنٹ‘ سیلف ہیلپ‘ گرومنگ اور موٹی ویشن کا کام کر رہا ہوں‘ میں اکثر سیشنز میں اپنے مہمانوں کو حکیم سعید کی مثال دیتا ہوں اور پھر عرض کرتا ہوں آپ نے اگر کسی شخص کو جج کرنا ہو تو آپ صرف یہ دیکھ لیں اس کے دوست‘ اس کے ملازم اور اس کا ادارہ کتنا پرانا ہے؟

آپ چند منٹوں میں نتیجے پر پہنچ جائیں گے‘ ہم میں سے جولوگ جلدی جلدی دوست‘ ملازم اور اپنے ادارے تبدیل کرتے ہیں وہ لوگ متوازن بھی نہیں ہوتے‘ وفادار بھی نہیں اور بااعتماد بھی نہیں‘ آپ خود فیصلہ کیجیے جو شخص اپنے دوستوں‘ اپنے ملازموں اور اپنے دفتر کو اپنا نہیں بنا سکا وہ کس کا ساتھ نبھائے گا‘ وہ کس کے ساتھ چل سکے گا؟ حکیم سعید میں یہ حیران کن خوبی تھی‘ آپ کو آج بھی ہمدرد میں ایسے بزرگ ملیں گے جو عین جوانی میں حکیم صاحب کے پاس آئے اور حکیم صاحب کی شہادت کے بعد بھی ان سے وابستہ رہے‘ یہ پاکستان کا واحد پرائیویٹ ادارہ ہے جس میں لوگ پنشن لے کر ریٹائر ہوتے ہیں‘ حکیم صاحب کی دوسری خوبی وقت کا استعمال تھا۔

اللہ تعالیٰ اس زمین پر ہر شخص کو برابر وقت دیتا ہے‘ آپ اور میں ہوں یا پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں ہم سب کے پاس ایک جتنا دن اور ایک جیسے 24 گھنٹے ہوتے ہیں لیکن ہم سے کچھ لوگ آگے نکل جاتے ہیں اور کچھ پتھر بن کر راستے کے کنکر بن جاتے ہیں‘ کیوں؟ فرق صرف وقت کے استعمال کا ہوتا ہے‘ آگے نکلنے والے 24 گھنٹوں کو مکمل استعمال کر لیتے ہیں جب کہ پیچھے رہ جانے والے وقت کو خارش بنا کر ضایع کر دیتے ہیں‘ حکیم سعید دنیا کے ان خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کوئی لمحہ ضایع نہیں کیا‘ حکیم سعید نے ہمدرد فائونڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے اداروں کے ساتھ 200 کتابیں لکھیں۔

یہ ہمدرد صحت اور بچوں کے لیے نونہال جیسے میگزین بھی نکالتے تھے‘ یہ پوری زندگی مطب بھی جاتے رہے‘ مریض بھی دیکھتے رہے‘ سیکڑوںادویات بھی بنائیں‘ روح افزاء جیسا مشروب مشرق بھی ایجاد کیا اور یہ ان کے ساتھ ساتھ ہر خط بھی پڑھتے تھے اور اس کا اپنے ہاتھ سے جواب بھی لکھتے تھے‘ آپ کمال دیکھیے اب تک حکیم سعید کے ہاتھ کے لکھے ہوئے لاکھ سے زیادہ خطوط جمع ہو چکے ہیں‘ آپ زندگی میں ایک لاکھ خط پڑھ اور لکھ کر دکھا دیجیے‘ میں آپ کے ہاتھ چوم لوں گا لیکن حکیم صاحب نے یہ بھی کیا اور یہ اس کے ساتھ ہمدرد جیسے ادارے بھی بناتے رہے‘ کیا یہ کمال نہیں؟

میں نے ایک دن ان سے پوچھا ’’آپ یہ سب کچھ کیسے مینج کر لیتے ہیں‘‘ وہ بولے ’’میں وقت ضایع نہیں کرتا‘ میں ایک ایک لمحے کو زندگی جتنا اہم سمجھتا ہوں‘‘ وہ گاڑی میں ہوتے تھے یا جہاز میں وہ مسلسل لکھتے رہتے تھے‘ وہ روزانہ کی ڈاک ساتھ لے کر سفر کرتے تھے‘ وہ جہاں وقت پاتے تھے خط نکالتے تھے‘ پڑھتے تھے اور اس کے پیچھے جواب لکھ دیتے تھے‘ حکیم صاحب نے چالیس سے زائد ممالک کا سفر بھی کیا‘ وہ فرماتے تھے ’’تم اگر اللہ کی نعمتوں کا اندازہ کرنا چاہتے ہو تو تم دنیا دیکھو‘ تمہیں زمین کا چپہ چپہ حیران کر دے گا‘ وہ 1920 میں پیدا ہوئے تھے اور 1998 میں شہید کر دیے گئے‘ ان کی عمر 78 سال تھی‘ وہ جاتے جاتے ثابت کر گئے ہم اگر زندگی میں کچھ کرنا چاہیں تو 78 سال بھی کم نہیں ہوتے‘ ہم ان 78 برسوں میں بھی دنیا کو حیران کر سکتے ہیں۔

میں نے حکیم سعید کے بعد ’’وال مارٹ‘‘ کے مالک سیم والٹن میں یہ خوبی دیکھی‘ یہ 74سال کی عمر میں انتقال کر گئے لیکن یہ دنیا میں مالز کی سب سے بڑی چین بنا گئے‘ ان کے اسٹورز کی تعداد 11ہزار 7سو66ہے‘ ہم اگر ’’وال مارٹ‘‘ کے تمام برانڈز ‘ کمپنیوں کے آئوٹ لیٹس اور دفتر بھی ان میں شامل کر لیں تویہ تعداد تیس ہزار بن جاتی ہے‘ آپ سیم والٹن کی ایمپائر کا اندازہ کیجیے وال مارٹ کے ملازمین کی تعداد 24 لاکھ ہے‘ پارکنگ کاکل رقبہ فلوریڈا سٹیٹ کے کل رقبے کے برابر ہے اور سیم والٹن اگر روزانہ اپنے دفاتر کا دورہ شروع کر دیتا تو اسے واپس اپنے پہلے دفتر آنے میں 35 سال لگ جاتے چناں چہ حکیم سعید کی طرح سیم والٹن نے بھی ثابت کر دیا آپ اگر کرنا چاہیں تو پھر ایک زندگی بھی کم نہیں ہوتی۔

آپ ستر پچھہتر سال میں بھی کمال کر سکتے ہیں اور آپ اگر کچھ نہ کرنا چاہیں تو پھر عمرخصر بھی کم پڑ جاتی ہے‘ میں اس وقت ناپختہ جذباتی نوجوان تھا‘ میں حکیم صاحب سے ملتا رہا اور وہ مجھ پر اثر انداز ہوتے رہے‘ وہ مجھے کہتے تھے ’’بیٹا کچھ بھی ہو جائے وقت ضایع نہ کرنا‘ فضول گفتگو نہ کرو‘ لوگوں کو ناراض کرنے اور منانے میں بہت وقت ضایع ہو جاتا ہے‘ آپ کسی کو ناراض نہ کرو‘ کسی کو نہ منائو‘ سب کے ساتھ اچھے ہو جائو‘ وقت بچ جائے گا‘ وہ کہتے تھے چغل خوری اور غیبت وقت اور توانائی دونوں کا زیاں ہے‘ ان سے بچ جائو‘‘ اور لوگوں کے ساتھ کنکشن حکیم سعید کی تیسری حیران کن خوبی تھی‘ وہ جب بھی کسی تقریب میں جاتے تھے تو وہ اس علاقے میں موجود اپنے مریضوں کے نام‘ پتے‘ مرض اور ادویات کی فہرست ساتھ لے جاتے تھے۔

وہ فنکشن سے پہلے کسی نہ کسی مریض کا دروازہ بجا دیتے تھے اور مریض یا لواحقین حکیم سعید کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے‘ وہ دہلیز پر کھڑے کھڑے پوچھتے تھے ’’آپ فلاں تاریخ کو میرے مطب پر تشریف لائے تھے‘ میں نے آپ کو دوا دی تھی‘ کیا آپ کوافاقہ ہوا تھا‘‘ وہ مریض کا فیڈ بیک بھی لکھ لیا کرتے تھے‘ وہ اس کے بعد اگلے مریض کے گھر کی طرف نکل جاتے تھے‘ وہ عموماً ہر فنکشن سے پہلے یا بعد میں چار پانچ مریضوں کے گھروں کا وزٹ کرلیا کرتے تھے‘ یہ شان دار بزنس اسٹریٹجی تھی‘ میں اب تک یہ اسٹریٹجی سیکڑوں لوگوں کو بتا اور سکھا چکا ہوں‘ میں ان سے عرض کرتا ہوں آپ حکیم سعید کی طرح اپنے گاہکوں سے رابطہ کیا کریں‘ آپ ان سے فیڈ بیک لیا کریں‘ یہ فیڈ بیک آپ کے بزنس میں اضافہ کرے گا‘ لوگ آپ کے ساتھ جڑتے رہیں گے۔

حکیم سعید کے معمولات زندگی بھی شان دار تھے‘ وہ جلدی جاگتے تھے‘ صبح فجر کی نماز کے بعد کام شروع کر دیتے تھے‘ مطب کے دن روزہ رکھ کر مریض دیکھتے تھے‘ وہ بہت کم کھاتے تھے‘ وہ پوری زندگی کہتے رہے انسان کے لیے ایک ناشتہ اور ایک کھانا کافی ہوتا ہے‘وہ روزے کے بے انتہا حامی تھے‘ خود بھی روزہ رکھتے تھے اور مریضوں کو بھی تلقین کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے‘ میں نے ان کی کسی کتاب میں پڑھا یہ سوئٹزرلینڈ میں برفباری کے دوران بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے رہے‘ میں انھیں پیر مانتا تھا چناں چہ میں نے ٹرائی کیا اور بری طرح بیمار ہو گیا‘ میں نے ان سے شکوہ کیا۔

وہ ہنس کر بولے ’’عادتیں آہستہ آہستہ بنتی ہیں‘ آپ بھی آہستہ چلیں‘‘ وہ کہا کرتے تھے نہاتے وقت سب سے پہلے پائوں پر پانی ڈالو بالخصوص سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے پائوں دھونے سے انسان کو نزلہ زکام نہیں ہوتا‘ وہ چائے اور کولڈ ڈرنکس کو بیماریاں کہتے تھے‘ نرم مزاج تھے‘ وہ سب کے ساتھ خوش گوار رہتے تھے لیکن اگر کوئی انھیں دعوت دے اور خود وقت پر وہاں موجود نہ ہو یا کسی کا رویہ اچھا نہ ہو تو وہ بری طرح مائینڈ کر جاتے تھے اور واپس آ جاتے تھے اور پھر مڑ کر دوبارہ نہیں جاتے تھے اور آخری بات وہ پیسہ ضایع کرنے کے خلاف تھے‘ فضول خرچی کرتے تھے اور نہ کسی کو کرنے دیتے تھے‘صاحبزادی کے گھر میں ایک کمرے میں رہتے تھے اور اس کمرے کا باقاعدہ کرایہ دیتے تھے‘ وہ حیران کن کردار تھے۔

میں جب لوگوں کو رول ماڈل کی تلاش میں دیکھتا ہوں تو مجھے حکیم سعید یاد آ جاتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں‘ آپ کے پاس حکیم سعید جیسا شخص موجود تھا لیکن آپ پھر بھی رول ماڈل تلاش کر رہے ہیں‘ آپ سے بڑا بے وقوف کون ہے!میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر حکیم سعید کو کورس کی کتابوں میں شامل کر دیں‘ ہماری ہر نسل کو حکیم سعید کی شخصیت سے واقف ہونا چاہیے‘ یہ بھلائے جانے والے انسان نہیں تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے