مورخ بھی تھک گیا ہے

میں آج بھی جب بے نظیر بھٹو کی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ آخری تصویر دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں‘تصویر میں بھٹو صاحب کیمل کلر کی چادر اوڑھ کر سلاخوں کے پیچھے ننگے فرش پر بیٹھے ہیں‘ بے نظیر بھٹو سفید لباس اور سیاہ چادر میں سلاخوں کی دوسری طرف بیٹھی ہیں‘ باپ اور بیٹی نے سلاخوں کے اندر سے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے ہیں اور جیل سپرنٹنڈنٹ یونیفارم میں ہاتھ میں چھڑی لے کر بی بی کے پیچھے کھڑا ہے‘ یہ تین اپریل 1979 کی تصویر ہے‘ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو بھٹو صاحب سے آخری ملاقات کے لیے صرف 30 منٹ دیے گئے تھے۔

ملاقات کا وقت ختم ہو گیا‘ سپرنٹنڈنٹ نے مضبوط آواز کے ساتھ کہا ’’ٹائم از اوور سر‘‘ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘‘ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ’’میں نے جب یہ فقرہ سنا تو میں نے مضبوطی سے جیل کی سلاخیں پکڑ لیں اور بھکاریوں کی طرح جیلر کی منت کی پلیز جیل کا دروازہ کھول دو‘ میں اپنے بابا کو گڈ بائے کہنا چاہتی ہوں لیکن جیلر نے انکار کر دیا‘ میں نے دوسری بار جیلر کی منت کی اور اس سے کہا‘ میرا والد پاکستان کا منتخب وزیراعظم ہے اور میں اس کی بیٹی ہوں‘ یہ ہماری آخری ملاقات ہے‘ پلیز مجھے میرے والد سے ملنے دیں مگر جیلر نے دوبارہ انکار کر دیا‘‘۔

بے نظیر بھٹو کی کتاب کا یہ حصہ بہت جذباتی ہے‘ میں ایک حساس ترین احمق ہوں چناں چہ میں جب بھی اس حصے پر پہنچتا ہوں میرے آنسو نکل آتے ہیں اور میں کتاب بند کر دیتا ہوں‘ میں آج تک بے نظیربھٹو کی ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کے تمام پیرا گراف اکٹھے نہیںپڑھ سکا‘ بیٹی اور باپ کا رشتہ کیا ہوتا ہے یہ صرف باپ اور بیٹیاں جانتی ہیں‘ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہانے بہانے سے روز حضرت فاطمہؓ کے گھر جاتے تھے‘ اپنی صاحبزادی کو دیکھتے تھے اور خوش ہو کر واپس آتے تھے‘ آپ نے حضرت فاطمہؓ کی نبی اکرمؐ سے آخری ملاقات کا واقعہ بھی پڑھا ہوگا‘ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کے کان میں سرگوشی کی تو آپؓ رونے لگیں۔

پھر انھیں قریب بلا کرسرگوشی کی تو آپؓ خوش ہو گئیں‘ پوچھنے والوں نے پوچھا تو بتایا مجھے جب نبی اکرمؐ نے بتایا ہماری جدائی کا وقت آ گیا ہے تو میں اپنے آنسو نہ روک سکی‘ آپؐ نے مجھے اداس دیکھ کر فوراً بتایا تم میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھے آ کر ملو گی اور میں خوش ہو گئی‘ یہ بات سچ ثابت ہوئی‘ حضرت فاطمہؓ نبی اکرمؐ کے وصال سے چھ ماہ بعد رحلت فرما گئیں‘ بیٹی اور باپ کا رشتہ یہ ہوتا ہے‘ ہمارے بیٹے بڑے ہو کر ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں مگر بیٹی کے ساتھ ہمارا رشتہ دائمی ہوتا ہے‘ یہ آخری سانس تک بیٹی رہتی ہے‘ یہ ہر سانس کے ساتھ اپنے والد کو یاد کرتی ہے۔

بھٹو صاحب کا زمانہ بحرانوں اور انتشار کا دور تھا‘ یہ سول ڈکٹیٹر بھی تھے‘ یہ نیشنلائزیشن سمیت بے شمار غلط فیصلے بھی کرتے رہے‘ یہ لوگوں کو شاہی قلعے اور دلائی کیمپ کے عقوبت خانوں میں بھی پھینکتے رہے اور انھوں نے لاہور میں مارشل لاء بھی لگا دیا‘ الیکشنوں میں دھاندلی بھی ہوئی اور یہ ذہنی طور پر ایک جاگیردار بھی تھے وغیرہ وغیرہ‘ ہم بے نظیر بھٹو پر بھی کرپشن اور اقرباء پروری کے سیکڑوں الزامات لگا سکتے ہیں لیکن ہم ان تمام الزامات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو سے والد اور بے نظیر بھٹو سے بیٹی کا رشتہ نہیں چھین سکتے‘ ہم ان کے جذبات کی نسیںنہیں کاٹ سکتے اور دنیا کا کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی عدالت اور کوئی حکومت بیٹی کو اپنے والد اور والد کو اپنی بیٹی سے محبت سے محروم نہیں رکھ سکتی۔

ہم بحیثیت انسان گناہ گار ہو سکتے ہیں‘ ہم مجرم بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے جرم‘ ہمارے گناہ کے ردعمل میں ریاست کو گناہ گار یا مجرم نہیں بننا چاہیے‘ عدالتیں ظالم کو سزا دے سکتی ہیں لیکن دنیا کا کوئی قانون انھیں ظالم پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ قاتل نے مقتول کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر قتل کر دیا‘یہ سنگ دلی‘ یہ سفاکی ہے لیکن دنیا کی کوئی عدالت اور دنیا کی کوئی ریاست قاتل کومشین میں ڈال کر اس کا قیمہ نہیں بنائے گی‘ مجرم سنگ دل ہو سکتا ہے لیکن ریاست یا عدالت نہیں‘ ریاست سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو بھی اس کے جائز انسانی حقوق دیتی ہے۔

یہ قصور کی 9بچیوں کے قاتل عمران علی کو بھی خود کو بے گناہ ثابت کرنے اور خاندان سے ملاقات اور عزت کے ساتھ تدفین کا موقع دیتی ہے‘ ہم فرض کر لیتے ہیں بھٹو صاحب نے نواب محمد احمد خان کو قتل کیا تھا اور عدالت اور ریاست نے انھیں قانون کے مطابق سزا دی (گو ثابت ہو چکا ہے بھٹو صاحب کی سزا عدالتی قتل تھا) لیکن کیا ہماری ریاست میں اتنی انسانیت بھی نہیں تھی یہ آخری ملاقات میں ملک کے منتخب وزیراعظم سے اس کی بیٹی کو ملنے کی اجازت دے دیتی۔

یہ جیل کا دروازہ کھول دیتی اور بیٹی کو آخری بار اپنے والد کے سینے سے لگنے‘ آخری بار اپنے باپ کی خوشبو سونگھنے کی اجازت دے دیتی‘ کیا قیامت آ جانی تھی؟بیٹی کے باپ سے ملنے سے اقتدار کی کون سی کرسی ٹوٹ جاتی یا کس کی انا کا کون سا کنگرا گر جاتا؟ بے نظیر بھٹو کے دل پر ملال کا یہ پھوڑا تونہ اگتا کہ میں آخری بار اپنے والد کے سینے سے نہیں لگ سکی‘ ہم دونوں ایک دوسرے کے آنسوؤں کی نمی محسوس نہ کر سکے مگر افسوس ہم میں 1979میں بھی اتنا ظرف نہیں تھا اور ہم آج بھی نقدی دل سے اتنے ہی محروم ہیں‘ ہم آج بھی قلاش ہیں۔

میاں نواز شریف اس وقت زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے ہیں‘ ڈاکٹروں کی تمام رپورٹس پریشان کن ہیں مگر آپ حکومت اور ریاست کا ظرف دیکھیے‘ یہ مریم نواز کو بھی اپنے والد سے ملنے نہیں دے رہی‘ میاں نواز شریف کی دوسری صاحبزادی عاصمہ نواز لندن میں ہیں‘ یہ والد سے ملاقات کے لیے آنا چاہ رہی ہیں لیکن انھیں میاں نواز شریف نے روک دیا‘ یہ سمجھتے ہیں ہمارے ملک میں کسی کے خلاف کسی بھی وقت کوئی بھی مقدمہ بنایا جا سکتا ہے‘ میری ایک بیٹی جیل میں ہے‘ یہ مجھے مزید کم زور کرنے کے لیے میری دوسری بیٹی کو بھی جیل میں ڈال سکتے ہیں۔

چناں چہ انھوں نے اسے روک دیا اور کہا ’’میرے ساتھ کچھ بھی ہو جائے مگر آپ نے پاکستان نہیں آنا‘‘ آصف علی زرداری بھی اسی حالت سے گزر رہے ہیں‘ یہ کرپٹ ہو سکتے ہیں‘ ہم مان لیتے ہیں‘ یہ چاند سے سونا چوری کر کے کھا گئے ہوں گے یا پھر یہ مریخ سے یورینیم نکال نکال کر بیچتے رہے ہوں گے یا پھر یہ ملک کے 14 ہزار ارب روپے ہڑپ کر گئے ہوں گے‘ آپ انھیں ان کے جرائم کی سزا ضرور دیں لیکن یہ کہاں لکھا ہے آپ ملک کے سابق صدر اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو حوالات میں ذلیل کریں ‘ آپ ان کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیں ‘ آصف علی زرداری نے جرم کراچی میں کیا تھا‘ آپ ان کا مقدمہ کراچی میں چلا لیں۔

آپ انھیں اپنے گھر کے قریب کراچی میں قید کر دیں اور آپ ان کے اہل خانہ‘ ان کی بیٹیوں سے ملاقات کی اجازت دے دیں‘ کیا فرق پڑتا ہے‘ اس سے انصاف کا کون سا الف گر جائے گا؟ آپ کیوں چاہتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری لاش بھی راولپنڈی سے لاڑکانہ جائے‘ یہ ظلم ہے اور کم از کم ریاست کو ظالم یا بے حس نہیں ہونا چاہیے‘ آپ این آر او نہ دیں‘ آپ بے شک ان لوگوں کی ساری جائیدادیں‘ سارے اکاؤنٹس ضبط کر لیں‘ آپ انھیں سزا بھی سنا دیں لیکن آپ انھیں جیلوں اور عدالتوں میں ذلیل نہ کریں‘ آپ یقین کریں یہ سلوک اگر کل عمران خان کے ساتھ بھی ہوا تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس کے ساتھ کھڑا ہو گا‘ جو اس کے لیے اس وقت کی حکومت سے ٹکرائے گا‘ ہم اگر اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ریاست کو قاتل یا ظالم بننے سے بچانا ہوگا‘ ہمیں اس کا دل بڑا کرنا ہوگا۔

ہم بہت دل چسپ لوگ ہیں‘ ہم نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ایک دھیلا وصول نہیں کر سکے‘ہم نے پوری دنیا میں ثابت کر دیا ہمارے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرپٹ ہے‘ ہم نے ثابت کر دیا ملک کے شیڈولڈ بینکوں تک میں جعلی اکاؤنٹس کھولے جا سکتے ہیں اور ان جعلی اکاؤنٹس سے کھربوں روپے اِدھر سے اُدھر کیے جا سکتے ہیں اور ریاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ ہم نے ثابت کر دیا یہ چوروں کا ملک ہے اور اس میں چور اقتدار میںآ جاتے ہیں اور یہ پورے سسٹم کو یرغمال بنا لیتے ہیں‘ ہم نے ثابت کر دیا ہمارے ملک کے آرمی چیف (جنرل پرویز مشرف) تک قاتل ‘ غدار اور کرپٹ ہو سکتے ہیں۔

ہم نے ثابت کر دیا ہمارے چیف جسٹس بھی کرپٹ اور انا پرست ہو سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کے جج بھی آمدنی سے زائد اثاثوں کے مالک ہو سکتے ہیں اور ہم اب یہ بھی ثابت کر رہے ہیں ہماری حکومتیں غیر قانونی‘ غیر آئینی اور سلیکٹڈ ہوتی ہیں اور ہم اس کے بعد حیرت سے کہتے ہیں دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی؟ یہ ہمیں ایف اے ٹی ایف میں کیوں گھسیٹ کر لے جاتی ہے! جناب جب سارے سابق وزراء اعظم اور صدور عدالتوں اور جیلوں میں ہوں گے اور جب وزیراعظم ہر عالمی فورم پر کھڑے ہو کر کہیں گے ہمارے ملک کی ساری اشرافیہ کرپٹ ہے اور میں سب کو لٹکا دوں گا تو پھر دنیا ہماری خاک عزت کرے گی؟ ہم جب اپنے منہ پر کالک لگا کر باہر جائیں گے اور دنیا سے کہیں گے ’’خبردار مجھے کالا کہا‘‘ تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ خدا خوفی کریں اور یہ کھیل بند کریں‘ اب تو مورخ بھی مرثیے لکھ لکھ کر تھک گیا ہے‘ یہ بھی اب کبھی ہماری طرف دیکھتا ہے اور کبھی قلم اور کاغذ کی طرف۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے