وزیر اعلی پنجاب کا ایک سال، وعدے نہیں عمل کی تصویر

سردار عثمان بزدار نے ایک سال میں ثابت کیا ہے کہ وہ وعدے نہیں بلکہ عمل پر گامزن ہیں۔شور شرابے سے دور عملی اور وہ کام جن سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔اس کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے ہیں۔من حیث القوم ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ ہمیں وہ کام زیادہ پسند ہیں جن پر واہ واہ ہو، وقتی طور پر تالیاں بجیں ۔ذندہ باد کا شور شرابا ہو ۔اور جب ہلے گلے کی گرد بیٹھ جائے تو پتہ چلے کہ یہ تو سب شور و غوغا تھا۔اور اس کے آخری نتیجہ جس میں عوام کو کچھ ملنا تھا وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور ان کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔

طویل المدت معیاد منصوبے ہی فائدہ مند اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔لیکن یہ منصوبے بنانے والے، میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کو یہ خدشی ہوتا ہے کہ اگر طویل المیعاد منصوبہ بنا تو وہ ان کی حکومت میں شاید نتیجہ خیز ثابت نہ ہو۔اس لیے وہ اس بھاری پتھر کو اٹھانے سے پہلے ہی چوم کا رکھ دیتے ہیں۔یہی باتیں کچھ دن قبل پنجاب کے صوبائی وزیر خواندگی بھائی راجہ راشد حفیظ ، صدر یو ایم ٹی ابراہیم حسن مراد اور میرے ساتھ کر رہے تھے۔کہ یہ ایسی وزارت یے جو کوئی خوشی سے نہیں لیتا اور یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جس کا جانتے بوجھتے کوئی ادراک کرنے کو تیار نہیں۔صرف پنجاب میں 60 لاکھ سے زائد بڑے بچے ان پڑھ رہ گئے ہیں۔اور ان کےلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں گئی۔اور یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔

لیکن اب وہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان کی ھدایات پر ایک طویل المدت منصوبہ بنا رہے ہیں۔اور پہلی مرتبہ پنجاب خواندگی اور غیر رسمی تعلیمی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔

ابراہیم حسن مراد کی پیشکش پر انھوں نےاتفاق کیا کہ اس المیے سے نجات حاصل کرنے کےلیے حکومت اور پرائیوٹ سکیٹر مل کر کام کرے۔اس سلسلہ میں ابراہیم حسن مراد کے تعاون سے جلد ایک میٹنگ منعقد کی جائے گی۔
بہر حال بات ہو رہی تھی کہ کام ہو رہا ہے کہ نہیں۔آج کل دور ہے دکھاوے کا، جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔سردار عثمان بزدار نے اپنی نے اپنی توجہ کام پر مرکوز رکھی۔اور زیادہ وقت میڈیا کے شتر بے مہار گھوڑے کو قابو میں کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے کام پر توجہ دی۔کہ

[pullquote]عطر آں است کے خود ببوید نہ کہ عطار بگوید[/pullquote]

ترجمہ ۔خوشبو وہ ہے جو خود اپنے ہونے کا پتہ دے۔نہ کہ کہ خوشبو بیچنے والے کو بتانا پڑے۔

لیکن اس کے باوجود عوام کو اگر ساتھ ساتھ پتہ بھی ہوتا رہے تو اس کے اپنے الگ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مختلف تجاویز کے حوالے سے اکثر ابراہیم حسن مراد اور میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان اور بھائی سردار اعجاز جعفر صاحب کی سمع خراشی کرتے رہتے ہیں۔چند ماہ قبل دیگر کے علاوہ برادر ابراہیم نے یہ تجویز بھی دی کہ پنجاب حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا مرتب کر کے شائع کی جائے۔جس میں ایک سال کے کام اور آئندہ کی منصوبہ بندی ہو۔پھر حکومتی ذمہ داران کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کو بلایا جائے۔ان کہ سامنے یہ کارکردگی رکھی جائے۔اور اس طرح وہ نہ صرف اس کو پھیلانے کا سبب بنیں بلکہ حکومت کے کاموں میں اپنے آپ کو شریک تصور کریں۔

یہ رپورٹ شائع تو ہو گی لیکن بھلا ہو بیور کریسی کا جو سارے کام کو اپنے دائرے سے نکلنے نہیں دیتی جیسے ریڈیو پر ہاکی کی کمنٹری سنتے تھے کہ بال سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور پھر سمیع اللہ سے کلیم اللہ ،
بیورو کریسی بھی تمام تر سرگرمیاں اسی طرح منعقد کرتی رہتی ہے۔ بیورو کریسی کی اصل کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کے نمائندہ کو عوام سے دوع کر دے۔ابھی بھی صبح شام وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے کانوں میں یہی رس گھولتے ہیں کہ آپ کوئی عام آدمی نہیں شہنشاہ پنجاب ہیں۔تخت لاہور کے وارث، جو بندہ اس تخت پر پہلے بیٹھتا تھا وہ تو کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا۔اور ایم این اے ، ایم پی اے سارا دن اس کے انتظار میں بیٹھتے تھے اور وہ ان کو 24 گھنٹے انتظار کروا کے دو منٹ دیتا تھا اور اس میں بھی ان کو جھاڑ پلا کے رخصت کر دیتا تھا۔۔۔۔۔یہ وہی بیورو کریسی ہے جو صدر ایوب خان کو ایک الگ اخبار چھاپ کے دیتا تھا جس میں صرف ان ہی کی تعریف میں خبریں شائع ہوتی تھیں۔

بہر حال یہ مقابلہ تو جاری ہے۔فی الحال سردار عثمان بزدار شیرینی کے اس رس میں ڈوبنے سے اپنے آپ کو بچائے ہوئے ہیں۔

اور اس کی مثال یہ ہے بھائی سردار اعجاز جعفر سے ہم نے جب یہی پرانی باتیں دہرائیں تو انھوں نے فورا ہمیں سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر صاحب کے سپرد کر دیا۔ان کے توسط سے پہلی کامیابی تو یہ ہوئی کہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ ہمارے ہاتھ آ گئی۔اس کے علاوہ ان سے جو باتیں ہوئیں تو انھوں نے باتیں نہیں کام کی عملی مثال پیش کر دی اور دو دن میں تین سے چار عملی اور کام کی میٹنگز منعقد کیں۔اور اس کے نتیجے ظاہر ہونا شروع ہو رہے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار جو خود ایک دور دراز علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔جہاں بنیادی انسانی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ان کا یہ عزم تھا کہ وہ پورے پنجاب میں ان سہولیات کو پہنچانے کے لیے اپنا دن رات صرف کریں گے۔شیخ رشید نے راولپنڈی میں ایک ماں بچہ ہسپتال کا اہتمام کروا کے آسمان سر پہ اٹھایا ہوا ہے جبکہ وزیر اعلی کی خصوصی توجہ سے میانوالی، لیہ اٹک بہاول نگر اور راجن پور میں 200 بیڈز کے حامل ماں بچہ ہسپتال اینڈ نرسنگ کالج کا قیام کیا گیا۔ہر ایک کی لاگت 4 ارب روپےہے۔ہسپتالوں میں معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے 5۔8 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ملتان میں 6 ارب روپے کی لاگت سے نشتر ہسپتال 2 کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔اس ہسپتال کے لیے زمین حاصل کر لی گئ ہے۔اور منصوبےپر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔

وزیر اعلی پنجاب کے خصوصی اقدامات کے تحت ہیپا ٹائٹس کے مفت علاج کے لیے 84 ہزار سے زاہد مریضوں کی رجسٹریشن کی گئ اور ڈیڑھ لاکھ افراد کی ویکسی نیشن کی گئی۔۔جنوبی پنجاب خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ڈی جی خان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا 4 ارب کی لاگت سے کام جاری ہے۔ٹیچنگ ہسپتال میں گائنی بلاک، ایمرجنسی بلاک، اور او پی ڈی کا قیام 6 ارب 46 کروڑ سے جاری ہے۔اس کے علاوہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں پناہ گاہ اور ٹیلی میڈیسن کی سہولیات پر کام جاری ہے۔
تعلیم کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے پنجاب اسکول ایجوکیشن پالیسی 2019 تشکیل دی گئی۔اس پالیسی کے تحت ادارے میں اصلاحات کے حوالے سے چار بنیادی حصوں کو ترجیح دی گئی۔
جس میں
۔لرننگ
۔میعاری تعلیم تک رسائی
۔مانیٹرنگ
۔گورننس
شامل ہیں۔

اسی طرح مری ، چکوال ، میانوالی ، بھکر اور ننکانہ صاحب میں نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسی طرح صوبے کے 22 اضلاع میں انصاف آفٹر نون اسکولز کا قیام عمل میں لایا گیا۔پہلے مرحلے میں 719 اسکولوں میں 15000 بچے داخل ہوئے۔

یہ صرف چند اشارے ہیں۔اس کی تفصیل کے لیے ہر شعبہ پر الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے. پنجاب کے بہت سارے سیکرٹری صاحبان سے مل چکا ہوں اور تفصیلی میٹنگز بھی ہوئی ہیں۔اکثریت آج کا دن خیر سے گزرنے کی منتظر اور اپنا کام دوسرے کے سر پر ڈالنے کی کوشش میں ہے۔غلطی سے اگر آپ نے کوئی تجویز دے دی تو وہ آپ کو یا تو غلط ثابت کریں گے یا پھر تمام تر بار آپ کے گلے میں ڈال دیں گے ۔دونوں صورتوں میں وہ خود سرخرور رہتے ہیں۔اور وزیر اعلی کو سب اچھا کی رپورٹ پیش کر دیتے ہئں۔

کوئی دس کے قریب سیکرٹری حضرات کے تلخ تجربے کے بعد میں نے اپنی ایک سوچ بنا لی تھی تاہم سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر صاحب تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوئے۔اور چند دن کی ملاقات کے بعد لگتا ہے کہ پرانی دوستی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ ہر کام کرنے والے سے ان کا ایسا ہی تعلق ہے۔بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ موجود رہتی ہے۔لیکن نیت ٹھیک اور پلاننگ درست ہو تو کام ہو سکتا ہے۔اور راجہ جہانگیر صاحب یہی کام کر رہے ہیں ۔
وزیر اعلی پنجاب تاریخ میں ذندہ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دور نہیں قریب کی مثالوں سے بات بن سکتی ہے۔ایک طرف مغلوں کے سینکڑوں سال اور دوسری طرف شیر شاہ سوری کے چند سال، لیکن شیر شاہ سوری کے کام آج بھی ذندہ ہیں۔

آپ ایک نرم خو اور ہمدرد باپ کے بیٹے اور ایک جرات مند قبیلے کے سردار ہیں۔نرم خوئی ، ہمدردی اور اللہ کو راضی کرنے کےلیے مخلوق خدا کی خدمت آپ کا شعار ہونا چاہئے۔آپ کی اپنی شخصیت ہے۔اسی کو زندہ کریں۔اور زندہ رہنے دیں۔ایم این اے ، ایم پی اے تو کیا ایک عام آدمی کو بھی اپنا انتظار نہ کروائیے گا۔جو انتظار کرواتے تھے ان کا حال کبھی اچھا نہیں ہوا۔

روٹین کے کام ہوتے رہتے ہیں لیکن وزیر اعلی کو اپنے خصوصی اقدامات کے لیے خصوصی توجہ دینا ہو گی ۔اور ایمبولنس ہیلی کاپٹر جیسے اپنے منصوبوں کو حکومت اور نجی شعبے کے ہمدرد اور بہی خواہوں کو ملا کر معاشرے کی بدحالی ، نا انصافی اور نظام کی خامیوں کے خلاف اپنی 21 سال قبل شروع کی گئ جنگ میں حقیقی کامیابی حاصل کر سکتےہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے