’’کرتار پور ‘‘

چند برس قبل اپنے پیارے دوست اور خوبصورت شاعر گروندر سنگھ عازمؔؔ کوہلی کے ساتھ مجھے دہلی سے امرتسر سفر کے دوران سرہندکے مقام پر حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر دعا کے بعد وہیں ہمسائے میں گوردوارہ فتح صاحب دیکھنے کا موقع ملا جہاں عازم کوہلی ماتھا ٹیکنے کے لیے رُکا تھا، سو اس رعایت سے باقی کا سفر اسی مسئلے پر گفتگو کرتے کٹا کہ ایک ہی ربّ کے یا ربّ کو ایک ہی ماننے والے لوگ مختلف گروہوں میں کیوں اور کیسے بٹ جاتے ہیں۔

ہم حسب توقع کسی حتمی نتیجے پر تو نہ پہنچ سکے مگر اس گفتگو کی معرفت مجھے سکھ مذہب، اس کی تاریخ ، عقائد ، مذہبی مقامات اور بالخصوص بابا گورونانک کے بارے میںکئی ایسی باتوں کا پتہ چلا جو اس سے قبل میرے ذہن میں اتنی واضح اور ترتیب وار نہ تھیں۔ ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب سکھوں کے لیے کم و بیش اسی طرح محترم اورمتبرک ہیں جیسے ہمارے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ لیکن اس فہرست میں کرتار پور بھی شامل ہے۔

اس کی نوعیت اور اہمیت کا مجھے اس سے قبل ٹھیک سے اندازہ نہ تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں نے مختلف کالموں، تحریروں اور گفتگوؤں میں اس بات کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سیاسی تعلقات، ہمسائیگی اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے اور باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ایک دوسرے کے عقیدوں کا احترام کرنا سیکھیں بلکہ ان کے حوالے سے موجود space میں مسلسل اضافہ بھی کرتے رہیں کہ روحانیات کے حوالے سے کیے گئے ہر مثبت کام میں ایک ایسی برکت بھی ہوتی ہے جو دلوں میں وسعت اور نرمی پیدا کرتی ہے۔

سو جب سے کرتارپور بارڈر کو ایک مخصوص راہداری کی شکل میں کھولنے کی بات شروع ہوئی ہے میں نے اس کے فروغ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش میں حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے، چاہے وہ ہمارے دوست سعیدمیو اور اُس کے کینیڈین احباب کے پرائیوٹ سطح پر ترتیب دیے جانے و الے پروگرام ہوں یا گورنر ہاؤس لاہور میں چوہدری محمد سرور کی حکومتِ پاکستان کے حوالے سے کی جانے والی پیش رفت کو جس کا مقصد سکھ بھائیوں کو اپنے ا س مذہبی مقام تک رسائی کو ممکن اور آسان بنانا ہے، اسی ضمن میں گورنر ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات نما کانفرنس میں میں نے ایک نظم بھی پڑھی تھی ۔

جس کا فوری حوالہ تو کرتار پور تھا مگر جس کی معرفت اسی سوچ کو بڑھاوا دیا گیا تھا کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی آزادی ہونی چاہیے اور اس ضمن میں کی جانے والی ہر کوشش لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لاتی ہے اور نفرتوں کی آگ ختم نہ بھی ہو لیکن مدھم ضرور پڑ جاتی ہے۔ پہلے یہ نظم دیکھیئے پھر آگے بات کرتے ہیں۔

نانک بانی

کرتار پور ہے خیر کے اک سلسلے کا نام

جس میں بس ایک خالقِ کون و مکان ہے

جس کی نظر کا فیض یہ سارا جہان ہے

جس کرم کی پھیلتی چادر کے سائے میں

جتنے بھی اُس کے ماننے والے ہیں، جابجا

ہو کر کسی بھی طرح کی تفریق سے جدا

سب جمع ہو کے ایک ہی گنتی میں آئے ہیں

اب جو بھی ان کی راہ سے کانٹے ہٹائیں گے

بچھڑے ہوؤں کو ایک ہی صف میں بٹھائیں گے

اُن سب کے واسطے ہے دعا، سب کو ہے سلام

وہ بھی خدا شناسی کے ایک مرحلے میں تھے

ہر اہلِ حق پہ فرض ہے نانکؔ کا احترام

کرتار پور ہے خیر کے اک سلسلے کا نام

عمران خان اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے اپوزیشن جماعتوں، عام عوام اور خود تحریک انصاف کے کارکنوں کے اختلافات اور مایوسی اپنی جگہ کہ اس سے بحث یہاں میرا مقصد بھی نہیں۔ پاکستان کے عوام اور نام کی بہتری اور ترقی کے لیے جو بھی قدم اُٹھائے اس سے قطع نظر اس کے تائید اور تعریف ضرور کرنی چاہیے کہ حکومت تو کسی ’’اور‘‘ کی ہو سکتی ہے مگر یہ ملک ہم سب کا ہے، سو میری دیانت دارانہ رائے میں کرتار پور کا ریڈور کے اختتام سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد سے قطع نظر ہمیں اسے ایک ایسے نیک اور احسن عمل کی شکل میں بھی دیکھنا چاہیے جس سے اﷲ اور اُس کے بندے دونوں خوش اور راضی ہوں گے۔

اس وقت ساری دنیا دل تنگ اور تاریک ہوتی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خلق خدا کے مفادات کے تعین اور اُن کے حفاظت کا ٹھیکہ ایسے ’’کم ظرف‘‘ خود پسند اور متکبر لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے جو اپنی کامیابی کے لیے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور ظلم کو جائز اور ضروری سمجھتے ہیں اور اُن کے پاس ایسا کرنے کے لیے بظاہر ہر طرح کی طاقت بھی موجود ہے، ان کا راستہ روکنے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لیے بنی نوع انسان کو جگہ جگہ کرتار پور جیسے کاریڈور بنا نا ہوں گے اور اس کے لیے تدبر، تفکر اور کوشش کے ساتھ ساتھ اسی بات پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ :

دلوں کی روشنی بُجھنے نہ دینا

وجودِ تیرگی، محکم نہیں ہے

میں تین چار دن کے لیے دوحہ قطر کی مجلسِ فروغ اُردو ادب کے سالانہ مشاعرے اور ایوارڈز کی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہا ہوں اور انشاء اللہ واپسی پر کرتار پور کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت میں عملی طور پر بھی حصہ لوں گا۔ امید ہے کہ اُس وقت تک یہ ’’آزادی مارچ‘‘ بھی کسی نہ کسی کنارے لگ جائے گا۔

سکھ دوستوں کے ساتھ اس خیرسگالی کے مشن کو ہر مذہبی اقلیت اور اس کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کا ایک نیا آغاز سمجھنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف دلوں کی کدورتیں کم ہوں گی بلکہ اُن لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی اور رہنمائی ہو گی جو دانستہ یا نا دانستہ طور پر جہالت اور تنگ دلی کا شکار ہو کر گاہے گاہے انسانیت کے بنیادی تقاضوں کو بھی فراموش کر جاتے ہیں۔جاتے جاتے بابا گورونانک جی کی ایک خوبصورت اور فکر انگیز بانی ساتھ لیتے جایئے کہ:

ایک نے کہی دوسرے نے مانی

نانکؔ کہے دونوں گیانی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے